• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

امریکی صدارتی انتخابات اور عالمی سیاست کا منظرنامہ

اس سال نومبر میں امریکہ کے نئے صدر کیلئے انتخابات منعقد ہوں گے ۔ توقع یہ کی جا رہی ہے کہ ری پبلکن پارٹی کے ڈونلڈ ٹرمپ اور ڈیموکریٹک پارٹی کی امیدوار ہیلری کلنٹن کے درمیان مقابلہ ہو گا ۔ امریکی عوام کے ساتھ ساتھ دنیا بھر کے لوگوں کو امریکی انتخابات میں دلچسپی ہوتی ہے کیونکہ ان انتخابات کے نتائج سے پوری دنیا متاثر ہوتی ہے ۔ امریکہ ایک سپر پاور ہے اور سرد جنگ کے خاتمے کے بعد امریکہ کی عالمی بالادستی پہلے سے زیادہ مستحکم ہوئی ہے ۔ آج کے معروضی حالات کی روشنی میں یہ کہنا غلط نہ ہو گا کہ امریکہ اور اس کے حواری یہ فیصلہ کرتے ہیں کہ ہماری دنیا کیسی ہونی چاہئے ۔ امریکہ کے صدارتی انتخابات امریکی عوام سے تیسری دنیا خصوصاً عالم اسلام کیلئے زیادہ اہمیت اور دلچسپی کے حامل ہیں ۔
فیصلہ اگرچہ امریکی عوام نے کرنا ہے لیکن تیسری دنیا کے ترقی پذیر ملکوں کی جمہوری قوتوں کی یہ خواہش ہوتی ہے کہ ڈیموکریٹک پارٹی کا امیدوار کامیاب ہو ۔ اس کی بنیادی وجہ یہ ہے کہ ڈیموکریٹک پارٹی کو بائیں بازو کی پارٹی تصور کیا جاتا ہے اور اس کے بارے میں یہ تاثر بھی پایا جاتا ہے کہ وہ ری پبلکن پارٹی کی طرح امریکی اسٹیبلشمنٹ کی منظور نظر نہیں ہے ۔ دنیا یہ بھی جانتی ہے کہ کسی بھی پارٹی کا امیدوار کامیاب ہو ، امریکی اسٹیبلشمنٹ کی پالیسیوں میں کوئی بڑی تبدیلی نہیں آتی لیکن ڈیموکریٹس سے یہ امید ہوتی ہے کہ وہ ان پالیسیوں کے اطلاق میں اپنی ’’ فیس سیونگ ‘‘ کا پہلو ضرور نکال لیتے ہیں اور دنیا کسی حد تک بڑی تباہی سے کچھ دیر کیلئے بچ جاتی ہے ۔ پاکستان میں غیر جمہوری حکمرانوں کی امریکی حمایت کی پالیسی ڈیموکریٹس کے دور میں بھی جاری رہی ۔ 1958 میں ایوب خان کا مارشل لاء ری پبلکن صدر آئزن ہاور کے دور میں لگا لیکن ڈیموکریٹس کے صدور جان ایف کینیڈی اور لنڈن بی جانسن کے دور میں بھی فوجی حکمران کی حمایت جاری رہی ۔ پھر ری پبلکن صدر رچرڈ نکسن کے دور میں پاکستان دولخت ہوا ۔ حیرت کی بات یہ ہے کہ ڈیموکریٹ صدر جمی کارٹر کے دور میں پاکستان میں جنرل ضیاء الحق کا مارشل لاء نافذ ہوا ۔ ایک اور ڈیموکریٹک صدر بل کلنٹن کے دور میں جنرل پرویز مشرف کی فوجی حکومت قائم ہوئی ۔ لہذا پاکستان کی حد تک یہ تاثر مکمل طور پر درست نہیں ہے کہ امریکہ میں ڈیموکریٹک پارٹی کی حکومت سے تیسری دنیا کی جمہوری قوتوں کو فائدہ پہنچتا ہے ۔ اس کے باوجود دنیا کی جمہوری قوتوں کی یہ خواہش ہوتی ہے کہ ری پبلکن پارٹی امریکہ میں کامیاب نہ ہو کیونکہ قدامت پرست ری پبلکن پارٹی دائیں بازو کے نظریات کی حامل اور امریکی اسٹیبلشمنٹ کی منظور نظر ہے ۔ دنیا نے ری پبلکن صدور کے ادوار حکومت میں بڑی اور تباہ کن جنگیں دیکھی ہیں ۔ ری پبلکن صدر رونالڈ ریگن کے دور میں سرد جنگ کے اختتام کی تباہ کن جنگ افغانستان میں لڑی گئی ۔ ری پبلکن پارٹی کے صدر جارج بش سینئر نے نیو ورلڈ آرڈر دیا ، جس میں دنیا کو تباہی اور خونریزی کے علاوہ کچھ نہیں ملا ۔ ان کے بیٹے ری پبلکن پارٹی کے صدر جارج بش جونیئر کے دور میں نائن الیون کا واقعہ ہوا ۔ اس کے بعد دنیا پہلے سے زیادہ بدامنی اور عدم استحکام کا شکار ہوئی اور جنگ عظیم دوئم کے بعد تاریخ کی سب سے بڑی خونریزی ہوئی ۔ امریکہ نے بے رحمانہ طریقے سے عراق اور افغانستان اور دنیا کے دیگر ملکوں میں فوج کشی کی ۔ ڈیموکریٹ صدر باراک اوباما کے دور میں بھی دنیا پر جنگ مسلط کرنے کی پالیسی تبدیل نہیں ہوئی اور اس دور میں لیبیا میں فوجی مہم جوئی ہوئی ۔ جوں جوں امریکی انتخابات قریب آ رہے ہیں ، عالمی برادری خصوصاً مسلم دنیا میں تشویش اور خدشات میں اضافہ ہو رہا ہے ۔ اس کا بنیادی سبب ری پبلکن پارٹی کے صدارتی امیدوار ڈونلڈ ٹرمپ کے اشتعال انگیز بیانات اور نسل پرستانہ رویہ ہے ۔ ڈونلڈ ٹرمپ نہ صرف مسلمانوں کے خلاف ہیں بلکہ وہ ایشیائی لوگوں کے ساتھ ساتھ دیگر تارکین وطن کو بھی برداشت کرنے کیلئے تیار نہیں ہیں ۔ وہ میکسیکو کے باشندوں کو امریکہ سے زبردستی نکالنے اور انہیں واپس میکسیکو میں دھکیلنے کی باتیں کرتے ہیں ۔ ٹرمپ کے بیانات نے امریکی سیاست میں ایک ہیجان پیدا کر دیا ہے ۔ ان کی اشتعال انگیز اور نفرت انگیز سیاست نے خود ری پبلکن پارٹی کی قیادت کو یرغمال اور بے بس بنا رکھا ہے ۔ ری پبلک پارٹی کے لوگ یہ بھی سمجھتے ہیں کہ ٹرمپ کی وجہ سے ان کی پارٹی کو انتخابی شکست ہو سکتی ہے اور پارٹی کی ساخت کو بھی نقصان پہنچ سکتا ہے ۔ اس کے باوجود ری پبلکن ووٹرز ٹرمپ کو ہی ووٹ دے رہے ہیں اور وہ مضبوط امیدوار بن گئے ہیں ۔ پرائمری انتخابات میں ٹرمپ کو اپنی پارٹی کے دیگر امیدواروں پر واضح سبقت حاصل ہو گئی ہے ۔ اس کا مطلب یہ ہے کہ ری پبلکن ووٹرز ڈونلڈ ٹرمپ کی سخت گیر پالیسی کے حامی ہیں ۔ اب تک ٹرمپ نے جو انٹرویوز اور بیانات دیئے ہیں ، ان سے ٹرمپ کی متوقع خارجہ پالیسی کے خدوخال واضح ہو گئے ہیں ۔ ٹرمپ نے چین کو اپنا دشمن اول قرار دیا ہے کیونکہ ٹرمپ کے بقول 2027 تک چین کی معیشت کا سونامی امریکہ کو ڈبو دے گا ۔ ٹرمپ چین کی بڑھتی ہوئی اقتصادی بالادستی کا مقابلہ شاید کسی فوجی مہم جوئی سے کرنا چاہتے ہیں ۔ ٹرمپ روس کو مشرق وسطیٰ میں الجھا دینا چاہتے ہیں ۔ وہ کہتے ہیں کہ اچھی بات یہ ہے کہ روس داعش کے خلاف جنگ کرے ۔ ٹرمپ کی یہ خواہش اس وقت پوری ہو گی ، جب دنیائے عرب میں داعش اور دیگر انتہا پسند گروہ زیادہ مضبوط ہوں اور وہ روس کو جنگ پر اکسائیں ۔ ٹرمپ ایران پر دوبارہ سخت پابندیاں عائد کرنے کی بات کر رہے ہیں ۔ شام اور یمن کے معاملے میں وہ زیادہ جارحانہ پالیسیاں اختیار کرنے کے حامی ہیں ۔ وہ شمالی کوریا کے ایٹمی پروگرام سے بھی طاقت کے ذریعہ نمٹنا چاہتے ہیں ۔
