• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

اردو کتابوں کی دنیا میں ایک کمال کا اضافہ ہوا ہے۔ بیشمار شعری مجموعوں، افسانوں، ناولوں اور سفر ناموں کے بعد سائنس اور فلسفے پر تازہ کتاب شائع ہوئی ہے۔ طلسمِ حیات کے نام سے یہ کتاب سرکردہ ریسرچ اسکالر سید شبیہ الحسن زیدی نے لکھی ہے۔ وہ خالص سائنس اور فلسفے کے آدمی ہیں۔ ان کی فکر حیات و کائنات کے گرد گھومتی ہے۔ یہ کتاب ہاتھ میں آنے سے پہلے ڈر تھا کہ اس پر دین کی چھاپ ہوگی اور سائنس کی تمام دریافتوں کے بارے میں بڑی بڑی تاویلیں پیش ہوں گی کہ دین پہلے ہی یہ سب کچھ ثابت کر چکا ہے۔ دنیا جانتی ہے کہ اسلامی ملکوں کے بعض نامور تعلیمی اداروں میں آج بھی زمین کو گول ماننے والے طالب علم مدرسے سے نکال دیئے جاتے ہیں۔ ایسے میں طلسمِ حیات نے جدید سائنس اور ٹیکنالوجی کو اپنا موضوع بنایا ہے اور اس راہ میں ہونے والی تحقیق اور عملی تجربات کے نتائج نہایت دیانت داری سے پیش کئے ہیں۔ کتاب کے موضوعات پر ایک نگاہ ڈالی جائے تو وہ سارے عنوان ہمارے سامنے آجاتے ہیں جن کا ہمیں تھوڑا بہت ادراک تو ہے، جن کا احوال ادھر اُدھر سے کانوں میں پڑتا رہتا ہے لیکن جن کا ہم کبھی فرصت سے بیٹھ کر علمی کتابوں کے ذریعے مطالعہ نہیں کر سکے ہیں۔ طلسمِ حیات کے موضوعات پر ایک نگاہ ڈالی جائے تو ایسے ایسے عنوان نظر آتے ہیں مثلاً وحدت الوجود، وجودیت، کائناتی موجودات، جبر و قدر، علمیات، اخلاقیات، شعور اور حقیقت کی تلاش۔ اور آگے چلیں تو جدید سائنسی نظریات آراستہ کئے گئے ہیں۔ بشر کی ابتدا کیسے ہوئی، اس کا ارتقاء اور اس کا مستقبل، وقت، مصنوعی ذہانت، ٹرانس ہیومنزم، بگ بینگ، بلیک ہولز اور ملٹی ورس، ان تمام موضوعات کا تعارف کرایا گیا ہے اور سائنسی پس منظر بھی بیان کیا گیا ہے۔

ایک بہت اہم باب کا تعلق اخلاقیات سے ہے، اس ذیل میں مذہبی اخلاقیات سے لے کر سائنسی اور عالمگیر اخلاقیات تک گفتگو کی گئی ہے۔ فلسفے کی گفتگو چلی تو فیثا غورث، افلاطون اور ارسطو سے لے کر برٹرینڈ رسل تک سارے ہی بڑے مفکر زیر بحث آئے ہیں۔

آخر میں عالمِ امکان موضوع بنا ہے، فلاسفر اس میدان میں فکر کے گھوڑے دوڑاتے آئے ہیں لیکن عملی سائنس جو مشاہدہ کر رہی ہے اس کے نتیجے میں سچ تو یہ ہے کہ ابھی ابتدا ہوئی ہے۔ عالم امکان میں ابھی اور کتنی دور تک جانا ہے، کوئی نہیں جانتا۔ اتنا ضرور کہا جا سکتا ہے کہ کائنات کے وجود میں آنے سے اب تک وقت نے جو شکلیں اختیار کی ہیں اور آگے چل کر کیا صورتیں پیدا ہوں گی، ان کے چھ دور قیاس کئے جا سکتے ہیں۔ ایجادات وہ ذہانت اور صلاحیت پیدا کریں گی کہ مادی ترقی کی رفتار بے انتہا فروغ پائے گی اور مشین اور انسان کے یکجا ہونے سے ایک نئی آفاقی مخلوق وجود میں آئے گی جس کے بعد کمپیوٹر اور انسانی ذہانت میں کوئی فرق نہیں رہے گا۔ وجود میں آنے والے تمام برقی آلات ایک دوسرے سے جُڑ جائیں گے اور یہ نئی آفاقی نسل وجود میں آکر آفاقی ذہانت میں ضم ہوکر پوری کائنات میں پھیل جائے گی، لیکن کب؟ اس کا قیاس کرنا بھی ابھی ممکن نہیں۔

