• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

’’ میں کیا؟ میری حیثیت کیا؟ آپ کے کالم ’’عطیاتِ الٰہی‘‘ سے متاثر ہو کر قارئین کے غور و فکر کے لئے یہ سطور لکھی ہیں۔ شاید کہ تیرے دل میں اتر جائے میری بات۔ مقامِ تسلیم و رضا بذاتِ خود ایک ایسی منزل ہے جو کسب اور عطا سے حاصل ہوتی ہے۔ کسب کا مطلب انسان کی اپنی محنت یعنی عبادات، مجاہدات اور قربِ الٰہی کے حصول کی لگن اور عطا سے مراد مرشد کی نگاہ یا عطائے الٰہی ہے۔ بقول حضرت علی بن عثمان ہجویریؒ رضا کوئی کسبی شے نہیں ہے جو مجاہدے اور کسب کے ذریعے بندے کو حاصل ہو جائے بلکہ یہ اللہ تعالیٰ کی طرف سے عطیے اور بخشش کے طور پر حاصل ہوتی ہے کیونکہ دل کا سکون اور طمانیت قلب بندہ کسب اور کوشش سے حاصل نہیں کرسکتا بلکہ یہ خداوند تعالیٰ کے عطیات میں سے ہے۔ وہ توجہ فرماتا ہے تو یہ حاصل ہوتے ہیں۔ عبادات و مجاہدات اور قربِ الٰہی کی سچی لگن محض اللہ سبحانہ و تعالیٰ کا رحم اور کرم طلب کرنے کی آرزو ہے اور یہی آرزو جب پختہ ہو جائے تو اللہ تعالیٰ کی توجہ کے حصول کا ذریعہ بنتی ہے۔

تصوف کے مقامات میں سے پہلا مقام ’’توبہ‘‘ ہے یعنی خدا کی نافرمانی اور بغاوت سے آئندہ باز رہنے کا مصمم ارادہ اور سابق نافرمانیوں کی تلافی کا خلوصِ نیت سے عہد۔ دوسرا مقام انابت ہے یعنی اپنے مالکِ حقیقی خدا تعالیٰ کی طرف خشوع و خضوع کے ساتھ رجوع۔ تیسرا مقام زہد ہے یعنی ترک ماسوا اللہ یعنی ہر تعلق کو اللہ سے تعلق کے تابع کردیا۔ چوتھا مقام ہے توکل، یعنی خدائے بزرگ و برتر کی ذات پر کامل بھروسہ، اسی سے آگے ’’رضا‘‘ کے حصول کا راستہ کھلتا ہے۔ صوفیائے کرام کے نزدیک رضا مقامات میں سے آخری اور انتہائی مقام ہے۔ یہ مقامات اسی ترتیب سے مجاہدہ کرنے سے حاصل ہوتے ہیں۔ ہر مقام سے آگے بڑھنے کے لئے مسلسل مجاہدہ (یعنی کوشش اور جدوجہد) کی ضرورت ہوتی ہے۔

جلیل القدر و تابعی اور عرب سردار حنفؒ بن قیس ایک دن بیٹھے ہوئے تھے کہ کسی نے یہ آیت پڑھی۔ترجمہ ’’ہم نے تمہاری طرف ایسی کتاب نازل کی ہے جس میں تمہارا تذکرہ ہے، کیا تم نہیں سمجھتے ہو؟‘‘ (سورۃ الانبیاء 10:)وہ چونک پڑے اور کہا ذرا قرآن مجید تو لانا میں اس میں اپنا تذکرہ تلاش کروں اور دیکھوں کہ میں کن لوگوں کے ساتھ ہوں اور کن سے مجھے مشابہت ہے انہوں نے قرآن مجید کو کھولا، کچھ لوگوں کے پاس سے ان کا گزر ہوا جن کی تعریف یہ کی گئی تھی، ترجمہ ’’یہ لوگ رات کے تھوڑے حصے میں سوتے تھے اور اوقات سحر میں بخشش مانگا کرتے تھے اور ان کے مال میں مانگنے والے اور نہ مانگنے والے دونوں کا حق ہوتا تھا‘‘ (سورۃ الذاریات 17:تا19)

مزید ورق گردانی کی تو کچھ اور لوگ نظر آئے جن کا حال یہ تھا ترجمہ:’’ان کے پہلو بچھونوں سے الگ رہتے ہیں اور وہ اپنے پروردگار کو خوف اور امید سے پکارتے ہیں اور جو مال ہم نے ان کو دیا ہے اس میں سے خرچ کرتے ہیں‘‘۔ (سورۃ السجدہ 16:)اس کے بعد کچھ اور لوگ نظر آئے جن کا حال یہ تھا، ترجمہ ’’اور یہ وہ لوگ ہیں جو اپنے پروردگار کے آگے سجدہ کرکے عجز و ادب سے کھڑے رہ کر راتیں بسر کرتے ہیں‘‘۔(سورۃ الفرقان 46:)اور کچھ لوگ نظر آئے جن کا تذکرہ ان الفاظ میں ہے۔ ترجمہ ’’جو آسودگی اور تنگی میں اپنا مال خدا کی راہ میں خرچ کرتے ہیں اور غصے کو روکتے اور لوگوں کے قصور معاف کر دیتے ہیں اور خدا نیکوکاروں کو دوست رکھتا ہے‘‘۔ (سورۃ آل عمران134:)

