• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن
تحریر: سردار عبدالرحمٰن خان۔۔۔ بریڈفورڈ
کشمیری تہذیب صدیوں پرانی ہے کشمیر میں باہر کے حملہ اوروں اور تہذیبوں نے بارہا یلغاریں کیں اور اقتدار پر قبضہ کیا لیکن کشمیریوں نے اپنی اصلیت اور خصوصیت کو برقرار رکھااردو، انگریزی اور فارسی زبانوں نے اپنا اپنا اثر چھوڑالیکن اس کے باوجود مقامی زبانوں میں کشمیری ڈوگری ،گوجری ،پہاڑی اور دوسری زبانوں کاوجود قائم رہاہے ۔کشمیریوں نے کئی جہات میں نمایاں طور پر نام کمایا ۔آج ہم راولاکوٹ ،پونچھ کشمیر میں پیدا ہونے والی شخصیت کے بارے میں اظہار خیال کریں گے جنھوںنے آپ خود تو بہت کچھ پڑھایااور لکھا لیکن ان کے بارے میں بہت کم لکھا گیا ہے۔وہ برگزیدہ شخصیت مولانا میر عالم مرحوم ہیں ۔وہ 1900ء میں پید اہوئے اور1965ء میں قلیل بیماری کے بعد خالق حقیقی سے جا ملے۔مولانا ایک ایسی شخصیت تھے جو جائو چشم اور دنیائوی شہرت کے متلاشی نہ تھے ۔وہ اپنے دینی فرائض سخت پابندی کے ساتھ ادا کرتے تھے ۔اور قومی اصلاحی کام خاموشی،بردباری اور حکمت عملی سے بجالاتے تھے۔مولانا حقوق اللہ اور حقوق العباد دونوں پر سختی سے تلقین کرتے تھے ۔وہ جید عالم تھے ۔انھوںنے کسب علوم زیادہ تر اپنے شوق سے مطالعہ حاصل کیا تھا۔انھوںنے اپنی عملی زندگی کے دوران پنجاب یونیورسٹی لاہور سے اردو ،فارسی اور عربی زبانوں میں اسناد حاصل کر رکھی تھیں ۔وہ مشرقی علوم کے استاد اور بعد میں لیکچرار رہے ہیں ۔انھوں نے کل وقتی طور پر مدارس اور کالجوں میں پڑھایا۔لیکن فارغ وقت میں علم کے متلاشی دور دور سے چل کر ان سے دینی علوم میں مستفید ہونے کے لئے آتے تھے مولانا مفسر ،محدث اور ادب کے انعقاد تھے ۔وہ علم منطق میں بھی دسترس رکھتے تھے ،مولانا اپنے شاگردوں میں اپنے عقائد ٹھونسنے کی بجائے نرم کلامی ،سہل زبانی اور دوستانہ ترغیب سے اثر انداز ہونے کو ترجیح دیتے تھے ،گو پیشے کے لحاظ سے وہ معلم اور لیکچرار تھے لیکن حقیقتاًوہ ایک مفکر ،مدبر،مورخ،منصنف،شاعر اور ادیب تھے۔مولانا نے متعدد موضوعات پر اصلاحی مضامین ،تجزئیے،مقالے ،منظوم پندو نصاح،تاریخی حقائق اور تحقیقی کتب لکھیں۔ان کے کچھ مضامین اور مقالے محفوظ نہ رہ سکے۔لیکن انکی محفوظ تصانیف میں ( 1)تاریخ آزادی کشمیر(2)تاریخ قوم سدھن(3) شان وحدت(4)دافع الرسوم(5)کلمہ طیب (6)سی حرفی (7)زمانے دی چال( پنجابی) شامل ہیں ۔مولانا میر عالم خان کی کتاب’’تاریخ کشمیر‘‘پر تبصرہ کرتے ہوئے سید مبارک علی شاہ گیلانی جنرل سیکرٹری مسلم لیگ سری نگر جو خود بھی ایک مصنف ہیں وقمطراز ہیں:۔مولانا میر عالم خان پونچھ کے مشہور قبیلہ سدھن سے تعلق رکھتے ہیں ۔مولانا سے جب پہلی ملاقات ہوئی تو میں نے محسوس کیا کہ میں کسی بڑی شخصیت سے مل رہا ہوں ۔مولانا کہ کلام میں فصاحت و بلاغت پائی گئی ۔نہایت ہی نرم مزاج ۔گفتگو کا نداز مدبرانہ،شکل وصورت اور وضع قطع عالمانہ اور سادہ ہے۔میں یہ کہہ بغیرنہیں رہ سکتا کہ میں ایسی شخصیات کم دیکھی ہیں جن سے متاثر ہو اہوں گا ۔