• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

ایک زمانہ تھا جب پاکستان میں مذاہب کے حوالے سے تقسیم نہ ہونے کے برابر تھی۔ الگ الگ مذاہب موجود تھے مگر انسانی رویے آفاقی اخلاقی اصولوں کے عکاس تھے اس لئے ایک عجیب طرح کی ہم آہنگی، خلوص اور رواداری نے انھیں اس طرح آپس میں باندھ رکھا تھا کہ وہ دُکھ سُکھ کے مواقعوں پر بھی اکٹھے ہوتے تھے اور ایک دوسرے کے مذہبی تہواروں کا نہ صرف احترام کرتے تھے بلکہ اُن میں شرکت کر کے بھائی چارے کی فضا کو فروغ دیتے تھے۔ زیادہ دور مت جائیے اٹھارہویں صدی کا پنجاب دیکھ لیں۔ ہیر وارث شاہ پڑھ لیں آپ کو یہ فضا لفظوں میں جلوہ گر نظر آئے گی۔

وارث شاہ کی داستان میں جس سماج کی جھلک دکھائی دیتی ہے اس میں بسنے والے مسلمان تمام مذاہب کے نیک، صالح اور دانشور انسانوں کی عزت کرتے اور احترامِ آدمیت اخلاقیات کا مرکزی نقطہ تھا۔ وارث شاہ نے اپنی شاعری کے ذریعے اپنے عہد کا جو خاکہ پیش کیا ہے اور چلتے پھرتے انسانوں کے ساتھ ساتھ اشیاء کی جو منظر کشی کی ہے وہ لاجواب ہے لیکن وارث شاہ کا کمال یہ ہے کہ اُس نے لوگوں کے رویوں کو بھی ایک ماہر نفسیات کی طرح جانچا اور تاریخ کا حصہ بنا دیا۔ اٹھارہویں صدی کا پنجاب اپنی وسعت قلبی اور روشن خیالی میں کتنا مضبوط تھا۔ لوگ کھلے دل کے مالک تھے۔ غور کیجئے قصے کا ہیرو رانجھا ایک ہندو جوگی سے دعا کی درخواست کرتا ہے کیونکہ اُسے یقین ہے کہ ہر انسان اُس کے خدا کی مخلوق ہے اور نیک لوگوں کی دُعا سُنی جاتی ہے۔ انیسویں صدی آگئی، پاکستان بننے کے بعد بھی رواداری کا ماحول پرورش پاتا رہا۔ ہونا تو یہ چاہئے تھا کہ تعلیم اور تہذیب کے ساتھ ماحول زیادہ خوشگوار ہوتا مگر حالات نے پلٹا کھایا اور صدیوں کی ہم آہنگی اور مذہبی رواداری کو تہس نہس کر کے رکھ دیا۔ روشن دن کے چہرے پر سیاہ رات ایسے قابض ہوئی کہ صبح کے ستارے کا دیدار مشکل ہوگیا۔ جب ایک مذہب کے ماننے والے مختلف فرقوں میں تقسیم ہو کر ایک دوسرے کے دشمن بن جائیں اور خون بہانے لگیں تو وہاں دوسرے مذاہب کے لئے نرمی کی کہاں گنجائش باقی رہتی ہے۔ ایسی ہی صورتحال کا پاکستان کو سامنا کرنا پڑا ۔ ہم اپنے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی تعلیمات کا مطالعہ کریں تو انہوں نے مسجد جو کہ مسلمانوں کی مقدس عبادت گاہ ہے میں بھی دیگر مذاہب کو داخلے اور عبادت کرنے کی اجازت دے کر اسلام کی وسعت کا عملی مظاہرہ کیا۔ اُن کی ذات مبارکہ بھی تمام لوگوں کے لئے رحمت کا باعث ہے اور اُن کا رویہ بھی سب سے شفقت اور مہربانی کی عمدہ مثال ہے۔