اور کچھ لوگ ملے جن کی حالت یہ تھی، ترجمہ ’’(اور) دوسروں کو اپنے آپ پر مقدم رکھتے ہیں خواہ ان کو خود شدید ضرورت ہی کیوں نہ ہو اور جو شخص حرص نفس سے بچا لیا گیا تو ایسے ہی لوگ مراد پانے والے ہوتے ہیں‘‘۔ (سورۃ الحشر9:)

کچھ اور لوگوں کی زیارت ہوئی جن کے اخلاق یہ تھے۔ترجمہ ’’اور جو بڑے بڑے گناہوں اور بےحیائی کی باتوں سے پرہیز کرتے ہیں اور جب غصہ آتا ہے تو معاف کردیتے ہیں‘‘۔ (سورۃ شوریٰ37:)

اس کے بعد جن لوگوں کا تذکرہ ہوا وہ یہ تھے۔ترجمہ ’’اور جو اپنے پروردگارکا فرمان قبول کرتے ہیں اور نماز پڑھتے ہیں اپنے کام آپس کے مشورے سے کرتے ہیں اور جو مال ہم نے ان کو عطا فرمایا ہے اس میں سے خرچ کرتے ہیں‘‘۔ (سورۃ الشوریٰ38:)

اب وہ قرآن مجید کے صفحات کو الٹ رہے تھے اور اپنا تذکرہ تلاش کر رہے تھے یہاں تک کہ اس آیت پر جا کر ٹھہر گئے، ترجمہ ’’اور کچھ اور لوگ ہیں جن کو اپنے گناہوں کا صاف اقرار ہے انہوں نے اچھے اور برے اعمال کو ملا جلا دیا تھا قریب ہے کہ خدا ان پر مہربانی سے توجہ فرمائے بےشک خدا بخشنے والا بڑا مہربان ہے‘‘۔ (سورۃ التوبہ102:)

اس موقع پر اس کی زبان سے بےساختہ نکلا ہاں ہاں! بےشک یہ میرا حال ہے۔ ولی اللہ بننے کے لئے فضا میں اڑنا اور پانی پر چلنا ضروری نہیں صرف اور صرف اسی کا ہو کر رہنا ضروری ہے، خداوند قدوس نے ہماری ازل سے پیدائش کے ساتھ ہی سچ اور جھوٹ کی پہچان ہر انسان کو تفویض کردی ہے۔ اب ہمارا اختیار ہے کہ ہم اس ضمیر کی حق کی آواز کو پہچانیں اور اس پر عمل پیرا ہو کر اللہ کے ہی بن کر رہیں۔ اے انسان! تو ایسا بےعقل نہ بن کہ جب تو ہوش میں آئے تو شرمندگی اٹھائے۔ کیوں نہ ان مستوں میں بن جو ہر لمحہ اسی کے ہو کر رہتے ہیں اور جب بھی کسی سے معاملہ کرتے ہیں بولتے ہیں، وعدہ کرتے ہیں، امانت رکھتے ہیں یا کوئی بھی دنیاوی عمل کرتے ہیں تو پہلے اپنے اندر جھانک کر دیکھتے ہیں کہ اگر یہ معاملہ میرے ساتھ کیا جاتا تو وہ کیسے ہوتا۔ انسان اپنے ساتھ نا انصافی برداشت نہیں کر سکتا جبکہ دوسرے کے لئے اسے شرم نہیں آتی۔

جب روز کے معمول میں ہر بار یہی عمل دہرایا جائے گا تو پھر روشنی کی کرن خود بخود پھوٹنے لگے گی، پھر دائیں بائیں کی کالی گھٹائیں اس روشنی کو کسی صورت ماند نہیں پڑنے دیں گی۔ خوش قسمتی ہے اگر اس دوران کوئی رہبر مل جائے تو پھر منزل آسان ہو جاتی ہے۔

اے بےعقل ! تو ایسا مست نہ بن کہ جب تو ہوش میں آئے تو شرمندگی اٹھائے بلکہ ان مستوں میں سے بن کہ جب عشق حقیقی کی تلاش میں پختگی آئے تو دوسری عقلیں حسرت کریں اور شوق عاشقی میں اسی سکون کی تلاش میں اس روشنی کی ایک کرن کا حصہ بننے کو ترسیں‘‘۔

(ڈاکٹر عبدالرشید سیال، ملتان)

ذاتی نوٹ: صاحب اسلوب کالم نگار اور معزز دانشور عرفان صدیقی کی گرفتاری، ہتھ کڑی اور جیل بھجوانا تکلیف دہ اور قابل مذمت اقدامات ہیں۔ اچھا ہوا ان کی ضمانت اور رہائی عمل میں آگئی لیکن اس کی انکوائری ہونا چاہئے۔

تازہ ترین