زائرہ وسیم چند ہفتے قبل تک بالی وڈ کی معروف اداکارہ کی حیثیت سے جانی جاتی تھیں۔ بالی وڈ سپراسٹارعامر خان کی فلم ’’دنگل‘‘ میں کام کر کے زائرہ نے عالمی شہرت کمائی،لیکن اب انہوں نے سوشل میڈیا کے ذریعے کہا کہ وہ بالی وڈ انڈسٹری کو خیرباد کہہ رہی ہیں،وجہ یہ بتائی کہ’’ فلمی دنیا میں کام کرنے کے باعث میرا ایمان خطرے میں پڑ گیا اور اللہ سے رشتہ کم زور ہو گیا تھا۔زائرہ وسیم نے اس اعلان کے ساتھ ہی سوشل میڈیا اکاؤنٹس سے اپنی تصاویر بھی ہٹادیں۔زائرہ نے اپنے نوٹ میں لکھا ہے کہ،جیسے ہی انہوں نے بالی وڈ میں قدم رکھا،ان کی شہرت آسمان کی بلندیوں پر پہنچ گئی۔عوام میں بے پناہ توجہ ملنے لگی۔مجھے نوجوانوں کے لیے رول ماڈل کے طور پر پیش کیا جانے لگا،لیکن پانچ سال فلم انڈسٹری میں گزارنے کے بعد مجھے محسوس ہوا کہ میں شہرت اور اپنے کام سے خوش نہیں،اگرچہ لوگوں کی محبت ملی ،حوصلہ افزائی بھی کی لیکن میری زندگی سے برکت ختم ہوگئی تھی۔میں فرار کے راستے تلاش کرنے کی کوشش کرتی رہی،لیکن اطمنان نہ پا سکی،پھر میں نے اللہ تعالی سے ہدایت کی دعا مانگی۔مجھے احساس ہوا کہ میںنے کیریئر بنانے کے لیے غلط شعبے کا انتخاب کیا۔کام یابی،دولت،شہرت یا طاقت سے کوئی اپنے ایمان اور سکون کا سودا نہیں کرسکتا‘‘۔زائرہ وسیم کے اس اقدام کےبعدانہیں پروگرام بگ باس میں شرکت کا دعوت نامہ ملا،جس کا کروڑوں کامعاوضہ تھا،لیکن انہوں نے یہ کہہ کر انکار کر دیا کہ دولت ہی سب کچھ نہیں۔
زائرہ وسیم کی سوشل میڈیا پر خبرنے وائرل ہونے اور اخبارات میں شایع ہونے کے بعدفلمی شائقین کو چونکا دیا ۔یقیناًکہ اپنے کیرئیر کے عروج پر اتنابڑا فیصلہ کرنا آسان نہیں۔ ہم میں سے کتنے ہی ایسے لوگ ہیں جو کیریئر کے انتخاب میں درست فیصلہ نہیں کرپاتے اور خود کو غلط سمت میں پا کر جلد بہ دیر رخ تبدیل کر لیتے ہیں۔شوبز کی دنیا میں بھی کیریئر بنانے کے لیے بڑی تعداد میں لوگ یہاں کا رخ کرتے ہیں اور اگرمطمین نہ ہوں تو سوچتے ضرور ہیں کہ یہاں آکر غلط کیا۔کیا ہمارے فن کار بھی کبھی ایسا سوچنے پر مجبور ہوئے کہ ان سے کیرئیر کے انتخاب میں غلطی ہوئی؟یہ جاننے کے لیے ہم نے چند معروف فن کاروں سے بات چیت کی۔ملاحظہ فرمائیے:
سنگیتا
