• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

(گزشتہ سے پیوستہ)

ہمارے برادر کالم نگار مظہر برلاس صاحب نے ’’جنگ‘‘ میں ہی 19جولائی کو شائع شدہ اپنے کالم میں ایک ایسی سنسنی خیز تشویش کا اظہار کیا جس سے ہماری اس تحریر کی شروعات کو مزید شعوری تحریک ملی، باتیں انہوں نے اشاروں میں کی ہیں مثلاً ’’عمران خان کو بیس جولائی سے بیس اگست تک شدید ترین مشکلات کا سامنا کرنا پڑے گا‘‘ اور یہ کہ ’’عمران خان حکومت کیلئے بارہواں مہینہ بڑا بھاری ہے، وہ اس مہینے میں بارہویں کھلاڑی بھی بن سکتے ہیں‘‘ مزید تہلکہ خیزی ’’مولانا فضل الرحمٰن نے پنڈی میں کس سے ساڑھے تین گھنٹے ملاقات کی ہے، مجھے یہ بھی نہیں پتا کہ مولانا نے اسلام آباد میں کس اہم شخصیت سے دو اہم ملاقاتیں کی ہیں۔ بیس جولائی سے بیس اگست تک انتظار کیجئے، ابھی تو ایک شخص نے اسلام آباد کے چکر لگانا شروع کئے ہیں‘‘۔

ہم نے ’’پاکستان، تقدیر کے گلشن میں بہار یا خزاں؟‘‘ کے عنوان سے اپنے 20جولائی 2019کے شائع شدہ ’’چیلنج‘‘ کا اختتام ان الفاظ پہ کیا تھا۔ ’’طاقتور کا مہینہ آج بھی 20دن کا ہے، یہ اس نے فیصلہ کرنا ہے کہ قوم کا مہینہ 30دن کا ہونے دینا ہے یا نہیں؟‘‘ ہمارا یہ اشارہ پاکستان کی قریب قریب سات دہائیوں پر مشتمل قومی تاریخ کا خلاصہ ہے، تفصیل کی استطاعت نہیں، جسے سوز دروں کی نعمت حاصل ہے، وہ قائداعظمؒ کی ایمبولینس سے شروع ہو کر آج کے حکمرانوں کے اقتدار اور اپوزیشن رہنمائوں کی گرفتاریوں تک کے معاملات کی ریسرچ کر لے، اسے ہمارے جملے کی باطنی رمز جاننے میں کوئی ذہنی مشکل نہیں آئے گی یعنی ’’طاقتور کا مہینہ آج بھی 20دن کا ہے، یہ اس نے فیصلہ کرنا ہے کہ قوم کا مہینہ 30دن کا ہونے دینا ہے یا نہیں؟‘‘

عمران حکومت پاکستان کی سیاسی تاریخ میں ایک لحاظ سے کافی منفرد پوزیشن بھی رکھتی ہے، جو طاقتیں پاکستان کے سیاستدانوں اور سیاسی نظام کے مقدرات کا فیصلہ کرتی رہی ہیں وہ عمران حکومت کے ساتھ پوری طرح ہم آہنگ ہی نہیں بلکہ اس کی مشکلات دور کرنے میں حیرت انگیز حد تک سرگرم رہتی ہیں، سوال یہ ہے کیا صورتحال ہمیشہ ’’ایک پچ‘‘ پر ہی رہے گی؟ پاکستان کی سیاسی تاریخ کا اس جہت سے ریکارڈ قطعی مثبت نہیں، حالات کے تحت ان طاقتوں کا طرز عمل بدلتا رہا ہے، خود نواز شریف اس کی سب سے بڑی مثال ہیں پاکستان پیپلز پارٹی نے صادق سنجرانی کو چیئرمین سینیٹ بنوانے کے لئے بلوچستان میں ایسا سیاسی عمل کیا جس کا مقصد اپنی ’’فائل کلیئر‘‘ کروانا تھا، مگر کام ہو چکنے کے بعد آصف علی زرداری کس قسم کے شب و روز گزار رہے ہیں، وہ آپ کے سامنے ہے۔

