حمایت علی شاعر کا نام اردو زبان سے واقفیت رکھنے والوں کے لیے اجنبی نہیں،نام میر حمایت علی اور شاعر تخلص ہے۔ ان کی ادبی خدمات کا سلسلہ گذشتہ پانچ دہائیوں پر پھیلا ہے۔ پروگراموں کی تنظیم ، مشاعرے ہوں یا پھر تحقیقی کام ، حمایت علی شاعر نے بہت سی اصناف میں کام کرکے اپنا سکہ جمایا ۔
اورنگ آباد، بھارت کے ایک فوجی خاندان سے تعلق رکھنے والے حمایت طراب ، جنہیں اردوزبان و ادب سے محبت کرنے والی دنیا حمایت علی شاعر کے نام سے جانتی ہے، اپنے والد کی خواہش کے برعکس فوج کی بجائے ِ ادب کے شعبےسے وابستہ ہوئے۔سندھ یونیورسٹی سے اردو میں ایم اے کیا ۔ عملی زندگی کا آغاز حیدرآباد دکن سے کیا۔ صداکار، اناؤنسر، نیوز ریڈر اور کمینٹٹر بھی رہے۔وہ کہتے تھے کہ جب میں حمایت طراب تھا، اس زمانے میں افسانے لکھا کرتا تھا۔ ایک دن ہمارے ابا ناراض ہو گئے کہ ایسے افسانے تم میرے نام سے لکھتے ہو، کیونکہ میرے نام میں ان کا نام شامل تھا ۔ تو پھر میں نے شاعری شروع کردی اور اپنا تخلص ’’شاعر ‘‘کر لیا اور ان کا نام چھوڑ دیا۔ وہ 1950ء کے اوائل میں کراچی آکر ریڈیو پاکستان کا حصہ بنے۔جہاں مختلف ذمہ داریاں انجام دینے کے ساتھ 60ء کے عشرے میں نہ صرف عربی و اردو نعت کی سات سو سالہ تاریخ پر مفصل تحقیق کی، بلکہ اردو ادب میں غزل کے آغاز سے لے کر عصر ِ حاضر تک غزل کے بدلتے اسلوب اور روایات کے ساتھ ساتھ شعراء کرام کے انداز پر بھی تفصیلی روشنی ڈالی۔تاہم وہ علامہ اقبال کو اردو شاعری کی سب سے قدآور شخصیت مانتے تھے۔حمایت علی شاعر نے شاعری میں ایک نیا تجربہ’’ثلاثی‘‘ کے تحت کیا ہے، جس میں تین مصرعے ہوتے ہیں۔ حمایت علی شاعر سندھ یونیورسٹی کے شعبۂ اردو سے بھی منسلک رہے۔اخبارات میں بھی لکھتے رہے۔ان کی تصانیف میں:’آگ میں پھول‘، ’شکست آرزو‘، ’مٹی کا قرض‘، ’تشنگی کا سفر‘، ’حرف حرف روشنی‘، ’دود چراغ محفل ‘(مختلف شعرا کے کلام)، ’عقیدت کا سفر ‘ (نعتیہ شاعری کے ساتھ سو سال، تحقیق)، ’آئینہ در آئینہ‘(منظوم خودنوشت سوانح حیات)، ’ہارون کی آواز‘(نظمیں اور غزلیں)، ’تجھ کو معلوم نہیں‘(فلمی نغمات)، ’کھلتے کنول سے لوگ‘(دکنی شعرا کا تذکرہ)، ’محبتوں کے سفیر‘(پانچ سو سالہ سندھی شعرا کا اردو کلام) قابل ذکر ہیں۔ حمایت علی شاعر کونگار ایوارڈ(بہترین نغمہ نگار)، رائٹرگلڈآدم جی ایوارڈ، عثمانیہ گولڈ مڈل (بہادر یار جنگ ادبی کلب) سے نوازا گیا۔ ان کی ادبی اور دیگر خدمات کے صلے میں حکومت پاکستان نے صدارتی ایوارڈ سے بھی نوازا۔ ۱۴؍جولائی۱۹۲۶ء کو اورنگ آباد(دکن) میں زندگی کی پہلی سانس اور16جولائی2019 کو آخری سانس لی۔
زیرنظر مضمون میں حمایت علی شاعر کے نام چند خطوط اور ان کے مجموعہ کلام ’’مٹی کا قرض‘‘ کے بارے میں نذرِ قارئین ہیں۔