’’سنگیتا‘‘،فلم انڈسٹری کا ایسا نام ہے،جسے فراموش کرنا آسان نہیں۔انہوں نے ماضی میں فلموں میں مرکزی کردار ادا کیے بعد ازاں وہ ہدایت کاری کے شعبے سے وابستہ ہو گئیں۔ان کی کام یاب فلموں اور ڈراموں کی فہرست بھی طویل ہےاور عرصہ بھی طویل۔جب ہم نے ان سے پوچھا کہ زندگی کے کسی موڑ پر آپ کو یہ احساس ہوا کہ میں نے شوبز کی دنیا میں کیرئیر بنا کر غلط کیا تو انہوں نے چند لمحے سوچنے کے بعد کہا کہ،سنگیتا نے اپنے خیالات کا اظہار کرتے ہوئے کہا کہ،میں نے اپنی پیشہ ورانہ زندگی میں ایسا کبھی نہیں سوچا کہ میں کسی غلط فیلڈ میں آگئی ہوں،بلکہ مجھے توآج بھی ایسا لگتا ہے کہ میں بنی ہی شو بز انڈسٹری کے لیے ہوں۔مجھے اپنے کام سے عشق ہے،چاہے وہ اداکاری ہو یا ہدایت کاری ہو۔درحقیقت ہدایت کاری میرا خواب تھا ،جسے اللہ تعالیٰ نے پورا کیا۔میں نے 80فلموں کی ڈائریکشن کی ہے جو ایک ورلڈ ریکارڈ ہے۔میں زیادہ مطمین ہدایت کارہ کے طور پر ہوں۔میں تو نئے آنے والے اداکاروں یا اداکاری کا شوق رکھنے والے بچوں سے کہوں گی وہ اس جانب آئیں اور اس پیشے کو اپنا کیریئر بنائیں۔ہمارے نئے اداکاروں کو بھی چاہیے کہ توجہ سے کام کریں ،زندگی سے فالتو چیزیں نکالیں گے تو ترقی بھی کر سکیں گے۔یعنی ہر وقت موبائل فون پر لگے رہنا ،کام پہ توجہ نہ دینا، ایسے لا ابالی رویے ہیں جو کیرئیر کو نقصان پہنچاتے ہیں،پھر جب یہ لوگ ناکام ہوتے ہیں تو کہتے ہیں کہ ہمیں تو اس فیلڈ میں آنا ہی نہیں چاہیے تھا یا ہم اس طرف غلط آگئے۔پورے خلوص سے آگے بڑھیں تو پچھتاوا نہیں ہوگا۔
تنویر جمال
تنویر جمال نے شوبز میں کیرئیر کا آغازپی ٹی وی کے کراچی مرکز کے ڈراموں سے کیا اور مختصر مدت میںپہچان بنا لی۔بعدازاں وہ جاپان منتقل ہوگئے تاہم گاہے بگاہے وہ ٹیلی وژن پر نظر آتے ہیں،وہ اپنے اس تعلق کو توڑنا نہیں چاہتے اور اب بھی سینئر آرٹسٹ کے طور پر مداحوں کا حلقہ رکھتے ہیں۔ان کا کہنا تھا کہ،شو بز کی دنیا میں آئے ہوئےمجھے کافی عرصہ بیت چکا ہے،اداکاری کو میں نے شوق کے تحت اپنایا۔میرا پیشن مجھے یہاں تک کھینچ لے آیاہے۔اللہ کا شکر ادا کرتا ہوں کہ اس نے مجھے کامیابیاں عطا کیں۔میں اس پروفیشن میں ایک کام یاب اور مطمین زندگی گزاررہا ہوں۔کبھی ایسی سوچ نہیں آئی کے میں نے شوبز کی دنیا میں آ کر یا اداکاری کو پیشے کے طور پر اپنا کر غلط کیا ہو۔ کبھی نہیں پچھتایا،بلاشبہ جب میں نے اس میدان میں قدم رکھا تو انگنت پریشانیوں اور مسائل کا سامنا کرنا پڑا،بہت زیادہ دل شکستہ بھی ہوا، ہمت نہیں ہاری،لیکن جب اس شعبے میں پہچان بنا لی تو بہت عزت ملی۔اس بات کی بہت خوشی ہوتی ہے کہ لوگ پہچانتے ہیں اور بات کرنا چاہتے ہیں۔