• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن


کراچی (نیوز ڈیسک) ایک ایسے وقت جب بھارتی حکومت نے70لاکھ کشمیری اپنے گھروں تک محصور کر دیئے ہیں، مقبوضہ وادی میں مکمل مواصلاتی بلیک آئوٹ ہے ایسے میں خاموشی ہی چیخنے چنگھاڑنے لگ جاتی ہے۔ بھارت نے برطانوی راج سے اپنا73واں یوم آزادی منایا۔ خستہ حال بچے نئی دہلی کی سڑکوں اور چوراہوں پر بھارتی پرچم فروخت کرتے دکھائی دیئے۔ ’’میرا بھارت مہان‘‘ کی تحریروں سے مرصع سوویئنرز بھی فروخت ہوئے لیکن یہ احساس کرنا مشکل تھا کیونکہ بھارتی حکومت کا رویہ کوئی شریفانہ نہیں ہے۔ گزشتہ ہفتے بھارت سے کشمیر کے الحاق کی بنیادی شرائط کی یکطرفہ خلاف ورزی کرتے ہوئے بھارت نے پوری مقبوضہ وادی کو قیدخانے میں تبدیل کر دیا۔ 70لاکھ کشمیری اپنے گھروں تک محدود، انٹرنیٹ منقطع اور ٹیلی فون خاموش کر دیئے گئے۔ 5اگست کو بھارت کے وزیر داخلہ نے کشمیر کی خصوصی حیثیت پر آئین کے آرٹیکل370کے خاتمے کی پارلیمنٹ میں تجویز دی۔ اپوزیشن کو دبا دیا گیا۔ دوسرے دن ہی شام کو دونوں ایوانوں راجیہ سبھا اور لوک سبھا سے جموں و کشمیر ری آرگنائزیشن ایکٹ2019ء منظور کرا لیا گیا جس کے ذریعے کشمیر کی خصوصی حیثیت کا خاتمہ کر دیا گیا جس کے ساتھ ہی اپنے آئین اور پرچم کا حق بھی سلب کر لیا گیا۔ اس کی ریاستی حیثیت کو ختم کر کے دو یونین ٹیرٹیریز میں تقسیم کر دیا گیا۔ اول جموں و کشمیر کا انتظام بھارتی حکومت براہ راست نئی دہلی سے چلائے گی۔ گو کہ اس کی مقامی دستور ساز اسمبلی تو موجود ہو گی لیکن اس کے اختیارات میں غیرمعمولی کٹوتی کر دی گئی ہے۔ دوسرے لداخ کا انتظام کسی اسمبلی کے بغیر براہ راست نئی دہلی سے چلایا جائے گا۔ قرارداد کی منظوری کا پارلیمنٹ میں برطانوی روایات کے مطابق ڈیسک بجا کر خیرمقدم کیا گیا تاہم فضا میں نوآبادیات کی بو محسوس کی جا سکتی تھی۔ بھارتی شہری ریاست میں اب رہ اور جائیداد خرید سکتے ہیں۔ کھلا کاروبار ان کے لئے ممکن ہو گیا۔ بھارت کے متمول ترین صنعت کار مکیش امبانی نے تو پہلے ہی متعدد اعلانات کا وعدہ کر رکھا ہے۔ بڑے پیمانے پر صنعت کاری ہوئی تو ہمالیاتی ماحولیات کو خمیازہ بھگتنا پڑے گا۔ ریاست کی قانونی حیثیت تحلیل ہو جانے کا مطلب آرٹیکل35-Aکی تحلیل ہے۔ ’’کاروبار کے لئے کھلا‘‘ ہونے کا مطلب کشمیر میں اسرائیلی طرز کی نوآبادیوں کے قیام کی بھی راہ ہموار ہو جائے گی۔ نئے ایکٹ کی خبر پھیلی تو بھارتی قوم پرستوں نے اس پر خوشیاں منائیں۔ بھارتی میڈیا نے بھی گھٹنے ٹیک دیئے۔ ریاست ہریانہ کے وزیراعلیٰ منوہر لال کٹھر خوشی میں اس قدر بدمست ہوئے کہ اپنی ریاست میں صنفی تناسب کو بہتر بنانے کے لئے مذاق میں یہ تک کہہ دیا کہ ’’ہمارے ٹھاکر جی کہتے ہیں کہ لڑکیاں بہار سے لائیں گے۔ اب تو کشمیر کھل گیا ہے، لڑکیاں تو وہاں سے بھی لائی جا سکتی ہیں‘‘ اس جاہلانہ، بے ہودہ اور اخلاق باختہ با آواز بلند انداز جشن کے برخلاف خود مقبوضہ وادی میں موت کی سی خاموشی طاری ہے۔ سڑکیں اور گلیاں محصور اور 70لاکھ کشمیری قید کی زندگی گزار رہے ہیں۔ جاسوس ڈرونز سے لوگوں پر نظر رکھی جا رہی ہے۔ اطلاعات کے اس دور میں پوری آبادی کو باقی دنیا سے وقتی طور پر تو کاٹا جا سکتا ہے لیکن آنے والے وقتوں کی سنگینی کو دبایا نہیں جا سکتا۔ کہا جاتا ہے کشمیر تقسیم برصغیر کا نامکمل ایجنڈا ہے۔ بہت سے جو بھارت میں ضم نہیں ہونا چاہتے تھے، انہیں اس پر مجبور کیا گیا۔ 1947ء کے بعد سے کوئی ایک سال بھی ایسا نہ گزرا ہو جب بھارت کو ’’اپنے ہی عوام‘‘ کے خلاف فوج تعینات نہ کرنی پڑی ہو۔ کشمیر، میزورام، ناگا لینڈ، منی پور، حیدرآباد دکن اور آسام، یہ ایک طویل فہرست ہے۔ بھارتی پارلیمنٹ میں گزشتہ ہفتے جو کچھ ہوا وہ الحاق کو نذرآتش کرنے کے مترادف ہے۔ کشمیر کے ڈوگرا ہندو مہاراجہ ہری سنگھ کے خلاف1945ء میں بغاوت پھوٹ پڑی۔ مسلم اکثریتی مغربی پہاڑی ضلع پونچھ میں مسلمان مہاراجہ کے خلاف اٹھ کھڑے ہوئے۔ جموں میں مسلمانوں کا قتل عام کیا گیا۔ مورخین رقم طراز ہیں کہ70ہزار سے دو لاکھ افراد تک کا قتل عام ہوا۔ جموں کے قتل عام پر مشتعل ہوئے پاکستانی بے قاعدہ دستے شمالی مغربی صوبہ سرحد میں پہاڑوں سے اتر کر جموں و کشمیر میں داخل ہو گئے۔ مہاراجہ ہری سنگھ نے کشمیر سے فرار ہو کر بھارتی وزیراعظم جواہر لال نہرو سے مدد کی درخواست کی جنہوں نے الحاق کی آئینی شق کا فائدہ اٹھاتے ہوئے بھارتی فوج کشمیر میں داخل کی۔ الحاق کی توثیق کے لئے ریفرنڈم ہونا تھا جو کبھی نہیں ہوا جس نے برصغیر کے ناقابل حل سنگین مسئلہ کو جنم دیا۔ انتخابی ہیر پھیر کی ایک طویل تاریخ کے بعد 1987ء میں نئی دہلی نے ریاستی انتخابات میں کھلی دھاندلی کی۔ 1989ء تک خوداختیاری کا مطالبہ بھرپور جدوجہد آزادی میں تبدیل ہو گیا۔ ہزاروں افراد سڑکوں پر نکل آئے۔ بے شمار لوگوں کا قتل عام ہوا پھر عسکریت پسندوں نے وادی کا رخ کر لیا۔ سرحد کے دونوں طرف کے علاوہ غیرملکی عسکریت پسند بھی گھس آئے۔ اس بغاوت کا پہلا نشانہ زمانہ قدیم سے قائم کشمیری مسلمانوں اور اقلیتی ہندو پنڈتوں کے درمیان تعلقات بنے۔ پنڈتوں کو اپنے گھر اور علاقے چھوڑنے پڑے۔ خود بھارتی ذرائع کا اعتراف ہے کہ مٹھی بھر دہشت گردوں پر قابو پانے کے لئے سرینگر میں6لاکھ فوجی تعینات کئے گئے ہیں۔ گزشتہ چند برسوں سے شاٹ گنوں سے پیلٹ فائرنگ کے ذریعے سیکڑوں بچوں کو بینائی سے محروم کر دیا گیا ہے۔ مقبوضہ کشمیر میں فعال عسکریت پسندوں میں اکثر مقامی طور پر ہی تربیت یافتہ ہیں۔ نریندر مودی کے پہلے دور وزارت عظمیٰ میں ان کی انتہاپسندی کے باعث مقبوضہ کشمیر میں تشدد نے زور پکڑا۔ گزشتہ فروری میں خودکش حملہ آوروں نے40بھارتی سیکورٹی اہلکاروں کو قتل کر دیا جواب میں پاکستان اور بھارت دونوں نے ایک دوسرے پر فضائی حملے کئے۔ اس طرح تاریخ میں پہلی بار دو ایٹمی قوتوں نے فضائی حملوں کا سہارا لیا۔ اب اپنے دوسرے دور وزارت عظمیٰ میں نریندر مودی نے بھارت میں انتہائی خطرناک کارڈ کھیلتے ہوئے بارود کے ڈھیر میں آگ لگا دی ہے۔ گزشتہ جولائی کے آخری ہفتے میں بھارت نے مزید45ہزار فوجی مقبوضہ وادی میں داخل کر دیئے۔ جواز یہ دیا گیا کہ امرناتھ یاترا کو پاکستانی دہشت گردی کا خطرہ ہے۔ اتوار کو نصف شب تک کشمیری اپنے گھروں میں محصور کر دیئے گئے۔ اگلی صبح معلوم ہوا کہ تین سابق وزراء اعلیٰ فاروق عبداللہ، ان کے بیٹے عمر عبداللہ اور محبوبہ مفتی کو گرفتار کیا جا چکا ہے۔ مقبوضہ کشمیر کے یہ رہنما بھارت نواز سمجھے جاتے ہیں۔ ایسی بھی اطلاعات ہیں کہ مقبوضہ کشمیر کی پولیس کو غیرمسلح کر دیا گیا ہے۔ لاک ڈائون کے چار دنوں بعد مودی ٹیلی ویژن پر ظاہر ہوئے، بناوٹی طور پر کشمیر کی خصوصی حیثیت کے خاتمے کا جشن منایا لیکن کوئی جارحانہ رویہ اختیار نہیں کیا اور ماں کی ’’کوملتا‘‘ کے انداز میں مخاطب ہوئے۔ انہوں نے اپنے فیصلوں سے کشمیریوں کو پہنچنے والے فوائد کی بات تو کی لیکن اس بات کی وضاحت نہیں کی کہ کشمیریوں کو لاک ڈائون کیوں کیا گیا۔ جو فیصلہ کشمیریوں کے مفاد میں تھا، اس پر پہلے انہیں اعتماد میں کیوں نہیں لیا گیا۔ انہوں نے مسلمانوں کو عید کی پیشگی مبارکباد تو دی لیکن لاک ڈائون اٹھانے کا کوئی وعدہ نہیں کیا۔ جمعرات15اگست کو بھارت کے یوم آزادی پر نریندر مودی نے لال قلعہ سے اعلان کیا کہ کشمیر پر اقدام سے بالاخر ایک قوم، ایک آئین کا خواب پورا ہو گیا لیکن اس روز کشمیر کے علاوہ خصوصی حیثیت کی حامل دیگر ریاستوں نے یوم آزادی کی تقاریب کا بائیکاٹ کیا۔ مختلف طبقہ ہائے فکر نے کھل کر احتجاج کیا۔ خطرات مختلف سمتوں سے ابھر رہے ہیں۔ نریندر مودی سمیت6لاکھ ارکان پر مشتمل آر ایس ایس نے مسولینی کی بلیک شرٹس فورس سے حوصلہ پا کر ہر ادارے پر گرفت مضبوط کر لی ہے اور ریاست کے اندر ریاست کی حیثیت اختیار کر لی ہے۔ اس کے علاوہ مختلف خدمات کے نام پر لاتعداد متشدد ہندو تنظیمیں بھی ابھر کر سامنے آ چکی ہیں۔ یکم اگست کو کالے قانون یو اے پی ایکٹ میں ترمیم کرتے ہوئے دہشت گردی کی تعریف میں تنظیموں کے ساتھ شخصیات کو بھی شامل کر لیا گیا جس کے تحت ایف آئی آر کے بغیر کسی بھی شخص کو دہشت گرد قرار دیا جا سکتا ہے۔

تازہ ترین