بعض شاعر ایسے ہوتے ہیں جو سوال اُٹھاتے ہیں اُن کا جواب نہیں دیتے ۔ بعض اَن کہے سوالوں کا جواب دیتے ہیں اور بعض سوال و جواب کے اس قصے سے آزاددل کی بات بیان کرتے رہتے ہیں ۔حمایت علی شاعر اُن سخن وروں میں ہیں جو سوالوں کا جواب دیتے ہیں اور فکری استدلال کا سہارا لے کر شعر کو فکر کا وسیلہ بناتے ہیں وہ سوال بھی اُٹھاتے ہیں جواب بھی دیتے ہیں،مجھے ان کا مجموعہ کلام ’’مٹی کا قرض‘‘ کو پڑھ کر یہی محسوس ہوا ہے ۔
شاعر کا مرکزی سوال روح اور بدن کی جنگ سے متعلق ہے یہی جنگ آگے چل کر فطرت اور انسان کی کشمکش بن جاتی ہے اس آویزش میں شاعر ، انسان بدن اور مٹی کا طرف دار ہے ۔بدن اور مٹی کا یہ اعلان جنگ ، اپنے عہد کے شعور اور تاریخی حرکت ارتقائی کے حوالے سے ہے اور شاعر ہمیں باور کراتا ہے کہ بدن روح پر دھرتی آسمان پر اور انسان فطرت پر غلبہ پا کے رہے گا ۔شاعر نے ان افکار کے لیے سورج (خورشید) چاند (مہتاب) چاندی دھوپ نور اجالا اور شمع کو علامت بنایا ہے اور ان کے مقابلے میں تاریکی اندھیرا ۔۔۔۔اور شب کو اور اس تاریکی اور سکوت و خاموشی (سناٹا) کو بطور ضد استعمال کیا ہے۔اس آویزش میںفطری طور پر اندیشے اور خوف اور وسوسے بھی ابھرتے ہیں اور وحشت کی فضا بھی ہے جو شعر کے داخلی المیے میں ایک معنی پیدا کرتی ہے۔ شاعر نے مٹی کے قرض میں وطن اور خاک وطن کی پرستش کے واجبات کا بھی تذکرہ کیا ہے اور اسے اپنی سر زمین کے بعض واقعات سے وابستہ کیا ہے ۔یہ ہے contentکو حمایت علی شاعر کے اس مجموعے میں مختلف عنوان کے تحت بیان ہوا ہے اورمیں اِسے شاعرؔ کا فکری مینی فیسٹو کہنا چاہوں گا ۔ اپنے موضوع کی نثری تشریح دیباچے میں خود شاعر نے پیش کردی ہے۔ شاعری کے ایک مجموعے پر اتنی سنگلاخ فکری گفتگو بعض کے لیے تعجب انگیز ہو گی مگر تعجب اس لیے نہ ہونا چاہیے کہ حمایت علی شاعر کا یہ شعری مجموعہ ہماری فکر ی شاعری کا نمائندہ ہے اس کے کلام میں فکری حقائق عمدہ شاعری بن کر نکلے ہیں ۔۔۔۔! افکار نے تخلیقی پیکروں کی صورت اختیار کی ہے اس لیے یہ شاعری بھی ہے اور فکر بھی ۔۔۔! اور شاعر دونوں کے تقاضے پورے کر رہا ہے ۔
مٹی کا قرض میں نظمیں بھی ہیں غزلیں بھی اور ثلاثیات بھی،حمایت علی شاعر کی ثلاثیات عام مثلثات سے یوں مختلف ہیں کہ ان میں رباعی کی طرح ایک مصرعی برجستی ایسا موجود ہے جس پر stressدینے سے ثلاثی کا مرکزی نکتہ سامنے آجاتا ہے لیکن فنی دوقیات کے اعتبار سے ثلاثی سے ایسا نکتہ بر آمد کرنا جو چونکا دینے والا ثابت ہو بمقابلہ رباعی مشکل ہوتا ہے ۔حمایت علی شاعر کی نظموں اور غزلوں کے درمیانی فاصلے کچھ زیادہ نہیں ۔اس کا سبب یہ معلوم ہوتا ہے کہ شاعر مفکر اور نکتہ آفریں فنکار ہے ۔