میں طویل عرصے سے جاپان میں مقیم ہوں،پاکستان آنا جانا رہتا ہے، یہاں آکر ڈراموں میں کام بھی کرتا ہوں،اس بات کی خوشی ہوتی ہے کہ جاپان میں بھی لوگ مجھے پاکستان کے حوالے سے جانتے ہیں کہ میں پاکستانی شوبز انڈسٹری سے تعلق رکھتا ہوں۔ہمیں نئے آنے والے فن کاروں کے لیے اچھی مثال قائم کرنی چاہیے،اُ ن کے ساتھ تعاون کرنا چاہیے۔یہ ضروری نہیں کہ اداکاری کے لیے تعلیم حاصل کی جائے۔بعض لوگوں میں خداد اد صلاحیتیں بھی ہوتی ہیں۔ضروری نہیں کہ ڈگری حاصل کرنے کے بعد آپ اس پیشے میں کامیاب بھی رہیں۔ ہماری شوبز انڈسٹری میں ایسے بے شمار فن کار ہیں جو خداداد صلاحیتوں کے باعث کام یاب ہوئے اور وہ آج اپنے پیشے سے مطمین ہیں۔میں نے اسے اپنا کر کوئی غلطی نہیں کی۔
عدنان صدیقی
عدنان صدیقی نے بہت کم عمری میں ماڈلنگ کے شعبے سے کیرئیر کا آغاز کیابعدازاں اداکاری کا شعبہ اپنا کرمختصر مدت میں کام یابی کے جھنڈے گاڑے،اُ ن کا کہنا تھا کہ،جب آپ کوئی کام کرتے ہیں تو یہ نہیں سوچتے کہ یہ کام میں بہت اچھا کر لوں گا،اس کے ساتھ آپ بہت سے دیگر کام شروع کرتے ہیں،اس میں دل نہیں لگتا اسے چھوڑ دیتے ہیں اسی طرح مزید تجربے کرتے ہیں۔ میرا فن کے شعبے میں کام کرنے کا سلسلہ 90کی دہائی میں شروع ہوا اور میں نے آغاز ماڈلنگ سے کیا تھا اور اس کے بعد اداکاری کی طرف آیا۔ساری بات دل چسپی کی ہوتی ہے۔اگر آپ اپنی جاب سے مطمئن نہیں ہیںتو وہ کام کرنا ہی نہیں چاہیے، خواہ آپ نے اس کام کی تعلیم ہی کیوں نہ حاصل کی ہو۔ظاہر ہےجب اس کام میں مزہ نہیں آرہا تو کوئی تُک ہی نہیں بنتا اسے کرنے اور بہ حیثیت پروفیشن اپنانے کے۔اس کی مثال اس طرح ہے کہ بیک وقت آپ الٹے اور سیدھے ہاتھ کے رخ پر نہیں مڑ سکتے،تو ایک آپشن آپ کو چھوڑنا پڑتا ہے،یعنی قربانی دینا پڑتی ہے۔جب آپ کسی ایک آپشن کو قربان کر کے دوسرے کی طرف جا رہے ہوتے ہیں تو آپ ساری کشتیاں جلا کے آگے بڑھتے ہیں۔ جب یہ صورت حال ہو تو آدمی بہت محنت کرتا ہے۔ میں نے بھی بہت محنت کی، ایک کیرئیر کو چھوڑ کر دوسرے کو اپنایااوریہ آسان کام نہیں تھا۔ہوسکتا ہے میں اس لیے بھی خوش قسمت ہوں کہ اس وقت صرف پی ٹی وی تھا،مقابلہ زیادہ نہیں تھا۔پہلا ڈراما ’’عروسہ‘‘ہٹ بھی بہت ہوا تھا۔اسے بے حد پسند کیا گیا تھااور میری بھی پہچان بنا۔میرے خیال میں کوئی بھی فیصلہ’ غلط‘ یا’ صحیح‘ نہیں ہوتا،بس وہ’’فیصلہ‘‘ہوتا ہے۔اس پر استقامت دکھانی ہوتی ہے۔میں بھی اپنے فیصلے پر قائم رہا،کوئی شارٹ کٹ نہیں ڈھونڈا،محنت کی ، خواہش یہ تھی کہ جب اس پیشے سے منسلک ہوگیا ہوں تواس سے وابستہ رہوں۔