مولانا میر عالم خان صاحب مسلمان کشمیر اور پاکستانی مسلمانوں کے شکریہ کے مستحق ہیں انھوں نے قوم ہر بڑا احسان فرمایا۔مولانا نے پوری عمر محنت ،مطالعہ اور علمی وابی مشاغل میں گزاری۔بچوں کو نصابی کتب کے علاوہ دینی علوم کی طرف متوجہ کیا طلباء کو اعلیٰ اوصاف اپنانے کی طرف متوجہ کرتے رہے ۔علاقہ پونچھ کے بڑے بڑے لوگ انکے شاگرد رہے۔ پونچھ کے آرمی جنرلوں کے علاوہ آزاد کشمیر اور پاکستان کے اعلیٰ عہدوں پر برجمان ہونے والی کیی ہستیاں ان کی شاگرد رہی ہیں ۔سید علی گیلانی کہتے ہیں ’’مولانا کے اندار ایک بہت بڑا وصف ہے کہ وہ اپنے اعمال سے دوسروں کو راہ راست پر لاتے تھے۔معلم اور لیکچرار کی حیثیت سے گورنمنٹ کالج میں مشرقی زبانیں پڑھاتے تھے ۔مولانا بہت ہر دلعزیز شخصیت کے مالک تھے۔ چھوٹے بڑے سے دلچسپی سے بات کرتے تھے ۔مولانا کے پاس طلباء کے ہاسٹل کی اضافی ذمہ داری بھی تھی۔ وہ سٹوڈنٹ ہاسٹل کے سپریٹنڈنٹ تھے ۔وہ صبح سویرے تما م طلباء کو نماز اور مذہبی تعلیم کیلئے اٹھا کر جامع مسجد اپنے ساتھ لے جاتے تھے ان کی رہائش گاہ پر فرصت کے اوقات میں ادبی اور علمی محفلیں لگتی تھیں ۔علماء ،ادباء،شعراء اور اہل فکر ،سیاسی شخصیات سنجیدہ موضوعات اور معروضی سیاسی حالات پر گفتگو اور مباحث ہوتی تھیں ۔مولانا میرعالم جس جگہ بیٹھتے تھے وہ درس گاہ بن جاتی تھی ۔بیٹھک اور سفر میں انکے ساتھی ان سے مختلف موضوعات پر سوالات کرتے تھے ،وہ دوسروں کے نقطہ ہائے نظر کو سنتے تھے اور خندہ پیشانی سے مشکل مسائل کی منطقی طور پر فقرہ کشائی کرتے تھے ،وہ پیری مریدی اور خانقاہ پرستی کے قائل نہ تھے ،لیکن علماء اکرام ،فقہاء،ادباء اور دانشوروںکے مجالس میں وہ بحث مباحث میں مثبت طور پر حصہ لیتے تھے ۔وہ انتہائی خداترس اور منصف المزاج الشان تھے ۔ہندو، سکھ اور دوسرے مذاہب کے لوگ بھی انکی عزت کرتے تھے ۔آج سے ستر اسی سال پہلے جموںو کشمیر کے مختلف علاقوں میں اور خصوصاً علاقہ پونچھ میں دقیانوسی رسم ورواج ،معاشرتی زندگی میں برائیاں ،خاندانی جھگڑے ،زمین وزن کے فسادات ،شادی وبیاہ کی رسومات موت و غم کے مواقع پراختلافات پائے جاتے تھے جو لوگوں کی زندگیوں پر بری طرح اثر انداز ہوتے تھے ۔مولانا میر عالم خان نے اپنی نثری تحریر اور شاعری سے ان فرسودہ رسومات اور عادات کے خلاف جنگ لڑی ۔اس جنگ میںریاست جموں وکشمیر کے اس وقت کے ممبر اسمبلی کرنل(ر)خان محمد خان نے عملی جدوجہد کرکے حصہ لیا۔انھوںنے گائوں گائوں اور قریہ قریہ جاکر لوگوں کو ان رسومات اور فرسودہ روایات کو ترک کرنے کی ترغیب دی۔سگریٹ نوشی ،نسوار خواری اور حقہ نوشی کی لعنت سے گریز کرنے کی تاکید کی ۔شادیوں میں ڈھول دھماکے ،بیگ پائپ کے شور شرابے اور گانے بجانے کے غیر اسلامی طور طریقوں کو چھوڑنے کی تلقین کی ۔میرعالم خان آزادکشمیر کے پہلے صدر غازی ملت سردار محمد ابراہیم خان کے بڑے بھائی اور موجودہ صدرسردار محمد مسعود خان کے دادا تھے مولانا نے خود اپنے ہاتھوں سے ان دونوں کی آبیاری کی۔
تازہ ترین