سپر پاور امریکہ کے صدر ڈونلڈ ٹرمپ اور پاکستان کے وزیراعظم عمران خان نے ایک دوسرے کی تعریفوں میں زمین و آسمان ایک کر دیا۔ وائٹ ہائوس میں عمران خان کو خوش آمدید کہنے کے بعد ٹرمپ نے پاکستان کے وزیراعظم کو ایک مقبول رہنما اور عظیم لیڈر قرار دیا۔ عمران خان بھی تعریف میں پیچھے نہ رہے اور انہوں نے فاکس نیوز کو انٹرویو میں کہا کہ ٹرمپ کے انداز گفتگو سے صرف وہ نہیں بلکہ اُن کا پورا وفد متاثر ہوا ہے۔ بعد ازاں ایک ٹویٹ میں عمران خان نے ٹرمپ کی میزبانی کو بہت شائستہ اور دلفریب بھی قرار دیا۔ دونوں رہنمائوں نے ایک دوسرے کے بارے میں تو بہت اچھی اچھی باتیں کیں لیکن ان دونوں کے درمیان ہونے والے مذاکرات کے فوری اچھے نتائج سامنے آتے دکھائی نہیں دے رہے۔ یہ کوئی راز نہیں ہے کہ امریکی صدر ٹرمپ ہر کسی کے ساتھ دلفریب انداز میں پیش نہیں آتے، عمران خان کے ساتھ ان کے دلفریب انداز کے پیچھے یہ خواہش تھی کہ پاکستان اُن کے ملک کو افغانستان کی جنگ سے ایسے نکالے کہ امریکہ کی شکست دنیا کو فتح نظر آئے۔ یہ مشکل کام صرف ایک صورت میں ممکن ہے اور وہ یہ کہ افغان طالبان کی قیادت مذاکرات کی میز پر وہ تمام شرائط تسلیم کر لے جو امریکہ اور اُس کے اتحادی پچھلے اٹھارہ سال سے میدان جنگ میں نہیں منوا سکے۔ کیا عمران خان افغان طالبان کو امریکی مفادات کی پلیٹ میں رکھ کر ٹرمپ کو پیش کر سکیں گے؟ یہ ایک بہت اہم سوال ہے اور اس سوال کا جواب تلاش کرنے کے لئے ہمیں وزیراعظم عمران خان کے دورۂ امریکہ کا ہر پہلو سے بے لاگ تجزیہ کرنا ہو گا۔
پاکستان کے نقطہ نظر سے وزیراعظم عمران خان کے دورہ امریکہ سے مسئلہ کشمیر ایک دفعہ پھر پوری دنیا کے سامنے بھرپور انداز میں اجاگر ہوا ہے۔ مسئلہ کشمیر کو اجاگر کرنے کا کریڈٹ اس صحافی کو جاتا ہے جس نے ٹرمپ سے کشمیر پر سوال کیا اور ٹرمپ نے جواب میں یہ دعویٰ کر دیا کہ بھارتی وزیراعظم نریندر مودی نے انہیں مسئلہ کشمیر پر ثالث کا کردار ادا کرنے کی درخواست کی تھی اور انہوں نے یہ درخواست قبول کر لی تھی۔ ٹرمپ کے ان ریمارکس کے بعد بھارت میں صف ماتم بچھ گئی اور بھارتی حکومت نے ٹرمپ کے اس دعوے کی تردید کر دی۔ باخبر سفارتی ذرائع یہ بتاتے ہیں کہ جون 2019میں ٹرمپ اور مودی کی دو ملاقاتیں ہوئی تھیں۔ ایک ملاقات جی ٹونٹی ممالک کے اوساکا اجلاس میں ہوئی اور دوسری ملاقات میں جاپان کے وزیراعظم بھی شامل تھے۔ ان ملاقاتوں میں مودی نے بھارتی پائلٹ ابھی نندن کی رہائی کے لئے ٹرمپ کے کردار کا شکریہ ادا کیا اور ٹرمپ سے کہا کہ وہ مسئلہ کشمیر کے حل کے لئے بھی کردار ادا کریں۔ ٹرمپ نے فوری طور پر آمادگی ظاہر کر دی لیکن عمران خان کی موجودگی میں مودی کی خواہش کو دنیا کے سامنے لا کر ٹرمپ نے مودی کے لئے ایک بڑا مسئلہ کھڑا کر دیا اور بھارتی حکومت نے جھوٹ بولتے ہوئے ٹرمپ کے دعوے کی تردید کر دی۔ اچھا ہوا ٹرمپ کو مودی کی اصلیت کا پتا چل گیا۔ غالب امکان ہے کہ اس تردید کے باوجود مودی کی طرف سے ٹرمپ کے ذریعہ مسئلہ کشمیر کا حل نکالنے کی کوشش جاری رہے گی۔
مودی مسئلہ کشمیر کا کیا حل نکالنا چاہتے ہیں؟ اس سوال کا جواب بڑا سیدھا اور آسان ہے۔ مودی مسئلہ کشمیر کا ویسا ہی حل چاہتے ہیں جیسا ٹرمپ کو افغانستان میں درکار ہے۔ مودی چاہتے ہیں کہ پاکستان اقوام متحدہ کی قراردادوں کی روشنی میں مسئلہ کشمیر کے حل پر زور دینا چھوڑ دے اور ایک ’’ڈپلومیٹک سرنڈر‘‘ کو اپنی کامیابی قرار دے کر خوشی کے گیت گانا شروع کر دے۔ یہ وہی فارمولا ہے جس پر جنرل پرویز مشرف اور من موہن سنگھ نے اتفاق کیا تھا اور اس فارمولے کو حریت کانفرنس کے بزرگ رہنما سید علی گیلانی نے کشمیریوں کے ساتھ غداری قرار دیا تھا۔ یاد رکھئے گا بھارت جب بھی پاکستان کے ساتھ مذاکرات کا آغاز کرے گا تو ایک بہت سخت موقف اختیار کرنے کے بعد یہ لچک دکھائے گا کہ مقبوضہ جموں و کشمیر اسی کے پاس رہے گا اور پاکستان آزاد کشمیر پر اکتفا کرے۔ ٹرمپ کے دعوے پر بھارتی حکومت کی تردید بہت بڑا جھوٹ ہے کیونکہ امریکی و بھارتی حکام میں ان معاملات پر کافی بات چیت بھی ہو چکی ہے۔
وزیراعظم کے دورۂ امریکہ میں ڈاکٹر عافیہ صدیقی کا المیہ بھی ایک دفعہ پھر دنیا کے سامنے آیا ہے۔ ابتداء میں وزیراعظم عمران خان اس معاملے پر گفتگو سے احتراز کرتے رہے لیکن بعد میں جب ایک امریکی صحافی نے شکیل آفریدی کے متعلق سوال کیا تو عمران خان نے ڈاکٹر عافیہ صدیقی کا ذکر کر دیا اور کہا کہ دونوں کے تبادلے پر بات ہو سکتی ہے۔ عمران خان نے یہ بھی کہا ایبٹ آباد میں اسامہ بن لادن کے خلاف آپریشن آئی ایس آئی کی فراہم کردہ معلومات کی بنیاد پر ہوا تھا۔ اگر یہ درست ہے تو پھر ڈاکٹر شکیل آفریدی کا کیا قصور ہے؟ حالیہ دورۂ امریکہ میں ڈاکٹر عافیہ صدیقی کے متعلق کوئی باقاعدہ بات چیت نہیں ہوئی لیکن اگر عمران خان قوم کی اس بیٹی کو پاکستان واپس لے آئیں تو ان کی بہت سی خامیوں اور کوتاہیوں کو نظر انداز کرنا آسان ہو جائے گا۔ اس وقت ان کے لئے سب سے بڑا چیلنج افغان طالبان کو ستمبر 2019سے پہلے سیز فائر پر آمادہ کرنا ہے۔ سیز فائر کا اعلان افغان طالبان کی اس مذاکراتی ٹیم کو کرنا ہے جس کے سربراہ ملا عبدالغنی برادر ہیں۔ ملا برادر کو فروری 2010میں امریکہ کے دبائو پر پاکستان میں گرفتار کیا گیا اور اُن سے یہ پوچھا جاتا رہا کہ آپ اس وقت افغان صدر حامد کرزئی سے خفیہ مذاکرات کیوں کر رہے تھے؟ آٹھ سال کے بعد انہیں امریکہ کے کہنے پر پاکستان نے اکتوبر 2018میں رہا کیا تو طالبان نے انہیں اپنے مذاکراتی وفد کا سربراہ بنا دیا۔ جس شخص کو پاکستان نے آٹھ سال تک اپنا قیدی بنائے رکھا اب پاکستان کے تمام ارباب اختیار اس سابقہ قیدی سے یہ منت سماجت کر رہے ہیں کہ آپ افغانستان میں سیز فائر کر دیں۔ یہ سیز فائر طالبان کی نہیں امریکہ کی ضرورت ہے۔ 2001سے 2019کے دوران افغانستان میں امریکہ کے ڈھائی ہزار فوجی مارے جا چکے ہیں جبکہ پرائیویٹ کمپنیوں کے توسط سے افغانستان میں آ کر مارے جانے والے امریکیوں کی تعداد چار ہزار کے قریب ہے۔ پچھلے 18سال میں افغان سیکورٹی فورسز کا جانی نقصان 60ہزار سے زائد ہے جبکہ طالبان کا نقصان 50ہزار کے قریب ہے۔ امریکہ کو افغانستان کی جنگ میں سالانہ 45ارب ڈالر خرچ کرنا پڑتے ہیں۔ طالبان کو اس جنگ سے نکلنے کی کوئی جلدی نہیں کیونکہ انہیں اپنی فتح قریب نظر آ رہی ہے لیکن ٹرمپ نے عمران خان کو سامنے بٹھا کر پوری افغان قوم کو دھمکی دے ڈالی اور کہا کہ میں دس دن میں افغانستان کو صفحہ ہستی سے مٹا سکتا ہوں لیکن ایسا کرنا نہیں چاہتا۔ ٹرمپ کی اس دھمکی پر افغان حکومت اور طالبان دونوں نے مذمتی بیانات جاری کر دیئے ہیں۔ ٹرمپ نے اپنی اس دھمکی پر معذرت نہ کی تو پاکستان کے لئے افغان طالبان کو سیز فائر پر راضی کرنا بہت مشکل ہو جائے گا۔ ٹرمپ کی معذرت کے بغیر افغان طالبان کا سیز فائر ٹرمپ کی دھمکی کا نتیجہ قرار دیا جائے گا اور داعش اس کا فائدہ اٹھا کر افغان طالبان میں اختلافات پیدا کرنے کی کوشش کرے گی لہٰذا عمران خان کے دورہ امریکہ کے دوران ٹرمپ کی دھمکی نے افغان مفاہمتی عمل کو نئی مشکلات سے دوچار کر دیا ہے۔ عمران خان کے دورہ امریکہ میں بار بار اُنہیں پاکستان میڈیا پر سنسر شپ کے متعلق سوالات کئے گئے۔ خان صاحب بار بار پاکستانی میڈیا کو آزاد قرار دیتے رہے حالانکہ اصل حقائق سب جانتے ہیں۔ میڈیا کے متعلق سوالات کا جواب دیتے ہوئے عمران خان کے لہجے میں وہ اعتماد نہیں تھا جو ہونا چاہئے تھا اور ایک موقع پر انہوں نے خود تسلیم کیا کہ میں میڈیا کے متعلق ٹرمپ جیسی باتیں کر رہا ہوں۔ ٹرمپ میڈیا پر تنقید کر سکتے ہیں لیکن کسی ٹی وی چینل کو بند نہیں کرا سکتے۔ عمران خان ٹی وی چینل کو بند بھی کراتے ہیں اور مانتے بھی نہیں اس لحاظ سے دیکھا جائے تو وہ ٹرمپ سے زیادہ گریٹ لیڈر ہیں۔