• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

برصغیر پاک و ہند کی تاریخی شخصیت علامہ عنایت اللہ خان المشرقیؒ نے ایک بار کہا تھا ’’صرف وہی انقلاب جو عوام کے متحدہ جسمانی زور سے میدان جنگ میں پیدا ہو، ہندوستانیوں کو صحیح معنوں میں آزادی دے سکے گا، ایسا انقلاب ہی حکومت کے اس نظام کو الٹ پلٹ سکتا ہے جو اس وقت رائج ہے اور جس نے چالیس کروڑ انسانوں کے دل اس وقت مکمل طور پر انگریز سے برگشتہ کر دیئے ہیں۔ صرف جمہوری طاقت سے پیدا ہوا انقلاب خود بخود برطانوی راج کے ہر خدوخال کو مٹا کر اس کی جگہ ہندوستانیوں کا بنایا ہوا ہندوستانی راج قائم کرنے کا راستہ صاف کر سکتا ہے۔ انگریز کا ان لوگوں کو پُرامن طور پر حکومت سپرد کر دینا بدترین قسم کے برٹش راج کو پھر لانے کے سوا کچھ بھی پیدا نہ کر سکے گا۔ ایسا راج برطانوی راج کی بدترین صورت سے بھی دس گنا زیادہ ظالمانہ، بدصورت، بھیانک، سرمایہ دارانہ اور زیادہ غیر ہندوستانی ہوگا۔ یہ حقیقت میں تمام سچائیوں کا اُلٹ ہوگا اور پچھلے سو سال میں انگریزوں نے جو بھلی یا بُری شے ہندوستان کو دی ہے، اس کی مسخ شدہ تصویر ہوگا۔ یہ فی الحقیقت ایک منظم فتنہ اور ایک مستقل ظلم اور ایک پائیدار ہڑبونگ ہوگی جس سے بڑھ کر ہڑبونگ نہیں ہو سکتی۔ یہ ایک ایٹم بم کی دائمی حکومت اور وحشت کی دائمی بادشاہت ہوگی۔ ہندوستان میں کسی ایک یا زیادہ سیاسی جماعتوں کو حکومت سپرد کر دینا اس سے زیادہ بدترین شہنشاہیت، زیادہ بدترین سرمایہ داری، زیادہ بدترین ہلاکو خان پیدا کر دے گا جو آج تک کسی زمانہ کی تاریخ نے پیدا کئے۔ ایسا راج دراصل برطانوی راج تو ہوگا مگر برطانوی راج فی الحقیقت برٹش راج کی خوبیوں سے عاری ہوگا۔ یہ راج فی الحقیقت برٹش راج کے بغیر برٹش راج کی علمبرداری میں ہوگا جو زمین پر دوزخ کا نمونہ پیش کرے گا‘‘۔

علامہ عنایت اللہ خان المشرقی کے یہ رشحاتِ فکر بھی میرے صحافتی توشہ خانے سے برآمد ہوئے۔ برآمدگی بھی عزیز از جان حسن نثار کے ایک کالم کی صورت میں ہوئی جس میں حسن نے اپنی تحریر کا آغاز علامہؒ کے اس تقریری اقتباس سے کیا ، پھر اُس کا اپنا اظہارِ خیال آپ سب جانتے ہیں، حسن کے قلم کی انتہائی فنکارانہ معنویت سے بھرپور چابکدستی، چنانچہ یہ ’’اظہارِ خیال‘‘ بذات خود ایک شاہکار ہے۔

حسن نے اس پہ لکھا ’’مندرجہ بالا تقریباً تین سو الفاظ کو ایک بار پھر پڑھئے، ایک بار پھر پڑھئے، تین بار پڑھ چکنے کے بعد ان تین سو الفاظ پر غور و فکر کیجئے، اس کے ایک ایک فقرے پر تفکر و تدبر کیجئے اور پھر پوچھئے یہ کس شخص کی تقریر کا اقتباس ہے؟ یہ تقریر 1945ء میں پٹنہ کے مقام پر کی گئی اور یہ تقریر کرنے والا اپنے عہد کا نابغہ روزگار ترین شخص تھا۔ وہ بہترین مسلمان تھا، اس کی ذہانت اور دیانت ہی نہیں، شجاعت بھی شک و شبہ سے بالاتر تھی اور اس کا نام تھا ’’عنایت اللہ المشرقیؒ، علامہ عنایت اللہ المشرقیؒ‘‘

