جدید معاشی تاریخ میں سرکاری شعبے ،سرمایہ دارانہ نظام کے کھوکھلے ڈھانچے، سوشل اِزم کے انہدام کےبعد ،خصوصاً تیسری دنیا میں، بیو ر و کریسی کے بے قابو صوابدیدی اختیارات کے نتیجے میں کرپشن ،نِج کاری اورجعلی سپر منافعے کے اجرا کے بعد ڈالرز کی صُورت ہونے والا منافع قانونی طور پر فرار ہونے لگا ۔اسی کے ساتھ مَنی لانڈرنگ کے ذریعے دہشت گردی کو تقویت ملی ، تو منڈی کی معیشت کے عالمی ساہوکاروں اورمالیاتی اِداروں نے قرضوں کے ذریعے کرپٹ حکمرانوں کے اُجڑتے،( بہ ظاہر دمکتے) شہروں پر دونمبر کرنسی کی ایسی یلغار کی کہ سرکاری ادارے بے بس نظر آنے لگے۔ سامراج کی اس سازش کے ساتھ ہی میڈیا پر شور ہونے لگا کہ معیشت کو سرکاری بندشوں سے آزاد کیا جائے، لیکن عالمی سرمائے کی یلغار سے تیسری دنیا خسارے سے دوچار ہوکرجدید غلامی میں جکڑی نظر آنے لگی۔ اس صُورتِ حال کو دیکھ کر مغربی ماہرینِ معاشیات کے ایک حلقے نے یہ مؤقف اختیار کیا کہ سرکاری شعبے کی ناکامی کا یہ مطلب نہیں کہ منصفانہ نظام کے بغیرجنوب پر شمال کے معاشی قبضے کو برحق قرار دیاجائے اور یہ سوچ لیاجائے کہ گلوبلائزیشن اور نِج کاری ہرقسم کی معاشی بیماریوں کاعلاج ہے۔ جب ریگن اور تھیچر کافارمولا آزاد تجارت میں شامل ہوا ، تو پس ماندہ ممالک قرضوں کی چُنگل میں پھنس گئے۔ ٹرانس نیشنل کمپنیوں کی بالادستی غیر متنازع ہوگئی ،کیوں کہ ترقّی پذیر اور بعض ترقّی یافتہ ممالک کی مافیاز اِن کے گرد جمع ہیں۔شاید یہی وجہ ہے کہ پاکستان جیسے ممالک ان کی کرپشن کے سامنے مجبور ہیں۔ دنیا بھر میں کارپوریٹ کرپشن کاچرچا کم ہوتا ہے، لیکن اب زایدپیداوار، جعلی سُپرمنافعے اور کسینو معیشت نے حکومتوں کوقرضوں میں جکڑ کربے بس کردیا ہے۔ لندن اکانومسٹ نے اداریہ لکھاکہ’’ صدر ٹرمپ کا کہنا ہے کہ امریکا کی پرانی شان بحال کروں گا، لیکن حالات ایسے ہیں کہ آدھے ڈیموکریٹس سوشل اِزم کے حامی ہیں‘‘۔ جب ہم یہ دیکھتے ہیں کہ یورپ نے امریکی تسلّط کے بہ موجب یورپی یونین تشکیل دی اور معیشت کی منڈی نے (2008ء) عالمی مالیاتی انہدام سے کساد بازاری اور بے روزگاری عام کردی، تواس کا حل گلوبلائزیشن اور نِج کاری نہیں۔ یورپی یونین دو بڑی امریکی ٹیلی کمیونی کیشن کمپنیوں کے اِدغام کی مخالفت کرتا ہے، تو یہ اس بات کا اظہار ہے کہ یورپ مستقبل کے امریکی ٹیلی کمیونی کیشن نیٹ ورک سے خوف زدہ ہے۔ اسے علم ہے کہ اس کا معیار امریکا سے کم ہے۔ کچھ عرصے پہلے ایک بڑی کمپنی ’’ووینڈی‘‘ نے ایک ملٹی نیشنلز کمپنی ’’ سی گرام‘‘ کو34ارب ڈالرز میں خرید ا۔ یورپی یونین نے اعلان کیاتھا کہ جب بھی امریکی کمپنیوں کا اِدغام مالیاتی مقرّرہ حد (240ملین ڈالرز) سے تجاوز کرے گا ، تویورپی یونین اپنے قوانین کے تحت امریکی قوانین کوکالعدم کر دے گا۔ یہ اس بات کا مظہر ہے کہ سوشل اِزم کے انہدام کے بعد امریکا بہ مقابلہ یورپ اور امریکا بہ مقابلہ چین، سرد تجارتی جنگ مستقبل میں مزید زور پکڑے گی۔ دنیا کی زاید پیداوار ، جوئے کے اڈّوں ،کسینوز اور اسٹاک مارکیٹوں میں کرنسی تجارت کے حجم سے زیادہ ہوگی ۔
خوف کے کلچر اور عالمی تجارتی تنظیم کی آزاد تجارت نے امریکا کو خود بھی خوف زدہ کردیا ہے، اسی لیے وہ اپنے دبدبے اور تسلّطی شناخت بڑھانے کی خاطر پراکسی جنگوں (افغانستان ، عراق ) اور تعلقات ِعامّہ پر اربوں ڈالرز خرچ کررہاتھا ، لیکن عین اُسی وقت جب ’’ سُپرمین‘‘ کا امیج اُبھررہاتھا، گیارہ ستمبر2001ءکو ایک ایسا حادثہ رونما ہوا، جس سے اس امیج کوشدید نقصان پہنچا اور امریکی قوم عدم تحفّظ کا شکار ہوگئی۔لیکن یورپ، روس اور چین اس حادثے کومعاشی نقطۂ نظر سے دیکھتے ہیں ۔اُن کا خیال ہے کہ اگر امریکا جنگ میں ملوّث اور مزید کسی حادثے کاشکار ہوتا ہے، تواس کی معیشت دیوالیہ ہوسکتی ہے۔ یہی وجہ ہے کہ امریکا نے جس مارکیٹنگ کلچر کوفروغ دیا، آج اس کے عوام اسی کا شکار ہیں۔ پُرامن عالمی نظام کے قیام کے لیے ضروری ہے کہ بین الاقوامی سطح پر سماجی ومعاشی انصاف کا اعلیٰ نظام قایم کیا جائے۔
اگر امریکی مارکیٹنگ کے انداز اور خوف کلچر کی چند مثالیں شامل کرلی جائیں ، توامریکی ترقّی کی نفسیات اور موجودہ حالات کے بارے میں بہتر ادراک ہوسکتا ہے۔ امریکی مارکیٹنگ کازیادہ تر انحصار غیر حقیقی خوف پر مبنی ہے اس کا اظہارY2Kکی صُورت عوام نے گزشتہ صدی کے اختتام کے وقت دیکھا تھا ، جب امریکی کمپیوٹر نے بہت نفع کمایا۔ ماضی میں دیکھیں تو1932ء میںجب عام انتخاب ہوئے،اُس وقت امریکا کی مرکزی اسٹاک مارکیٹس دیوالیہ ہوگئی تھیں، جن کے اثرات یورپ پربھی پڑے۔ امریکی یا مغربی قومیں حقیقی خوف سے نظریں چُراتی ہیں، مثلاً شراب اور سگریٹ نوشی سے دل کی بیماریاں لاحق ہوتی ہیں یا آلودگی موت کی طرف لے جارہی ہے ؟گیسوں اور جراثیم سے بھرے بم گرانے سے خوف ناک وبائی بیماریاں پھیلیں گی، اس کی بہ جائے بھوت پریت، ڈریکولا وغیرہ سے زیادہ خوف کھانا پسند کرتے ہیں۔ کیلی فورنیا میں فروخت کیے جانے والے ایک پوسٹ کارڈ پر چار موسموں کے نام لکھے گئے ہیں ، جو من گھڑت اختراعی موسم ہیں۔وہ یہ ہیں خون ریز ہنگاموں کا موسم، کیچڑ کے سیلاب کا موسم، زلزلے اور آگ بھڑکنے کا موسم وغیرہ۔ در اصل امریکی خطّے میں ان چار وں عناصر کا عمل دخل زیادہ رہا ہے، ان کے خوف سے مذکورہ کارڈ بہت زیادہ فروخت ہوئے ۔ کچھ عرصہ قبل لاس اینجلس کے ایک ادیب، بیری گلاسسز نے ایک کتاب’’ کلچر آف فیَر‘‘اور اسی موضوع پر اے آر کینیڈی نے ’’فریڈیم فرام فیَر ‘‘ شایع کیں، جو بہت زیادہ فروخت ہوئیں۔ اس سے پتا چلتا ہے کہ امریکی حکمران خوف کے عنصر کے ذریعے عوام کی نفسیات سےکیسے کام لیتے ہیں۔ ماہرین کا کہنا ہےکہ لاس اینجلس میں سِول وار کے تین بڑے سانحات ہو چکے ہیں۔ 1992ء میں155افراد ہنگاموں میں مارے گئے اور ایک ارب ڈالر کا نقصان ہوا۔ 1993ء میں آگ کاطوفان آیااور1.5ارب ڈالرز کا نقصان ہوا۔ 1994ء کے زلزلے میں جانوں کے زیاں کے ساتھ42ارب ڈالر زکا نقصان ہوا۔ فلم سازوں نے بھی غیر حقیقی خوف پرمبنی فلمیں بنائیں۔ گارڈ ذیلا اور جراسک پارک نے اربوں ڈالرز کمائے۔لاس اینجلس شہرپر138ناولز لکھے گئے اور خوب فروخت ہوئے، ان ناولز پر کئی فلمیں بھی بنائی گئیں ، جوباکس آفس پر ہٹ ہوئیں۔ غورطلب بات یہ ہے کہ اس خوف کے پسِ منظر میں سیاست دان، سیکیورٹی ایجینسیاں اور انشورنس کمپنیاں فائدہ اُٹھاتی ہیں۔ اس فائدے میں سیاست دانوں کا بھی حصّہ ہوتا ہے۔ امریکا میں انصاف کے نظام پر100ارب ڈالرز سے زیادہ خرچ کیا جاتا ہے، اس کے برعکس کھوکھلےامریکی معاشرے کی حالت یہ ہے کہ کیلی فورنیا میں اسکولز پر کم، جیلوں پر زیادہ اخراجات کیے جاتے ہیں۔ صرف کیلی فورنیا میں ایک لاکھ سے زاید مجرم قیدہیں ، ہرماہ تین ہزاررہااور اس سے زیادہ قید ہوتے ہیں۔ دیکھا گیا ہے کہ اگرکوئی مجذوب یا نشے کا عادی اچانک گولیاں چلاکر لوگوں کو ہلاک کردے، تو اس واقعے کواس لیے پوشیدہ رکھا جاتا یاکم تشہیر کی جاتی ہے کہ اسلحہ سازی کی صنعت کا نقصان نہ ہو۔ عام مشاہدہ ہے کہ امریکا میں85فی صد ٹریفک حادثات شراب نوشی سے ہوتے ہیں، لیکن میڈیا پر بتایا جاتا ہے کہ ڈرائیورز کی آپس کی ماردھاڑ اور غصّہ حادثے کا باعث بنا، تاکہ شراب کی مذمّت کے خلاف رائے عامّہ نہ بن سکے ۔تاہم ، وقت کا تقاضا ہے کہ عوام کو خوش حال رکھنے کے لیے حقیقی خوف سے آگاہ رکھا جائے، ورنہ کرّۂ ارض کے عالمی اجارہ داروں کی پالیسیوں کے نتیجے میں انسانیت کوشدید خطرات کاسامنا کرنا پڑے گا۔