• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن
دور جمہوریت میں برسراقتدار جماعت اور اپوزیشن جماعتوں میں اکثر اختلافات پائے جاتے ہیں اور اپوزیشن جماعتیں، برسراقتدار جماعت پر بدعنوانی، اقربا پروری، کرپشن اور اختیارات کے ناجائز استعمال جیسے الزامات لگاکر احتجاجی مظاہروں کا سلسلہ شروع کردیتی ہیں، نتیجتاً اپوزیشن کے الزامات کو بنیاد بناکر تیسری طاقت اقتدار پر قابض ہوجاتی ہے۔ پاکستان کی یہ بدنصیبی رہی ہے کہ آزادی کے 68 سالوں کے دوران نصف سے زائد عرصہ حکومت کی باگ دوڑ آمروں کے ہاتھوں میں رہی لیکن نواز شریف اور بینظیر بھٹو کو دو مرتبہ حکومتیں چھن جانے کے بعد یہ بات سمجھ میں آگئی کہ وہ اُن تمام باہمی معاملات پر اتفاق رائے پیدا کریں جن پر نااتفاقی سے تیسری قوت فائدہ اٹھاتی ہے۔ اس طرح پاکستان کی تاریخ میں پہلی مرتبہ ملک کی دو بڑی سیاسی جماعتوں مسلم لیگ (ن) اور پیپلزپارٹی نے 14 مئی 2006ء کو لندن میں ’’میثاق جمہوریت‘‘ معاہدے پر دستخط کرکے مفاہمتی سیاست کا باقاعدہ آغاز کیا جس کے بعد پیپلزپارٹی نے 5 سالہ دور حکومت مکمل کرکے اقتدار مسلم لیگ (ن) کو منتقل کیا، پھر جب نواز حکومت کو اپنے ابتدائی دور میں پی ٹی آئی کے احتجاجی دھرنوں سے خطرہ لاحق ہوا تو پیپلزپارٹی اور دیگر جماعتوں نے جمہوریت بچانے کیلئے پارلیمنٹ کا ساتھ دیا لیکن جمہوریت کی بحالی کے ساتھ ساتھ حکومت کی پہلی ترجیح معیشت کی بہتری ہونا چاہئے تاکہ جمہوریت کے فوائد عوام تک صحیح معنوں میں پہنچ سکیں۔ کسی بھی ملک کی معاشی ترقی کیلئے ملکی پالیسیوں کا تسلسل انتہائی ضروری ہوتا ہے لیکن بدقسمتی سے پاکستان میں ہر نئی حکومت گزشتہ حکومت کی پالیسیوں کو یکسر بدل دیتی ہے جس سے نہ صرف سرمایہ کاروں کا اعتماد مجروح ہوتا ہے بلکہ معیشت کو بھی دھچکا پہنچتا ہے۔ نئی آنے والی جماعت قومی اداروں کی نجکاری، آئی ایم ایف سے قرضوں کے حصول، رضاکارانہ ایمنسٹی اسکیم، سرکولر ڈیٹ اور ٹیکس نادہندگان جیسے ایشوز پر سیاست اور پوائنٹ اسکورنگ کرتی ہے جبکہ اپوزیشن جماعتیں سیاسی فائدہ اٹھانے کیلئے مخالفت برائے مخالفت کی پالیسی اپناتی ہیں اور اس طرح اہم قومی معاملات تنازعات کا شکار ہوجاتے ہیں۔ میں نے ہمیشہ اپنے کالمز اور ٹی وی انٹرویوز میں میثاق معیشت پر زور دیا ہے۔ حال ہی میں، میں نے اپنے ایک ٹی وی انٹرویو میں بتایا کہ کسی سرمایہ کار کو ملک میں سرمایہ کاری کرنے کیلئے اچھے منافع کے ساتھ بہتر امن و امان، سیاسی استحکام اور پالیسیوں کے تسلسل کی ضرورت ہوتی ہے بصورت دیگر کوئی بھی مقامی یا بیرونی سرمایہ کار طویل المیعاد منصوبوں کی پلاننگ نہیں کرسکتا۔ ماضی میں معاشی پالیسیوں کا تسلسل نہ ہونے کی وجہ سے آج پاکستان خطے کے دیگر ممالک کی طرح ترقی نہیں کرسکا۔ بینظیر بھٹو نے اپنے دور حکومت میں بجلی پیدا کرنے کے انڈیپنڈنٹ پاور پروجیکٹ (IPPs) کی پالیسی کے تحت ملک میں بجلی کی طلب سے زیادہ بجلی پیدا کرنے کے منصوبوں میں سرمایہ کاری حاصل کی لیکن بعد میں آنے والی حکومتوں نے ان پالیسیوں کا تسلسل نہیں رکھا، نتیجتاً ہانگ کانگ کے امیر ترین شخص گولڈن ووکے سندھ میں کوئلے سے بجلی پیدا کرنے والے منصوبے سمیت دیگر کئی منصوبوں میں سرمایہ کاروں نے اپنی سرمایہ کاری سے ہاتھ کھینچ لیا، اس طرح پاکستان میں توانائی کا بحران سنگین تر ہوتا چلا گیا۔ مجھے خوشی ہے کہ پاک چین اقتصادی راہداری کے منصوبوں پر تمام سیاسی جماعتیں اور سول و عسکری قیادت ایک پلیٹ فارم پر ہیں جبکہ آپریشن ضرب عضب اور کراچی آپریشن پر بھی تمام سیاسی جماعتوں نے بھرپور اتفاق کیا تھا جس سے سرمایہ کاروں کا اعتماد بحال ہوا مگر ضرورت اس بات کی ہے کہ ملکی ترقی کیلئے تمام سیاسی جماعتیں کم از کم 10 سالہ میثاق معیشت پر متفق ہوں جسے آئینی تحفظ بھی حاصل ہو اور کوئی سیاسی جماعت جب اقتدار میں آئے تو وہ اپنے دور میں ان پالیسیوں کو بلاجواز تبدیل نہ کرسکے۔حال ہی میں وفاقی وزیر خزانہ سینیٹر اسحاق ڈار کی جانب سے اقتصادی پالیسیوں میں تسلسل کیلئے میثاق معیشت کی تجویز پر تمام بڑی سیاسی جماعتوں نے قومی اتفاق رائے کا اظہار کیا ہے۔ پیپلزپارٹی کے سینیٹر رحمن ملک نے خارجی، داخلی اور اقتصادی پالیسیوں کے مشترکہ میثاق پر قانون سازی کرکے میثاق معیشت کو آئین کا حصہ بنانے پر زور دیا ہے۔ مسلم لیگ (ق) کے سیکرٹری جنرل اور سینیٹ کی دفاعی کمیٹی کے چیئرمین سینیٹر مشاہد حسین نے کہا ہے کہ معیشت، توانائی، انتہا پسندی اور تعلیم کے متعلق تمام سیاسی جماعتوں کے اتفاق رائے سے 5 سے 10 سالہ مشترکہ پالیسی بنائی جائے جس میں تسلسل ہو۔ متحدہ قومی موومنٹ کی سینیٹر اور سینیٹ کی کمیٹی برائے خزانہ کی چیئرپرسن نسرین جلیل نے منی بجٹ اور غیر اعلانیہ ٹیکسوں کے نفاذ کی مخالفت کرتے ہوئے میثاق معیشت کی حمایت کی ہے۔ یاد رہے کہ وزیر خزانہ اسحاق ڈار نے گزشتہ سال دسمبر میں 40 ارب روپے کا اضافی ریونیو حاصل کرنے کیلئے منی بجٹ کا اعلان کیا تھا جس میں اشیاء کی امپورٹ پر کسٹم ڈیوٹی اور ٹیکسوں میں اضافہ کیا گیا تھا جو پالیسیوں کے تسلسل کے منافی تھا۔ پاکستان تحریک انصاف کے رہنما جسٹس (ر) وجیہہ الدین نے کہا ہے کہ صنعتکاروں اور سرمایہ کاروں کو معلوم ہونا چاہئے کہ آنے والے وقت میں حکومت کی معاشی پالیسیاں کیا ہوں گی۔ جماعت اسلامی کے سیکرٹری جنرل لیاقت بلوچ اور جمعیت علمائے اسلام کے سینیٹر حاجی غلام علی نے بھی اقتصادی پالیسیوں میں تسلسل کیلئے قومی اتفاق رائے کو ضروری قرار دیا ہے۔ مسلم لیگ (ن) کے وفاقی وزیر برائے پلاننگ احسن اقبال نے 2025ء کے روڈ میپ کو میثاق معیشت قرار دیا ہے جس پر عمل کرکے پاکستان دنیا کی 18 ویں بڑی معیشت بن سکتا ہے۔ سی پیک کے تحت پاکستان میں 46 ارب ڈالر کی سرمایہ کاری ہمارے حکمرانوں اور دیگر سیاسی جماعتوں کیلئے ایک لٹمس ٹیسٹ ہے۔ حال ہی میں کچھ سیاسی جماعتوں کی طرف سے سی پیک راہداری کے روٹ پر تحفظات کا اظہار کرتے وقت کچھ ایسے بیانات پڑھنے میں آئے جو اس اہم پروجیکٹ کو متنازع بناسکتے ہیں۔ میری سیاسی جماعتوں سے درخواست ہے کہ وہ قومی نوعیت کے ایسے اہم منصوبوں پر بیانات دیتے وقت یہ بات ذہن میں رکھیں کہ سرمایہ کار کی مثال پانی کے بہائو کی طرح ہوتی ہے جو نشیب کی طرف بہتا ہے یعنی سرمایہ کار کو جہاں حالات سازگار نظر آتے ہیں، وہ اپنے سرمائے کو وہیں لگانے کو ترجیح دیتا ہے۔ مجھے یاد ہے کہ ایوب خان کا دور پاکستان کی صنعتی ترقی کیلئے سنہرا دور تھا لیکن شہید ذوالفقار علی بھٹو کی نجی اداروں اور صنعتوں کو قومیانے کی پالیسی نے سرمایہ کاروں کے اعتماد کو بری طرح مجروح کیا جس کے نتیجے میں ملک میں نئی صنعتیں لگنا بند ہوگئیں۔ اسی طرح نواز شریف کے دور حکومت میں ایٹمی دھماکے کے بعد ملک میں غیر ملکی کرنسی اکائونٹس کو منجمد کردینے کی غلط پالیسی نے لوگوں کو اپنے پیسے ملک سے باہر رکھنے پر مجبور کیا اور آج پاکستانیوں کے تقریباً 200 ارب ڈالر سوئٹزرلینڈ اور دیگر ممالک کے بینکوں میں موجود ہیں۔ بینظیر بھٹو نے اپنے والد کے قومیائے جانے کی پالیسی کے برعکس پرائیویٹائزیشن کی پالیسیوں کو اپنایا۔ اسی طرح نواز شریف نے بھی ملک میں دوبارہ غیر ملکی کرنسی اکائونٹس رکھنے کی اجازت دے دی مگر یہ دونوں سیاسی جماعتیں سرمایہ کاروں کے اعتماد کو بحال نہ کرسکیں۔ گزشتہ دور حکومتوں میں ’’صاف فیول اور ماحول دوست ٹرانسپورٹ‘‘ کی پالیسی کے تحت 3300 سی این جی اسٹیشنز کے لائسنس سیاسی بنیادوں پر جاری کئے گئے اور پاکستان دنیا میں سب سے زیادہ سی این جی گاڑیاں استعمال کرنے والا ملک بن گیا لیکن ملک میں قدرتی گیس کی پیداوار میں کمی کے پیش نظر صنعتوں میں گیس کی لوڈشیڈنگ کی جانے لگی جس سے صنعتوں کی پیداواری صلاحیت بری طرح متاثر ہوئی اور حکومت کو یہ احساس ہوا کہ ملک کی قیمتی قدرتی گیس کو صنعتوں کے بجائے گاڑیوں میں استعمال کرنا قومی وسائل کا ضیاع ہے کیونکہ گاڑیوں کیلئے سی این جی کا متبادل فیول موجود ہے جبکہ صنعتوں کیلئے اپنا پاور پلانٹس چلانے کیلئے کوئی متبادل حل نہیں لہٰذا حکومت نے سی این جی سپلائی کی حوصلہ شکنی کی جس کی وجہ سے سی این جی اسٹیشن میں لوگوں کا لگایا گیا سرمایہ ڈوبنے لگا۔ یہ تمام حقائق یہ بات ثابت کرتے ہیں کہ شخصیت تو غلطی کرسکتی ہے لیکن قومیں ایسے غلط فیصلے برداشت نہیں کرسکتیں جو ملک کو معاشی طور پر کئی دہائیاں پیچھے لے جائیں۔ میں امید کرتا ہوں کہ ملک میں معاشی ترقی کیلئے سیاسی جماعتیں اتفاق رائے سے طویل المیعاد’’میثاق معیشت‘‘ کو عملی جامہ پہنائیں گی جس کو آئینی تحفظ حاصل ہو تاکہ ملکی اور بیرونی سرمایہ کار بے خوف و خطر ملک میں سرمایہ کاری کرسکیں۔
تازہ ترین