اللہ تعالیٰ نے کہا ہے مانگو جو مانگنا چاہتے ہو،وہ یہ نہیں کہتا کہ اتنا مانگو اور اُتنا نہیں مانگو،تو جتنا آپ مانگتے ہیں یا محنت کرتے ہیں آپ کو اُتنا ہی ملتا ہے۔یہ تو آپ پر منحصر ہے کہ آپ اپنے کام سے کتنے خوش ہیں۔مجھے ایسا لگتا ہے کہ جس فیلڈ میں ہوں وہاں ’میڈیاکر‘ کی کوئی جگہ نہیں ہے۔یعنی اداکاری کرنا ہے تو آپ اس کی چوٹی پہ جائیں جو اُس کی حد ہے،لہذا میں نے خلوص کے ساتھ اس پیشے کو اپنایا ہے اور اللہ کا شکر ادا کرتا ہوں۔اطمینان حاصل کرنے کے لیے آپ کو سمجھنا چاہیے کہ ہر بات کا ایک وقت مقرر ہے،اس کے لیے انتظار کرنا پڑتا ہے اور پھر وہ وقت چلا بھی جاتا ہے۔یعنی آپ ایک جیسے نہیں رہتے جیسے کل میں ہیرو تھااور ابھی تک اگر میں ہیرو آرہا ہوں تو یہ میرا کمال نہیں ہے۔زندگی میں acceptance بہت ضروری ہے۔اگر بال سفید ہوگئے ہیں تو اسے قبول کریں، میں انہیں جتنا بھی کالا کرنا چاہوں وہ حقیقت میں کالے نہیں ہوں گے۔جس کے اندر یہ اطمینان آجائےتو اسے کوئی مسئلہ نہیں ہوگا۔میں نے اسی اصول کے تحت زندگی گزاری ہے۔ میرا اداکاری کا فیصلہ درست تھا۔
اسد ملک
فلموں سے اداکاری کا آغاز کرنے والےاسد ملک کا تعلق لاہور سے ہے،بعدازاں انہوں نے ٹی وی ڈراموں میں بھی اداکاری کے جوہر دکھائے۔ان کا کہنا ہے کہ،اداکاری میرا شوق نہیں رہا ہے،لیکن میں اس فیلڈ سے ایک طویل عرصے سے منسلک ہوں، میں نے کبھی نہیں سوچا کہ میں شوبز انڈسٹری میں غلط آیا۔میں نے فلموں سے کیرئیر کا آغاز کیا کئی معروف ڈرامے بھی کیے۔اچھا پرفارم کر کے خوشی بھی بہت ہوئی۔اس لیے پچھتاوا تو کوئی نہیں البتہ جب میں لوگوں کے ساتھ اپنا اور اپنے ساتھ لوگوں کا رویہ دیکھتا ہوں تو محسوس ہوتا ہے کہ اس جانب تبدیلی کی ضرورت ہے،لیکن اگر میںیہ سوچوں کہ میں اس فیلڈ میں غلط آگیا ہوں توایسا بالکل نہیں ہے۔البتہ میں تھوڑا مایوس ضرور ہوا ہوں کہ یہاں میں نے کبھی کسی کی زبان سے سچ نہیں سنا،یہاں لوگ منہ پر جھوٹ بول دیتےہیں۔ میرے ساتھ مسئلہ یہ ہے کہ میں سیدھی بات کرتا ہوں، جھوٹ نہیں بول سکتا ۔آہستہ آہستہ میں اس رویے کا عادی تو ہوگیا ہوں لیکن خود کو کبھی اس لیول پر لے کر نہیں آیا کہ لوگوں کو دھوکا دوں یا جھوٹ بولوں یا اندر کچھ ہوں اور باہر کچھ اور۔میں نےآج کل اپنی پڑھائی کا سلسلہ دوبارہ شروع کردیا ہے اوراداکاری سے تھوڑا بریک لیا ہے، میں اسلامک اسٹڈیز میں پی ایچ ڈی کررہا ہوں،ممکن ہے میںاعلی تعلیم حاصل کر کے اس حوالے سے کیریئر بناؤں۔