پاکستان کی ساٹھ سالہ تاریخ میں دنیا نے وسیع المشربی کو تنگ نظری میں ڈھلتے ہوئے دیکھا اور ایک سیاہ باب رقم ہوگیا۔ آج وہ دور نہیں مگر ابھی تک دلوں کے اندر اُس سیاہی کا کچھ حصہ باقی ہے۔ جس کے سائے کی وجہ سے نگاہوں کو واضح تصویر نظر نہیں آتی۔ شدت پسندی ایک دم ختم نہیں ہو سکتی۔ چیزیں تعمیر ہونے میں وقت لیتی ہیں۔ اِسی طرح ٹوٹی ہوئی قدریں جڑنے میں کہیں زیادہ وقت لگتا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ آج لوگ بظاہر بہت تعلیم یافتہ اور روشن خیال نظر آتے ہیں مگر اُن کے نظریات میں تنگی براجمان ہے۔ اب یہ انفرادی مسئلہ نہیں رہا بلکہ مجموعی معاشرے کا معاملہ بن چکا ہے۔ بری بات زیادہ جلدی پھیلتی ہے اور اچھی بات کو لوگوں تک پہنچنے میں کچھ وقت لگتا ہے۔ تاہم خوشی کی بات یہ ہے کہ پنجاب گورنمنٹ کی طرف سے اقلیتوں کے حوالے سے کچھ بہت اہم اعلان کئے گئے ہیں۔ تقریباً چھ ہزار خاندانوں کے لئے کرسمس گرانٹ کا اعلان کیا گیا ہے، اقلیتی آبادی والے علاقوں میں نکاسی آب، سڑکوں، گیس، بجلی اور دیگر سہولیات کی فراہمی یقینی اور بہتر بنائے جانے کی شنید ہے۔ اقلیتوں کے مذہبی مقامات کی دیکھ بھال، مرمت اور تزئین و آرائش کے لئے منصوبہ بندی عظیم آغاز ہے۔ صدیوں پرانے یہ مقامات پاکستان کا تاریخی ورثہ ہیں۔ اِن کی حفاظت اور دیکھ بھال فرد واحد کے بس میں نہیں یہ سرکار کا کام ہوتا ہے۔ شکر ہے کہ سرکار نے دیر سے سہی اِس طرف توجہ مبذول کی اور اسے اپنی ترجیح اور اہم ذمہ داری قرار دیا۔ مذہبی مقامات کے ذریعے دنیا بھر کے سیاحوں کی توجہ حاصل کی جا سکتی ہے اور زرمبادلہ بھی کمایا جاسکتا ہے۔ اسی طرح اقلیتوں کو خصوصاً مسیحی برادری کو ترقی کے دھارے میں شامل کرنے کے لئے کئی اقدامات کیے جا رہے ہیں جن سے اُن کی سماجی بہتری ہو اور معاشرے میں برابری کی فضا بنے۔ تعلیم انسان کوسنوارتی ہے اِس لئے پانچ ہزار نوجوانوں کو پی، ایس، ڈی، ایف کے تحت فنی تربیت دینے کے ساتھ ساتھ نوجوانوں کے لئے تعلیمی وظائف بھی رکھے گئے ہیں اور ملازمت میں بھی ان کا پانچ فیصد کوٹا رکھا گیا ہے۔ جس سے وہ صرف مخصوص نوکریاں ہی نہیں کریں گے بلکہ ہر قسم کی یعنی اعلیٰ ملازمتوں میں بھی حصہ لے کر ملک کی ترقی میں اپنا کردار ادا کریں گے اور بطور پاکستانی فخر محسوس کریں گے۔ مجھے امید ہے کہ موجودہ اقدامات کے بعد اقلیتیں زیادہ تحفظ محسوس کریں گی۔ آئیے اپنے اردگرد دیکھیں اور جہاں تک ممکن ہو سکے انفرادی سطح پر بھی دیگر مذاہب سے تعلق رکھنے والے لوگوں کے دُکھ درد دور کرنے کی کوشش کر کے اُن کا اعتماد بحال کریں۔ اِسی کا نام انسانیت ہے۔ صوفیاء نے ہمیشہ وسیع تر معاشرے کی بات کی ہے۔ وہ تمام انسانوں کو خدا کا کنبہ تصور کرتے ہیں اور سب کے مساوی حقوق کا پرچار کرتے ہیں۔ پاکستان کو امن کی ڈگر پر رواں کرنے کے لئے صوفیاء کی تعلیمات کو نصاب کا حصہ بنایا جانا بے حد ضروری ہے۔

تازہ ترین