• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

ساجد

پیارے بچو! آپ نے ملا نصیر الدین کا نام ضرور سنا ہو گا اور اُن کے کارنامے بھی پڑھے ہو ںگے آئیے آپ کو ان کی ذہانت کے دو کارنامے اور بتاتے ہیں۔

ایک بار بادشاہ نے جنگ جیتی اس خوشی میں انہوں نے مال غنیمت تقسیم کیا۔

ملا کے حصے میں بھی ہزاروں دینار آئے پس انہوں نے تجارت کے ساتھ ساتھ سیر کاپروگرام بنایا۔ وہ ایک دوسرے ملک گئے اور اپنا سامان سرائے میں رکھ کر شہر کی سیرپر نکل گئے۔ ایک جگہ بہت سے افراد جمع تھے وہ ان میں گھس گئے کہ دیکھیں کیا ہورہا ہے ۔انہوں نے دیکھا کہ ایک نوجوان، جس نے اعلیٰ قسم کی پوشاک پہنی ہوئی تھی وہ ایک بڑھیا پر برس رہا تھا کہ اس نے اس کے قیمتی کپڑوں پر گھی گرادیا تھا۔وہ بوڑھی عورت کہہ رہی تھی بیٹا میں نے جان بوجھ کر گھی تھوڑا گرایا وہ برتن اتارتے ہوئے گر گیا تھا،مگر نوجوان چیخ وپکار کررہا تھا کہ میرا لباس خراب ہو گیا ہے،مجھے ایک وزیر کی دعوت پر جانا تھا اب کیسے جاؤں گا۔ملا آگے بڑھے اور اس جوان سے کہا ”بھئی ضعیف عورت ہے اسے معاف کردو۔تم لباس بدل کر آجاؤ۔‘‘ ’’میں نے یہ پوشاک اصفہان سے منگوائی ہے، اس کی قیمت سو دینار ہے ۔یہ بیکار ہوگئی ہے مجھے سودینار چاہئے۔‘‘

’’بیٹا !میں غریب عورت ہوں اگر میرے پاس اتنے پیسے ہوتے تو میں گھی نہ بیچ رہی ہوتی۔‘‘

’’اس کا فیصلہ قاضی سے کرواتے ہیں۔‘‘ملانے اچانک کہا۔ اس نے کہا،’’ چلوقاضی کے پاس چلتے ہیں جو فیصلہ ہو گا منظور ہے۔‘‘ مجبوراً ضعیف عورت کو بھی قاضی صاحب کے پاس جانا پڑا۔

قاضی صاحب نے ساری بات سنی اور کہا ،’’غلطی تو ضعیف عورت کی ہے اب تم کیا کہتے ہو۔‘‘قاضی کا اشارہ ملانصیر الدین کی طرف تھا۔

’’قاضی صاحب اس ضعیف عورت کی غلطی سے اس کی پوشاک خراب ہوگئی اس کا ہرجانہ میں دیتا ہوں یہ لیں 100دینار‘‘۔اس نوجوان نے جلدی سے دینار اٹھالیے۔

اس پر ملانے کہا،’’ قاضی صاحب میں نے اس پوشاک کی قیمت ادا کردی اب نوجوان پوشاک میرے حوالے کردے‘‘۔نوجوان نے کہا،’’ کیوں حوالے کروں؟‘‘

اس پر قاضی صاحب نے کہا،’’ اس شخص کی بات ٹھیک ہے۔’’اب یہ پوشاک اس کے حوالے کردو۔‘‘وہ نوجوان کہنے لگا، میں ایسے میں گھر کیسے جاؤں گا‘‘؟ملا نے کہا،’’ یہ میرامسئلہ نہیں۔‘‘

قاضی نے کہا،’’ اگر تم یہی پوشاک خریدنا چاہتے ہودوسودینار اس (ملا )کو دو‘‘۔وہ فوراً راضی ہو گیا اس نے اپنے خادم سے سودینار لے کر ملا کے حوالے کیے۔ملا نے پچاس دینار اس عورت کو دئے اور پچاس اپنی عباء کی جیب میں ڈالے اور کہا غرور کی یہی سزا ہے ورنہ یہ معاملہ راضی خوشی بھی حل ہو سکتا تھا۔

اس مقدمے کا شہرہ بادشاہ کے دربار میں پہنچا اُس نے فوراً ملا کو اپنے دربار میں طلب کیا۔جب ملا بادشاہ کے محل کے سامنے پہنچا اس نے دیکھا کہ ہزاروں لوگ دائرے میں کھڑے تھے جو نہی ملا آگے بڑھے ایک ضعیف بوڑھا شخص دھکالگنے سے گرگیا اور ہاتھوں، گھٹنوں کے بل اپنے لاٹھی ڈھونڈنے لگا۔

ملانے اسے سہارا دیا اس نے دیکھا کہ ایک نوجوان بلند آواز میں کہہ رہا تھا بادشاہ سلامت!’’ آپ کو دی ہوئی مہلت ختم ہوگئی ہے میری پہیلی کا جواب نہیں ملا۔

بادشاہ نے کہا،’’ سچی بات ہے ہم نے بہت کوشش کی، مگر جواب تلاش نہ کرسکے تم ایسا کرو کہ اپنی پہلی دوبارہ دھراؤ اگر کسی سے جواب نہ بن پڑا ہم تمہیں انعام و اکرام سے نوازیں گے اور دربار میں جگہ دیں گے۔‘‘

اس نے مجمع کی طرف دیکھتے ہوئے کہا،’’ میری پہلی بہت سادی سی ہے، وہ کیا ہے جس کی صبح چار ٹانگیں ہوتی ہیں،دوپہر کو دو اور شام کو تین ٹانگیں ہوتی ہیں سبھی سوچ میں پڑگئے۔ملا کے ذہن میں جھما کا ہوا اس نے جلدی سے بوڑھے کو پکڑا اور میدان میں لے آیا۔

’’بادشاہ سلامت اجازت ہو اس پہلی کا جواب دوں۔‘‘ہاں ہاں کیوں نہیں!یہ بڑا امتحان ہے ۔بادشاہ سلامت اس کا جواب میں آپ بھی دے سکتے ہیں ،مگر اس وقت اس کا جواب یہ بوڑھا ہے ۔کیا مطلب ہم سمجھے نہیں‘‘ ۔بادشاہ نے حیرانگی سے کہا۔

’’وہ ایسے بادشاہ سلامت!جب انسان بچہ ہوتا ہے تو وہ چار ٹانگوں پر چلتا ہے اور جب جوان ہوتا ہے دو ٹانگوں پر چلتا ہے اور بڑھاپے میں تین ٹانگوں پر چلتا ہے ۔

پہیلی میں صبح دوپہر اور شام کہا گیا۔بادشاہ سلامت نے اس نوجوان سے پوچھا اس نے ہاں میں جواب دیا۔

ہزاروں لوگوں نے تالیاں بجا کر ملا کو خراج عقیدت پیش کیا۔بادشاہ نے بہت انعام واکرام سے نوازا جب وہ اپنے ملک گیا تو وہاں بادشاہ نے بھی ملا کو انعام واکرام سے نوازا، جس نے دوسرے ملک میں اپنے ملک کی عزت بڑھائی۔

تازہ ترین