لیلیٰ
پاکستان فلم انڈسٹری کی معروف اداکارہ لیلیٰ فلموں کے ساتھ اِن دنوں لاہور میں تھیٹر میں بھی پرفارم کررہی ہیں۔انہوں نے اداکاری کے ساتھ رقص کے شعبے میں بھی مہارت حاصل کی ہے۔انہوں نے بات کرتے ہوئے کہا کہ،میں بہت کم عمری میں ہی شوبز کی فیلڈ میں آگئی تھی تب مجھے یہ تک اندازہ نہیں تھا کہ میں اداکاری کر سکوں گی یا نہیں،لیکن میں نے محنت کی۔نشیب و فراز تو زندگی کے ساتھ چلتے ہیں،شروع میں میری فلمیں کام یاب ہوئیں لیکن آہستہ آہستہ فلمیں ملناہی کم ہو گئیں۔ویسے بھی اس وقت سینما اتنا پاپولر نہیں تھا جس قدر اب ہوگیا ہے۔اب ہر چیز ہی کمرشلائز ہو گئی ہے۔فلموں میں بھی بہت گلیمر آ گیا ہے۔میں نے نئے اداکاروں کے ساتھ بھی کام کیا ہے۔اچھا تجربہ رہا۔میرے ساتھ ایسا کبھی نہیں ہوا کہ یہ سوچا ہو کہ میں نے شوبز کی فیلڈ کو اپنا کر غلط کیا۔میں اپنے کام سے مطمین ہوں۔مجھے کچھ فرق نہیں پڑتا کہ دوسری ہیروئنیں میرے بارے میں کیا رائے رکھتی ہیں۔میں اپنے کام سے کام رکھتی ہوں۔اپنا پروفیشن کبھی نہیں چھوڑوں گی،یہی میرا فیصلہ ہے،جس پر پچھتاوا نہیں ہے۔
یاسرحسین
یاسر حسین نے نہ صرف اداکاری بلکہ کمپئیرنگ اورپلے رائٹنگ کے شعبے میں بھی اپنی پہچان بنائی ہے،وہ نئی نسل میں خاصے مقبول ہیں۔انہوں نے بات کرتے ہوئے کہا کہ، ہماری شوبزانڈسٹری کا میابی کی طرف گامزن ہے۔ ماضی کی طرح آج بھی یہاں سے نام ور اور باصلاحیت فن کار ابھر کر سامنے آئے ہیں۔میرے لیے تو اس انڈسٹری کا درجہ انسٹی ٹیوشن سے کم نہیں ہے میں نے یہاں بہت سیکھا ہے۔اکثر لوگ جب یہاں واردہوتے ہیں توسوچتے ہیں کہاں پھنس گئے ظاہر ہے کیریئر بنانے میں وقت لگتا ہے،لیکن اپنے ٹیلنٹ اور مستقل محنت سے جب اس کا حصہ بن جاتے ہیں تومقام بھی بنا لیتے ہیں۔ ہر فیلڈ میں ایسا ہی ہوتا ہے۔ہر جگہ اچھے اور برے لوگ ہوتے ہیں ،چاہے بینکنگ کا شعبہ ہو،پولیس کاہو یا ٹیچنگ کا۔لاکھوں ،کروڑوں لوگوں میں گنتی کے چند لوگوں کو ناظرین ٹی وی پر دیکھتے ہیں،لہذا ان چند لوگوں میں اپنی پہچان بنانا آسان کام نہیں اور جب آپ کی پہچان بن جاتی ہے تو یہ کیسے کہہ سکتے ہیں کہ غلط جگہ آگئے،لیکن اگر کامیاب نہیں ہو پا رہے،یا آپ کے کام کی قدر نہیں کی جارہی ،توپھر سوچ سکتے ہیں کہ غلط جگہ کا انتخاب کیاہے۔ شروع میں مجھے بھی مشکلات پیش آئیں،لیکن لگن، جستجو اور اپنے شوق کی وجہ سےاب اس انڈسٹری کا حصہ بن چکا ہوں۔