علامہ مشرقی کی اس تقریر پر کسی تبصرے کی نہ کوئی ضرورت ہے نہ گنجائش، یہ تجزیہ اب حالات و واقعات کی جیتی جاگتی تصویر ہے جو تیرہ کروڑ عوام کے سامنے ہے بلکہ سچ یہ ہے کہ تیرہ کروڑ کی ہی تصویر ہے‘‘ (حسنؔ کی مراد پاکستان کے تیرہ کروڑ عوام سے ہے، اُس وقت وطن عزیز کی آبادی تھی جب اس نے یہ کالم تحریر کیا، یہ کونسا سن ہے، آپ خود ہی معلومات حاصل کرلیں، راقم)

حسن کی خیال آرائی سے میرے اندر بھی ایک ذہنی مہمیز نے جنم لیا ہے اور میرا ماننا کچھ یوں ہے، آپ ان تین سو الفاظ میں سے منتخب کردہ چند الفاظ بار بار پڑھیں۔ ’’ایسا راج، دس گناہ زیادہ ظالمانہ، بدصورت، بھیانک، سرمایہ دارانہ، یہ حقیقت میں تمام سچائیوں کا الٹ ہو گا، ایک منظم فتنہ، ایک مستقل ظلم اور ایک پائیدار ہڑبونگ ہو گی، یہ ایک آیٹم بم کی دائمی حکومت اور دہشت کی دائمی بادشاہت ہو گی‘‘۔

منتخب شدہ ان الفاظ کو بار بار پڑھنے کے بعد، ہر جملے کے شروع میں ’’پاکستان‘‘ کا لفظ لگاتے جائیں، یہ کام کرنے کے بعد ریاست پاکستان کے کلرک سے اعلیٰ ترین اہلکاروں تک، ریاست کی مسلح و غیر مسلح انتظامی فورسز، وطن عزیز کے سول و مارشل لا حکمرانوں کے ادوار کی تاریخ، یہ سارا اثاثہ اپنے ذہن میں لائیں، ظلم و ستم کے جو ناقابل تصور افق ابھریں ان میں جھانکیں، تب آپ علامہ کے بارے میں حسن نثار کے اس قول سے اعراض نہیں کر سکتے یعنی ’’یہ تجزیہ اب تجزیہ نہیں، حالات و واقعات کی جیتی جاگتی تصویر ہے جو تیرہ کروڑ عوام کے سامنے ہے بلکہ سچ تو یہ ہے کہ یہ تیرہ کروڑ ہی کی تصویر ہے‘‘۔

آپ دیکھیں علامہ کے الفاظ ’’یہ ایک ایٹم کی دائمی حکومت اور وحشت کی دائمی بادشاہت ہوگی‘‘، وہ کون سا ملک ہے جس کو اب آیٹم کے حوالے سے کسی قسم کا خدشہ باقی نہیں رہا، چنانچہ اس کی ریاستی فورسز اپنے عوام کو مجموعی طور پر ’’غلام‘‘ کے طور پر جس نچلی ترین سطح پر ایک بے خوف لاپروائی کے ساتھ Dealکرتی ہیں!

’’دس گناہ زیادہ ظالمانہ، بدصورت، بھیانک، سرمایہ دارانہ منظم فتنہ، ایک مستقل ظلم اور ایک پائیدار ہڑبونگ ہو گی‘‘ سوچیں، ہم جہاں کے باشندے ہیں، کیا یہ الفاظ اس ملک کے اہلکاروں کی اکثریت کا اوڑھنا بچھونا نہیں ہیں؟

چنانچہ عرفان صدیقی کی گرفتاری کی کیا اوقات ہے، ارے بھائی! 15؍اگست 1947 (ان دنوں میں یہ بار بار لکھ رہا ہوں) سے آج تک آپ کے پاکستان کے مختلف اداروں کے اہلکاروں کے مظالم کی داستاں مرتب کریں، بربریت تک کے الفاظ منہ چھپاتے پھریں گے، پس جسے اللہ بچا لے وہ ان سے محفوظ رہ سکتا ہے، وہاں یہ ناقابل قبول عنصر بے بس ہے۔

مجھے یہاں قتیل شفائی کی ایک نظم کا کچھ حصہ پیش کرناہے:

ڈرو اس وقت سے ؍اے شاعرو، اے نغمہ خوانو، اے صنم سازو؍ اچانک جب تمہاری سمت ؍کچھ صدیوں پرانے شیش محلوں سے ؍سنا سن تیر برسیں گے ؍بہت چلائو گے تم ؍اور پکارو گے بہت باذوق دنیا کو ؍مگر باذوق دنیا کا ہر ایک باشندہ ؍پہلے ہی سے گھائل ہو چکا ہو گا ؍جو باقی لوگ ہوں گے؍ وہ تمہارا ساتھ کب دیں گے۔

چھوڑیں، عمران حکومت کو یاد کرنے اور پریشان ہونے کی سطح پر واپس لوٹ جاتے ہیں، ہر شہری اس کی زد میں ہے۔

تازہ ترین