آزاد نظم میں شاعر نکتے سے تصویر تک پہنچتا ہے جو شاعر آزاد نظم میں تخیلی نقاشی اور فضا سازی کے بجائے نکتہ آفرینی کو مرکزی اہمیت دے گا وہ نظم میں غزل کی سی فن کاری کرتا ہے، حمایت علی شاعر کی نظم ‘’ہوا ‘‘ اچھی خاصی غزل ہے اورخود نظم ’’مٹی کا قرض‘‘ بھی اچھی خاصی غزل ہے مگر اس مجموعے میں عمدہ نظموں کی بھی کمی نہیں مثلاً چاند ، خورشید کا رازداں اور بگولا اچھی نظمیں ہیں ۔مٹی کا قرض میں عہد کے بعض واقعات کے جذباتی ردعمل بڑے توجہ خیز ہیں۔ بابائے اردو اور حسن ناصر کی یاد میں جوکچھ لکھا ہے اُسے لہو میں پھول اگانے کے مترادف کہا جاسکتا ہے۔حمایت علی شاعر کو میں جب پسند کرنے لگا تھا تو ان کی غزل کے طفیل غائبانہ ذہنی ملاقات کا واقعہ پیش آیا ۔ میں میر تقی میر ؔکے عقیدت مندوں میں سے ہوں اور مجھے حمایت علی شاعر کی یہ بات اچھی لگی تھی کہ وہ بھی میرؔ پسند ہیں بلکہ بااندازِ میرؔ لکھتا ہے۔ موجودہ مجموعے میں بھی میرؔ کے مزار پر جلائے ہوئے چراغ روشن نظر آتے ہیں ۔شاعر کی غزل میں وہ بات جسے نکتہ کہا جاتا ہے اکثر ملتا ہے نکتہ کسی حقیقت کے بیان کو کہتے ہیں جس سے زندگی کے بارے میں کچھ عرفان ملتا ہو مگر کہنے کا انداز ایسا ہو جس میں ثقل نہ ہو اور طرز بیان ایمائی ہو ۔اس معاملے میں میرا ایک شخصی معیار ہے اور وہ یہ کہ نکتے والا شعر اگر پڑھتے ہی یاد ہو جائے تومیں اسے بلاخوف اچھا شعر کہہ دیتا ہوں میں نے چند اشعار کا انتخاب کیا ہے جو میری بیاض میں درج ہو گئے ہیں ۔ میں ان اشعار کا احسان مانتا ہوں کہ ان سے میرے جذبے کو فیض ملا ہے ۔ اب ایک ذاتی بات۔۔ ۔حمایت علی شاعر میرے لیے مانوس شخص تھا وہ مجھ سے ملا، اس کے ہاتھ میں ایک کتاب تھی جس کا نام ’’مٹی کاقرض‘‘ تھا عنوان سے مجھے غلط فہمی ہوئی میں اسے محض کومٹمنٹ کی کتاب سمجھا ،پھر میں نے اسے بادلِ نخواستہ پڑھا اور پڑھتا چلاگیا ۔۔۔مگر ہر ورق گردانی نے خیال گردانی کی!۔۔۔اس بے رنگ عنوان کے نیچے سے ایک اور کتاب نکل آئی جسے اگر کتابِ فکر ِرنگیں کہہ دیا جائے تو بے نہ ہوگا ،اگر میں شاعر کی جگہ ہوتا تو کتاب کانام شاعر کے چراغ رکھتا، مٹی کا قرض بڑا خشک عنوان ہے۔ایک اسی طرح کی بات دیباچے کے بارے میں بھی کہنا چاہتا ہوں کہ اس رسم سے اب تک مانوس نہیں ہو سکا کہ شاعرؔ اپنی شاعری کے فکری حصے پہ دیباچہ خود لکھے کیونکہ اس کے بعد نقاد کے پاس کچھ نہیں رہتا ۔تو مطلب یہ کہ میرا نصف دل دیباچے سے ناخوش رہا۔۔۔ لیکن یہ بھی حقیقت ہے کہ اسی دیباچے سے مجھے شاعر کی شخصی جذباتی کیفیت کا پتہ چلا ۔۔۔۔اور اتنا تو میں روا رکھتا ہوں اسے پسندیدہ سمجھتا ہوں کہ شاعر اپنی جذباتی شخصیت کے کوائف سے قاری کو ضرور آگاہ کرے تاکہ اس کی شاعری کو سمجھنے میں مدد ملے۔
(مطبوعہ’’اوراق‘‘ لاہور۔ اپریل مئی ۱۹۷۵ء)