میری ذاتی رائے یہ ہے کہ ایک عام قاری کے لئے یہ کتاب بہت گمبھیر ہے۔ اس کو ساری بات یوں سمجھائی جا سکتی ہے کہ سائنسی فکشن میں جو منظر نامے وضع کئے جاتے ہیں اور جو تصوراتی تصویر کشی ہوتی ہے وہ واقعی حقیقت بن جائے گا۔ جدید سائنس کی نگاہ سے دیکھا جائے تو عالمِ امکان لامحدود ہے۔ مصنف کے بقول عالمِ ظہور کی حدود پھیل رہی ہیں اور یہ پھیلاؤ عالم امکان میں جذب ہوتا ہوا لامحدود ہو جائے گا۔ عالمِ امکان اور عالم ظہور آپس میں یکجا ہوکر قدرتِ کاملہ کے ازلی اور ابدی نور کی جانب لوٹ جائیں گے اور کائنات میں نور ہی نور باقی رہے گا۔

اس کتاب پر رائے زنی کرنے سے پہلے یوں کہہ دوں تو اچھا ہو کہ سائنس اور فلسفہ، دونوں میرے موضوعات نہیں۔ فلسفہ پڑھا ہوتا تو ایسی ہی دوچار کتابیں لکھ چکا ہوتا اور سائنس پڑھی ہوتی تو اپنے پانچ بھائیوں کی طرح میں بھی انجینئر ہوتا۔ میرا اوڑھنا بچھونا کسی سے ڈھکا چھپا نہیں۔ میں جو بھی ہوں اردو زبان سے ہوں، یہی میرے وجود کا حصہ اور میرے اظہاریے کا ذریعہ رہا ہے۔ اس زاویے سے دیکھا جائے تو یہ کہتے ہوئے دل دکھتا ہے کہ زبانِ اردو بہت مظلوم ہے۔ اس پر بہتان ہے کہ فلسفہ اور سائنس جیسے موضوعات کی متحمل نہیں ہو سکتی۔ لوگ کہتے ہیں کہ اردو زبان میں استعداد کی کمی ہے۔ یہ شکایت ہمارے مفکروں اور شاعروں کو بھی ہے جو کہتے آئے ہیں کہ اردو میں اظہار کی وہ خوبیاں نہیں جو فارسی میں ہیں۔ اقبال نے بھی یہی کہا اور اپنے اردو کلام ہی کے بل بوتے پر جی رہے ہیں، غالب کو بھی کچھ ایسی ہی شکایت ہے، وہ تو بھاری بھرکم کلام سے نہیں بلکہ ایک چھوٹے سے دیوان کی وجہ سے زندہ ہیں، دیوان بھی ایسا کہ اس کا کتنا ہی حصہ انہوں نے اپنے ہاتھ سے کاٹ چھانٹ دیا مگر جو بچ رہا، صادقین جیسے آفاقی مصور اسے کسی آسمانی صحیفے کی طر ح حفظ کرنے چلے تھے۔

کچھ بھی ہو، یہ شکایت بجا ہے کہ اردو ادب اعلیٰ علمی کتابوں کی قلت سے دوچار ہے، اردو میں، خاص طور پر پاکستان میں تاریخ اور تحقیق کی راہ میں بہت کم کام ہوا ہے۔ لوگ اس طرف آتے نہیں، اس سے کتراتے ہیں، شاید یہ ان کی تن آسانی ہے۔ کیونکہ جب کچھ کرنے کو نہ ہو، شعر کہنا یا تصوراتی قصے کہانیاں لکھنا کہیں آسان، کہیں سہل ہے۔ اب اتنی مشقت کوئی کیوں کرے اور بھاری بھرکم موضوعات پر دھیان کیوں دے جبکہ بازار میں ان کی تخلیق کا خریدار ہی نہیں۔ لوگ کتاب کی کمی کی شکایت کرتے ہیں، کتاب کے گاہک کی قلّت کا رونا روتے ہم نے کسی کو آج تک نہیں دیکھا۔

وہ بات جو رہی جا رہی ہے۔ سید شبیہ الحسن زیدی صاحب کی کتاب طلسمِ حیات، جس کی پشت پر بجا طور پر لکھا ہے ’’یہ کتاب ذہنی انقلاب کی محرک بن سکتی ہے‘‘، کراچی کی رائل بک کمپنی نے شائع کی ہے۔ 280صفحات کی یہ کتاب نفاست سے چھاپی گئی ہے۔ پروف کی غلطیاں حیرت انگیز طور پر کم ہیں اور سرورق پر یوں لگتا ہے کہ اُس دھماکے کی تصویر اتار دی گئی ہے جو بِگ بینگ کے نام سے مشہور یا بدنام ہے۔ جن قارئین کو اس موضوع سے دلچسپی ہے ان کے لئے بیش بہا تحفہ ہے۔

(کالم نگار کے نام کیساتھ ایس ایم ایس اور واٹس ایپ رائےدیں00923004647998)

تازہ ترین