زمین پر بسنے والے انسانوں میں، دوسرے سیاروں کو جاننے کا تجسس ہمیشہ رہا ہے، یہی وجہ ہے1969 میں انسان نے چاند پر پہلی بار قدم رکھا۔ بقول شاعرِ مشرق علامہ اقبال ’’ستاروں سے آگے جہاں اور بھی ہیں‘‘ کے مصداق، اب انسان چاند کے بعد دوسرے سیاروں پر جانے کی شدید خواہش رکھتا ہے۔ امریکی خلائی ادارے ناسا کے مطابق 2043 میں انسان مریخ پر قدم رکھے گا۔ اس نکتہ کو بنیاد بنا کر امریکی ناول نگار’’اینڈی ویئر‘‘ نے ناول’’The Martian‘‘ لکھا، جس میں 2035کا قت دکھایا ہے۔ اس ناول کے عنوان سے مراد ہے کہ’’ ایک مریخی‘‘ یا پھر’’ مریخ پر رہنے والا باشندہ‘‘ جس نے تن تنہا اپنی زندگی کے شب و روز اُس تنہا سیارے پر بسر کیے۔ اس کو دنیا بھر میں بے حد مقبولیت حاصل ہوئی ناول کی اشاعت کے بعد، ناول نگار کی زندگی کا منظر نامہ تبدیل ہوگیا۔
امریکی ادیب’’اینڈی وئیر‘‘ کا یہ پہلا باقاعدہ ناول ہے، اس سے پہلے وہ اپنی ذاتی ویب سائٹ پر مختصر اور طویل کہانیاں لکھتے تھے، مختلف ادبی اور غیر ادبی تحریروں کو لکھنے کا سلسلہ بھی جاری رکھا، لیکن ان کے ادبی سفر کا حقیقی آغاز اسی ناول سے ہوا۔ اس سے پہلے وہ کمپیوٹر پروگرامر کے طور پر کئی معروف سافٹ ویئر کمپنیوں کے ساتھ منسلک تھے۔ امریکی ریاست کیلی فورنیا میں پیدا ہونے والے اس ناول نگار کو زندگی میں پہلا دُکھ آٹھ سال کی عمر میں والدین سے جدائی کا ملا، جب والدین کے درمیان علیحدگی ہوگئی۔ ان کے والد کا تعلق فزکس جبکہ والدہ کا تعلق الیکٹرکل انجینئرنگ سے تھا، جبکہ انہیں خود کمپیوٹر اور سائنس فکشن میں دلچسپی تھی، ان مشاغل نے آگے چل کر ان کی زندگی میں اہم کردار ادا کیا۔
اینڈی ویئر نے ادبی زندگی کی شروعات اپنی ذاتی ویب سائٹ پرلکھنے سے شروع کرنے کے بعد کامیابیاں سمیٹینا شروع کیں، ویب پر بلاگ لکھتے لکھتے مختصر اور طویل کہانیاں بھی لکھنے لگے، ایک دوست کے ساتھ مل کر کارٹون کہانیاں بھی لکھیں، ایک گیم بھی تخلیق کیا،پھر ان کے ذہن میں ایک خیال یہ بھی گردش کر رہا تھا کہ ان کو مفصل ناول لکھنا ہے، چونکہ یہ بچپن سے سائنس فکشن پڑھنے کے عادی تھے، اس لیے اپنے پہلے ناول کو سائنس فکشن کے تناظر میں لکھتے ہوئے انہیں کوئی رکاوٹ نہ ہوئی ، بلکہ انہوں نے اس ناول میں جن سائنسی اصولوں کو استعمال کیا، ناقدین کے مطابق زیادہ تر وہ درست ہیں۔
ناول کا مرکزی خیال کچھ یوں ہے کہ، امریکی خلائی ادارے ناسا کے چند خلاباز معمول کے مشن پر زمین سے مریخ کا سفر کرتے ہیں۔ مریخ پر اترنے کے بعد وہ اپنے خلائی مرکز میں سائنسی اہداف حاصل کرنے کے لیے کام کر رہے ہوتے ہیں کہ اس دوران انہیں اطلاع دی جاتی ہے کہ ایک بہت بھیانک طوفان آنے والا ہے، اس لیے جتنی جلدی ممکن ہوسکے، وہاں سے نکل جائیں۔ اس دوران وہ طوفان بھی ان کے سر پر آن پہنچتا ہے۔ وہاں سے روانہ ہونے کی افراتفری میں ایک خلاباز، جس کا نام’’مارک وٹنی‘‘ ہوتا ہے، وہ ایک حادثے کا شکار ہو کر اپنے ساتھی خلابازوں سے بچھڑ جاتا ہے، یوں اس کے دیگر ساتھی اسے مردہ تصور کرتے ہوئے مریخ سے زمین کی طرف واپس آنے کے لیے روانہ ہو جاتے ہیں۔ اس صورتحال میں ڈرامائی موڑ تب آتا ہے، جب یہ پتہ چلتا ہے کہ مریخ پر حادثے کا شکار ہونے والا خلا باز زندہ ہے۔ اب وہ خلاباز، جس کے پاس بوٹنی اور انجینئرنگ کی ڈگریاں ہیں، وہ اس مردار سیارے پر اپنی زندگی بچانے کے جتن کرتا ہے۔ مریخ پر خلابازوں کے اڈے پر بچے کھچے سامان ، خوراک، آلات اور دیگر اشیاکی مدد سے اپنی زندگی کے دن بڑھانے لگتا ہے، اس دوران بچائو کی تدابیر اور زمین سے تعلق بحال کرنے کی کوششیں کرتا ہے، سخت محنت اور حاضر دماغی کی بدولت اُسے کامیابیاں ملنے لگتی ہیں، دوسرے طرف زمین پر امریکی خلائی ادارہ اور خلا میں موجود اس کے دیگر ساتھی مل جل کر اس کو واپس لانے کی جدوجہد کرتے ہیں۔ زمین سے کروڑوں میل دور ایک سیارے سے انسان کو واپس لانے میں کئی سال درکار ہونے کے باوجود امریکی خلائی ادارہ سوچتا ہے، ایسا کوئی حل نکالا جائے، جس کی مدد سے مریخ پر پھنسے ہوئے اس انسان کو، جو حادثاتی طور پر وہاں کا باشندہ بن کر رہ گیا ہے، اس کو واپس لایا جائے۔ اس سلسلے میں روسی خلائی ادارے سے بھی مدد لی جاتی ہے(فلم میں چینی خلائی ادارہ دکھایا گیا ہے) اس طرح تابڑ توڑ کوششوں کے بعد وہ خلاباز واپس اپنے گھر یعنی زمین پر زندہ واپس آنے میں کامیاب ہوجاتا ہے۔
2015 میں اس ناول پر اسی نام سے فلم بنائی گئی۔ ناول کی کہانی سے فلم کی کہانی تک، سب کچھ فکشن تھا، البتہ فلم بناتے وقت اس میں کئی تبدیلیاں بھی کی گئیں، جس طرح کہ اس ناول کے مطابق خلاباز پی ایچ ڈی سند یافتہ ہے، جبکہ فلم میں اسے دو مختلف ڈگریوں کا حامل دکھایا گیا ہے، اسی طرح ناول میں خلاباز کو مریخ سے واپس لانے کے لیے امریکی سائنسدان روسی خلائی سائنسدانوں کی معاونت حاصل کرتے ہیں، جبکہ فلم میں چینی خلائی مرکز اورچینی سائنسدانوں کو مددگار دکھایا گیا ہے۔ یہ فلم امریکا اور برطانیہ کے اشتراک سے بنی۔ فلم کے ہدایت کار’’ریڈلی اسکاٹ‘‘ ہیں، جن کے کریڈٹ پر اس فلم کے علاوہ تین ایسی فلمیں ہیں، جن پر اُنہیں آسکر ایوارڈ ملا ہے، ان فلموں میں تھیلمااینڈ لوئیس،گلیڈیٹر اور بلیک ہوک ڈائون شامل ہیں۔
فلم کو 20th Century Fox جیسے معروف امریکی فلم سازادارے نے پروڈیوس کیا، لیکن برطانیہ کا اشتراک بھی اس میں شامل ہے۔ پانچ پروڈیوسرز کی معاونت سے یہ فلم پایہ تکمیل کو پہنچی۔ فلم کا اسکرین پلے’’ڈری گوڈرڈ‘‘ نے لکھا، جبکہ مرکزی کردار’’میٹ ڈیمن‘‘ نے نبھایا، جو ہالی ووڈ کے منجھے ہوئے اداکار ہیں۔ فلم کو عکس بند کرنے کے لیے دو ممالک کا انتخاب کیا، جس میں اسٹوڈیو کا زیادہ تر کام ہنگری میں ہوا، تقریباً بیس سیٹ لگائے گئے، جن کے ذریعے فلم کے مختلف مناظر کو فلمایا گیا، جبکہ اصل مقام، جہاں مریخ کے علاقے دکھائے گئے، اس کے لیے عرب ملک اردن میں’’وادی ٔروم‘‘ کا انتخاب کیا گیا۔ 88ویں آسکر ایوارڈز کے لیے اس فلم کو سات شعبوں میں نامزد کیا گیا، جس میں سے دو شعبوں، بہترین فلم اور بہترین اسکرین پلے میں آسکرایوارڈ اپنے نام کیا۔
اس کے باوجود مریخ اور سائنس فکشن میں دلچسپی رکھنے والوں کے لیے اس ناول اور فلم میں بہت کچھ ہے، مغربی ناقدین نے تو مشورہ دیا ہے کہ ،پہلے ناول پڑھیں، پھر اس پر بنی ہوئی فلم دیکھیں تو آپ کا لطف دو آتشہ ہوجائے گا۔ اب تک مریخ پر لکھے گئے ناول اور ان پر بننے والی فلموں میں مریخ کا باشندہ فلم اور ناول دونوں کو بہترین قرار دیا گیا ہے۔ آپ اس ناول کو پڑھنا یا فلم دیکھنا چاہتے ہیں تو ضرور دیکھیں ۔اس کی کہانی آپ کو اپنے بیانیے میں اس قدر محو کرلے گی کہ وقت گزرنے کا احساس ہی نہیں ہوگا اور کہانی ختم ہوجائے گی۔ کسی بھی کہانی کی کشش یہی ہوتی ہے۔