مولانا فضل الرحمٰن کی قیادت میں اپوزیشن کی متوقع تحریک اور نواز شریف کی صاحبزادی لیڈر شپ کے جس معیار کا مظاہرہ کر رہی ہیں اس کے بعد ممکنہ منظر نامہ اپوزیشن کے لئے طاقتور بھی ہو سکتا ہے، یہ ان کالموں میں پہلے بھی لکھا جا چکا ہے، حکومت مخالف تحریکیں چاہے کمزور بھی کیوں نہ ہوں وہ کسی بھی منتخب حکومت کے لئے نیک نامی کا باعث نہیں ہو سکتیں۔ آپ خود غور فرمائیں، مولانا فضل الرحمٰن پوری آب و تاب کے ساتھ سڑکوں پر آ نکلتے ہیں، مریم نواز کی قائدانہ صلاحیتیں اپنا رنگ چوکھا دکھا دیتی ہے، چنانچہ برادر کالم نگار کا یہ لکھنا درست بھی ثابت ہو سکتا ہے یعنی عمران خان کے لئے 20؍جولائی تا 20؍اگست 2019‘‘ کا وقت خطرناک ترین ہو سکتا ہے۔ جہاں تک مریم نواز صاحبہ کا تعلق ہے، اس بارے غیر جانبدارانہ تجزیئے کی ضرورت ہے، میرا ذاتی نظریاتی جھکائو برسوں سے پاکستان پیپلز پارٹی کی طرف ہے، مجھے یہ اعتراف کرنے میں کوئی باک نہیں کہ میرے دل میں بلاول بھٹو زرداری کے لئے کامیابی کی آرزو انگڑائیاں لیتی رہتی ہے، تاہم اس کا یہ مطلب نہیں بطور تجزیہ کار میں مریم نواز صاحبہ کی حد درجہ مقناطیسی سیاسی شخصیت کے وجود سے انکار کردوں، یہ بھی ایک طرح سے نظریاتی بددیانتی ہی کے زمرے میں آئے گا۔ مریم نواز صاحبہ کی قائدانہ جھلکیاں ہمیں بی بی شہید کی یاد بھی دلا دیتی ہیں، جس قسم کے جان لیوا ماحول میں اُنہوں نے حوصلے اور بہادری کا فطری مظاہرہ کیا ہے یہ صفات انہیں پاکستانی سیاست کے آسمان پر چمکتے دمکتے ستارے کا مقام بھی دلا سکتی ہیں، بہرحال عمران حکومت مریم نواز کو جھکانے یا ڈرانے میں شاید ہی کامیاب ہو سکے، مولانا فضل الرحمٰن، مریم نواز اور بلاول بھٹو زرداری، عمران حکومت کیلئے دبائو والی مشکلات پیدا کر سکتے ہیں۔ میڈیا کی حد تک عمران حکومت قطعی طور پر پسندیدہ اور نیک نام نہیں ہے، افواہوں، خبروں اور انکشافات کو رکھیں ایک طرف، میڈیا کو ایک طرح کی ایسی باطنی دہشت گردی اور آمریت نے اپنی لپیٹ میں لے رکھا ہے جس کی تفصیلات بیان نہیں کی جا سکتیں، اس حکومت کی ایک اور کامیابی یہ بھی ہے کہ اس نے میڈیا کے اندر دراڑیں پیدا کرنے میں کوئی کسر نہیں چھوڑی، اس میں کامیاب بھی رہی ہے، ایسے افراد میڈیا میں تلاش کر لئے گئے ہیں جنہیں ہر طرح کا اقتصادی اور جانی تحفظ دے کر اور انہیں لائم لائٹ میں لا کر اپنی حکومت کے امیج پروجیکشن کی خدمات لی جا رہی ہیں۔

عمران خان کا امریکی دورہ البتہ ناکام نہیں کہا جا سکتا، نہ ہی عمران خان نے بطور پاکستان کے منتخب وزیراعظم صدر ٹرمپ کے سامنے کسی قسم کے کمپلیکس کو اپنے قریب آنے دیا، یہ علیحدہ بات ہے صدر ٹرمپ نے اس ملاقات میں ایک جملہ کہہ کر، عمران خان کے دورے کو نہیں اپنی شخصیت کو انسانیت دشمنوں کی صف میں لاکھڑا کیا ہے۔

انہوں نے افغانستان کے حوالے سے ’’ایک کروڑ انسانوں کو مارنے‘‘ کی بات کی، ٹرمپ کے اس قول کی عالمی برادری کو متفقہ طور پر مذمت کرنا چاہئے، افغانستان میں امن ساری دنیا ہی کا نہیں خود افغانوں کا سب سے بڑا مسئلہ ہے، اس مقصد کی خاطر پوری عالمی برادری صدر ٹرمپ کی کوششوں پر خراج تحسین بھی پیش کرتی ہے، خود پاکستانی لیڈر نے اس موضوع پر امریکی صدر کے سامنے نہایت بامقصد تجاویز و تدابیر رکھیں، پھر بھی امریکی صدر کے اس جملے کو ہمیں انسانیت، قیادت، شرافت، اخلاقیات اور انصاف کی عدالت میں لا کر کلیتہً مسترد کرنے کا اعلان کرنا چاہئے۔

کالم کی گنجائش ختم ہوئی، ابھی اس مہنگائی، ابتری اور لاقانونیت پر روشنی ڈالنا باقی ہے جس نے اس حکومت کی آمد کے بعد لوگوں کو اپنا یرغمال بنا لیا ہے۔

تازہ ترین