دوسری طرف ڈیموکریٹک پارٹی کی صدارتی امیدوار ہیلری کلنٹن خود امریکہ کی وزیر خارجہ رہی ہیں ۔ اگر انہیں اوباما انتظامیہ کی خارجہ پالیسی کا معمار کہا جائے تو غلط نہیں ہو گا ۔ ٹرمپ کے برعکس وہ چین کے ساتھ مختلف بین الاقوامی معاملات پر تعاون میں اضافے کی حامی ہیں اور ان کا کہنا یہ ہے کہ چین کی اقتصادی بالادستی کی مسابقت اقتصادی پالیسیوں کے ذریعے ہو ۔ ہیلری کلنٹن ایران کے ساتھ کثیر القومی معاہدے کی حامی ہیں تاکہ ایران کے نیوکلیئر پروگرام کو سفارتی دباؤ ڈال کر روکا جا سکے ۔ داعش اور دیگر انتہا پسند گروہوں کے مقابلے میں وہ شام کے اعتدال پسند باغیوں کی مدد کرنے کی حامی ہیں ۔ ہیلری کلنٹن روس کے ساتھ براہ راست تصادم کے خلاف ہیں۔
اور ان کا کہنا یہ ہے کہ یوکرائن جیسی صورت حال میں ضرورت کے مطابق پالیسی وضع کی جائے ۔ ہیلری کلنٹن امریکہ میں تارکین وطن اور اقلیتوں کیلئے بھی ٹرمپ کی طرح تعصب کا شکار نہیں ہیں بلکہ ان کے حقوق کی بات کرتی ہیں ۔
امریکہ کے آئندہ انتخابات تاریخ کے ایک ایسے موڑ ( ٹرننگ پوائنٹ ) پر ہو رہے ہیں ، جب دنیا ’’ یونی پولر ورلڈ ‘‘ کے عذاب سے نکلنے کیلئے نئی صف بندی کر رہی ہے ۔ دنیا میں کئی فلیش پوائنٹس بنے ہوئے ہیں ۔ کسی بھی امریکی صدر کیلئے اس طرح کے چینلجز نہیں رہے ، جس طرح کے چیلنجز نئے امریکی صدر کیلئے ہوں گے ۔ امریکہ کو اس وقت ایسے صدر کی ضرورت ہے ، جو مہم جوئی اور جارحانہ فیصلوں سے گریز کرے اور دنیا کو مزید عدم استحکام کا شکار نہ ہونے دے ۔ ہمارے خطے میں عراق ، شام ، یمن ، افغانستان ، شمالی کوریا کے فلیش پوائنٹس موجود ہیں ۔
یہ آتش فشاں ہیں ، جو کسی بھی وقت پھٹ سکتے ہیں ۔ چین نے جو اقتصادی توازن قائم کیا ہے ، وہ امریکہ اور مغرب کو برداشت نہیں ہے ۔ روس مشرق وسطیٰ اور جنوبی ایشیا میں امریکی موجودگی سے مضطرب ہے ۔ ایران بھی بدلتی ہوئی صورت حال میں ہر طرح کے خطرات سے نمٹنے کی تیاری کر رہا ہے ۔ پاکستان میں سیاسی عدم استحکام اور دہشت گردی کے باعث غیر یقینی کی صورت حال ہے ۔ امریکی انتخابات کے نتائج کےہمارے خطے کے امن اور پاکستان کی سیاست پر گہرے اثرات مرتب ہو سکتے ہیں ۔ ڈونلڈ ٹرمپ اگر امریکہ کے نئے صدر منتخب ہوئے تو مستقبل کی دنیا مختلف ہو گی اور اگر ہیلری کلنٹن صدر منتخب ہوئیں تو دنیا کا نقشہ کچھ اور ہو گا ۔ یہ امریکی عوام کے سیاسی شعور کا امتحان ہے کیونکہ ان کے ووٹ سے پوری دنیا متاثر ہوتی ہے ۔
تازہ ترین