نواب ابوالقاسم امیر خانی اور ان کے بیٹے سندھ کی تاریخ میں انتہائی اہم مقام رکھتے ہیں ۔ نواب ابو القاسم خانی کے آبائو اجداد نے ازبکوں کی یورش کے زمانے میں مشہد سے قندھار کی طرف ہجرت کی تھی۔ نواب ابوالقاسم خان نے ابتدا میں کابل کے حاکم ملا عبدالحکیم کے پاس ملازمت کی، لیکن جب مغل اعظم شہنشاہ ہند،جلال الدین اکبر کی علم دوستی اور معارف نوازی کا شہرہ سناتو ابوالقاسم خان کابل سے ہندوستان چلا آیا اور اکبر اعظم کے ملازم کی حیثیت سے اس کے ساتھ رہنے لگا۔ اکبربادشاہ نے اس کی صلاحیتوں کو دیکھتے ہوئے اس کی بڑی پذیرائی کی اور اسے بھیرہ اور خوشاب کے علاقے جاگیر میں دے دیئے۔ ان علاقوں میں نمک کی کانیں موجود تھیں۔ نواب ابوالقاسم نے ایک دن نمک کا ایک پیالہ بنوا کر اکبر کے حضور پیش کیا، اس پر اکبر نے ابوالقاسم پر نمکین کی پھبتی کسی ۔ یہ پھبتی ابوالقاسم کے نام کا جزو بن گئی اور لوگ اسے نواب ابوالقاسم خان کے بجائےنواب نمکین کے نام سے پکارنے لگے۔ چند سال بعد اس پر ترقی اور کامرانی کے دروازے کھل گئے۔شہنشاہ اکبر نے 1007ھ میں اسے بھکر کا ناظم مقرر کیا۔ حاسدوں نے اس کی نظامت کو پسند نہیں کیا اور اس کے خلاف سازشوں کے جال بچھادیئے اور کئی شکایتیں اکبراعظم تک پہنچائیں ۔ اکبربادشاہ نے اسے معزول کردیا، لیکن اس کے حفظ و مراتب اور منصب میں کسی قسم کی کمی بیشی نہیں کی۔ جب اکبر بادشاہ کا انتقال ہوا تو نواب ابوالقاسم خان نے حصول اقتدار کے سلسلے میں شہزادہ نورالدین سلیم کی بہت مدد کی، جو بعد ازاں شہنشاہ جہانگیر کے نام سے ہندوستان کا بادشاہ بنا۔ جہانگیر نے برسر اقتدار آنے کے بعد سب سے پہلے ابوالقاسم پر نوازشات اور عنایات کی بارش کی، اس کے اعزاز و اکرام میں اضافہ کیا اور اسے دوبارہ بکھر کی نظامت سونپ دی گئی۔ نواب ابو القاسم خان کو بھکر کی آب و ہوا اس قدر پسند آئی کہ اس نے مستقل طورپر یہیں رہنے کا فیصلہ کیا اور اپنے دور اقتدار میں یہاں متعدد مسجدیں بنوائیں۔ جن میں سے بعض کے آثار شاید ڈھونڈنے سے آج بھی مل جائیں۔ اس کےخاندان کے افراد کی بڑی تعداد اس کے ساتھ ہی بھکر میں مقیم تھی جن کی موت کی صورت میں انہیں دفنانے کا مسئلہ بھی درپیش تھا۔اس لیے اس نے ان کی تدفین کے لیے ایک ’’خاندانی قبرستان‘‘ کی ضرورت محسوس کی۔ قبرستان کی تعمیر سے اس کا مقصود یہی تھا کہ کہ اس کے خاندان کے تمام افراد کی آخری آرام گاہیں ایک ہی جگہ بنی ہوئی ہوں ۔ چنانچہ اس نے روہڑی اور سکھر کے قریب ایک پہاڑی مقام پر وسیع و عریض رقبے پرایک قبرستان ’’صفہ صفا ‘‘ کے نام سے تعمیر کروایاجس کی آرائش و زیبائش کا خاص خیال رکھا گیا۔
میر ابو البقاامیر خانی، نواب ابوالقاسم خان کا بیٹا تھا۔ وہ کارشناسی اور معاملہ فہمی کے لحاظ سے اپنے تمام بھائیوں میں ممتاز حیثیت کا حامل تھا ۔ اس نے اپنے باپ نواب ابوالقاسم خان کی زندگی میں ہی اپنی ذاتی صلاحیتوں کی بناء پر ترقی کی اوراکبر بادشاہ کے دربار میں پانچ سو کا منصب حاصل کیا۔ جہانگیر کی بادشاہت کے دور میں اس کی مزید پذیرائی ہوئی اور اسے دو ہزار پانچ سوذات اور ایک ہزار پانچ سوسو ار کے منصب عطا کئے گئے ۔ اسی کے ساتھ جہانگیر نے اسے ملتان کی صوبہ داری بھی سپرد کی ۔ جب جہانگیر نے وفات پائی اور شاہجہاں نے عنان حکومت سنبھالی تو ایک بار پھر میر ابوالبقا پر ترقی اور کامرانی کے دروازے کھل گئے۔ شاہجہاں نے اپنی تخت نشینی کے دوسرے سال یعنی سنہ1039ھ میں اس کو ٹھٹھہ کا صوبہ دار مقرر کیا۔ ٹھٹھہ میں قیام کے دوران میر ابو البقا نے امیر خانی کے نام سے ایک مسجد تعمیر کروائی اور اسی کے قریب امیر خان کے نام سےایک محلہ بھی آباد کیا ، جس میں اس کے ملازمین اور اہل خاندان رہتے تھے۔ میر ابوالبقا کا ٹھٹھہ میں قیام سنہ 1041ھ تک رہا لیکن اس کے بعد اسے جونا گڑھ اور دولت آباد کا صوبہ دار بنادیا گیا۔ وہاں گیارہ سا ل کا عرصہ گزارنے کے بعد اسے 1052ھ میں دوبارہ ٹھٹھہ کا صوبے دار مقرر کیا گیا۔ چونکہ وہ اس سے قبل دو سال ٹھٹھہ کا حاکم رہ چکا تھا اور اس نے اس عرصے میں علاقے کی خوش حالی ، عوام کی فلاح و بہبود اور رفاہ عامہ کے بے شمار کام کرائے تھے، اس لیے اس کی دوبارہ تعیناتی پر اہل سندھ نے اس کا والہانہ استقبال کیا اور اس کے ساتھ ہر ممکن تعاون کیا۔
سندھ کے تاریخ نویس اور وقائع نگار میر علی شیرقانع نے میر ابوالبقا کی دانش مندی اور فہم و فراست کی بڑی تعریف کی ہے۔ اس نے لکھا ہے کہ امیر ابوالبقاآئینہ میں ہر روز اپنا عکس دیکھتا تھا اور اس کو سلام کرتا تھا۔ بعض پرچہ نویسوں نے اس کی اطلاع شاہجہاں کو دے دی اور لکھا کہ میر ابولبقا کے دماغ میںخلل واقع ہوگیا ہے، جس کی وجہ سے وہ آئینے میں اپنا عکس دیکھ کر سلام کرتا ہے۔ بادشاہ نے میر ابوالبقا کو اپنے حضور طلب کرکے اس سے اس الزام کی وضاحت چاہی۔ میر ابوالبقا نے کہا کہ میں جہاں پناہ کے سایہ عاطفت میں بوڑھا ہوگیا ہوں اور اس بات پر سلام پیش کرتا ہوں کہ میرے بالوں کی سپیدی مجھے جہاں پناہ کےلطف ہ عنایت اور انعام و اکرام کی یاد دلاتی ہے۔ شاہجہاں اس جواب سے بہت محظوظ ہوا اور اسے انعام و اکرام دے کر رخصت کیا۔
ٹھٹھہ میں اپنی صوبے داری کے زمانے میں میر ابوالبقا نے ویسے تو لاتعداد کارنامے انجام دیئے ہیں لیکن اس نے اپنے دوسرے دور حکومت میں جو لازوال کارنامہ انجام دیا وہ ٹھٹھہ میں جامع مسجد شاہ جہانی کی تعمیر ہے جو آج بھی ایک حسین و جمیل شاہ کار کی صورت میں موجود ہے اور ملک بھر سے روزانہ سیکڑوں لوگ اسے دیکھنے کےلیے آتے ہیں ۔میر ابوالبقا نے اس مسجد کی تعمیر کا کام 1054ہجری میں شروع کروایا تھا جس کی تکمیل سنہ 1057ھ یعنی چار سال میں ہوئی۔ اس مسجد کی تعمیر پر نو لاکھ روپے صرف کئے گئے اس کی بنیادیں پتھروں کی بنائی گئیں۔ باقی عمارت کو پختہ کاشی کار اینٹوں سے مزئین کیا گیا ہے۔ اس کی چھت کے چھوٹے بڑے گنبدوں کی مجموعی تعداد 99ہے جن میںسے تین گنبد اس اعتبار سے زیادہ اہم ہیں کہ ان کی اندرونی جانب رنگین اینٹیں لگی ہوئی ہیں۔ اس مسجد کی وسطی عمارت کا رقبہ 17x3.5مربع فٹ ہے۔ اس میں چار مقامات پر کتبے لگے ہوئے ہیں جن پرقرآنی آیتیں کندہ کی گئی ہیں۔ان کتبوں کے علاوہ ایک اور کتبہ قابل ذکر ہے جو اس مسجد کی تعمیر کے بعد سنہ 1068ھ میں لگایا گیا تھا۔ اس زمانے میں غالباً اس مسجد کی فرش بندی کی گئی تھی۔ اس ایوان کے مغربی دروازے کے اندرونی اور بیرونی دونوں طرف کتبے ہیں۔ اندرونی طرف کا کتبہ طاق کے ساتھ تین ٹکڑوں میں خط نستعلیق میںلکھا ہوا ہے۔اس کے علاوہ اس مسجد میں کئی اور کتبے بھی موجود ہیں جو عربی میں لکھے گئے ہیں امتداد زمانہ نے ان کو شکستہ کردیا ہے اور ان کو صحیح پڑھنے میں دشواری ہوتی ہے۔ بعض مورخین کے بیان کے مطابق میر ابوالبقا نے اس مسجد کے لئے چار سو حفاظ اور متعدد علماء اورمشاہیر کا انتخاب کیا تھا جو ٹھٹھہ میں موجود رہتے تھے۔جب اس مسجد کی تعمیر کا کام مکمل ہوچکا اور اس کی فرش بندی باقی رہ گئی تھی تو میر ابوالبقا نے 9ربیع الاول سنہ 1057ھ کو ایک سو سال سے زیادہ عمر میں انتقال کیا۔ مورخین کے بیان کے مطابق اس عمر میں بھی اس کے حواس بالکل درست تھے۔ اس کے عزیزو اقارب نے اسے کے جسد خاکی کو سکھر پہنچایا جہاں اس کے آبائی قبرستان صنعۂ صفا میں اپنے والد نواب ابوالقاسم خان نمکین کی قبر کے برابر میں سپرد خاک کیا گیا۔