• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

جنرل اختر عبدالرحمٰن اور جدوجہد آزادی کشمیر

برسی پر خواجہ منصور ظفر کی
خصوصی تحریر
بھارت کی جانب سے کشمیر کی خصوصی حیثیت ختم کرکے اس کو ہندوستان کا حصہ بنانے کا فیصلہ مسئلہ کشمیر پر بھارت کی ہٹ دھرمی کی عکاسی تو کرتاہی ہے، مگر پاکستان کے لیے سوچنے کی بات یہ ہے کہ بھارت کو اس کی جرأت کیوں کر ہوئی۔ نوے کی دہائی کے آخر میںجب سوویت یونین کے خلاف جہاد افغانستان کامیابی کی منزل تک پہنچ چکا، تواس کامیابی کے اثرات تحریک آزادی کشمیر پر بھی مرتب ہوئے، بلکہ ایک وقت تو ایسا بھی آیا کہ بھارت کشمیری مجاہدین کے سامنے بے بس نظر آ رہا تھا۔ سوویت یونین کے خلاف افغانیوں کی جدوجہد آزادی کی کامیابی نے کشمیریوں کے دلوں میں بھی امیدوں کے چراغ آزادی روشن کر دیے۔ اس وقت کے آئی ایس آئی چیف جنرل اختر عبدالرحمٰن، جنہوں نے سوویت یونین کے خلاف افغان مجاہدین کی کامیابی میں کلیدی کردار ادا کیا تھا،کشمیر اور اہل کشمیر سے بھی ان کی وابستگی بہت پرانی تھی اور ان کی سوچ یہ تھی کہ اہل کشمیر بھی اہل افغان کی طرز پر جدوجہد کریں اور ہندوستان کو کشمیر سے نکال باہر کریں اور ان کی یہ سوچ قائد اعظم کے اس حکم سے بھی مطابقت رکھتی تھی ، جس میں انہوں نے اپنے آخری ایام میں فوج کے اس وقت کے انگریز کمانڈر جنرل گریسی کو کشمیریوں کی براہِ راست مدد کرنے اور ان کو بھارت کے پنجہ استبداد سے نجات دلانے کی ہدایت کی تھی۔
حقیقتاً فوجی زندگی میں کشمیر ان کی پہلی محبت تھا۔سیکنڈ لیفٹیننٹ کے عہدے پر ترقی پانے کے کچھ ہی عرصہ بعد کوہالہ کے پل پر ان کی ڈیوٹی لگائی گئی، جہاں انہیں سرحد پار ڈوگرہ فوج کی چوکی کی مانیٹرنگ کرنا تھی۔ یہ وہ زمانہ تھا جب کشمیر کو بھارت میں شامل کرنے کی کوششوں کے بعد وہاں جنگ آزادی کا آغاز ہو چکا تھا اور ایبٹ آباد اور مری کے راستے قبائلی لشکر رات کی تاریکی میں کشمیر پہنچ رہے تھے۔انگریز کمانڈر انچیف اور بریگیڈئر ہیڈکوارٹر کے انگریز افسر کی طرف سے احکامات یہ تھے کہ قبائلیوں کو کشمیر میں داخل نہ ہونے دیا جائے۔ نوجوان سیکنڈ لیفٹیننٹ اختر کی سو چ مگر یہ تھی کہ کشمیریوں کی جدوجہد آزادی کے اس نازک مرحلہ پر کشمیریوں کی مدد کرنا ضروری ہے۔ اس ضمن میں بانی پاکستان قائداعظم کی واضح ہدایات بھی مسلمان نوجوان افسروں کے علم میں آ چکی تھیں۔لہٰذا اپنے انگریز افسروں کے احکامات کے باوجود اختر عبدالرحمٰن کو کشمیریوں کی مدد کرنے سے کوئی نہیں روک سکتا تھا، چنانچہ انہوں نے اپنے زیرنگرانی علاقہ میں کشمیری مجاہدین کو ہر طرح سے سہولت فراہم کی۔ یہ ان کی دوسری کامیابی تھی۔قبل ازیں 1948ء میں کشمیر کے محاذ پر اختر عبدالرحمٰن کی پہلی کامیابی’’ پانڈو ایکشن ‘‘ تھا، جب ابھی وہ صرف لیفٹیننٹ تھے ۔ پانڈو ٹیکری کی اونچائی دس ہزار فٹ کے لگ بھگ تھی۔ دشمن کی نفری بہت زیادہ تھی۔اختر عبدالرحمٰن کمال مہارت سے ٹیکری کے عقب میں جا پہنچے اور اپنی قلیل نفری کے ساتھ دشمن پر حملہ کر دیا ۔ مسلسل چوبیس گھنٹے تک لڑائی ہوتی رہی ،بلکہ اس دوران یہ افواہ بھی پھیل گئی کہ اختر عبدالرحمٰن شہید ہو گئے ہیں۔ دودن بعد جب لڑائی ختم ہوئی تو پانڈو ٹیکری دشمن کی لاشوں سے اٹ چکی تھی۔ اختر عبدالرحمٰن فتح یاب ہو چکے تھے ۔ دس فٹ کی بلندی پر پاکستان کا پرچم لہرا رہا تھا ۔
شہادت سے تقریباً ایک مہینے پہلے جنرل اختر عبدالرحمٰن نے چیئرمین جوائنٹ چیفس آف کمیٹی کی حیثیت سے بلوچ سینٹر ایبٹ آباد کا دورہ کیا تو اس کشمیر مشن کی یادوں کو اس طرح تازہ کیا، ’’ پانڈو ٹیکری کو میں نے فتح کیا۔ یہ حملہ بالکل مختلف قسم کا تھا ۔ بلوچ ایف ڈی ایل بٹالین تھی۔ ایف ایف کے سپاہی بھی سامنے تھے۔ ہم نے پیچھے سے حملہ کیا۔ چوبیس گھنٹے لڑائی چلتی رہی۔ آج پانڈو کی ٹیکری ہمارے پاس ہے۔ کچھ عرصہ بعد 163بریگیڈ کا سکھ کمانڈر مجھے انگلینڈ میں ملا اور اس معرکے میں شامل تمام جوانوں کی جنگی مہارت اور جرأت کی تعریف کی۔میں بلوچ رجمنٹ کی کارکردگی کا چشم دید گواہ ہوں اور اس کو سلام پیش کرتا ہوں ۔ ‘‘ بریگیڈئیر سلیم اللہ نے بھی پانڈو آپریشن پر اپنی یادداشتوں میں لفیٹیننٹ اختر عبدالرحمٰن کی جرأـت اور جنگی مہارت کو خراج تحسین پیش کیا ہے۔
آزاد کشمیر میں 1973سے 1974 تک انفنٹری بریگیڈ اور 1974سے 1978تک انفنٹری ڈویژن کی کمان کا زمانہ بھی جنرل اختر عبدالرحمٰن کی فوجی زندگی میں بڑی اہمیت رکھتا ہے ۔ اس عرصہ میں انھوں نے آزاد کشمیر کے دفاع اور جنگ کی صورت میں مقبوضہ کشمیر کی طرف برق رفتاری سے پیش قدمی کے انتہائی اہم منصوبے بنائے ۔ اپنی زیرکمان علاقے کی ایک ایک انچ زمین کا پیدل جائزہ لیا، کوئی چوکی، کوئی گن پوسٹ کوئی مورچہ ایسا نہ تھا ، جہاں وہ خود نہ پہنچے ہوں ۔ ان کی زیرکمان پورا بریگیڈ دشمن کیلئے آہنی دیوار تھا اور مختصر ترین وقت میں دشمن کو سبق سکھانے کیلئے تیاررہتا تھا۔ اس دور کے ان کے ایک سینئر ساتھی ان دنوں کو یاد کرتے ہوئے کہتے ہیں کہ ایک شام میں اور بریگیڈئیر اختر عبدالرحمٰن اکٹھے ہی نکلے ۔ وہ مجھے اپنے ہمراہ ایک ایسی پہاڑی پر لے گئے ، جہاں سے مقبوضہ کشمیر کا ایک بڑا قصبہ صاف دکھائی دے رہا تھا۔ وہ وہاں کھڑے ہو گئے اور کافی دیر تک نظریں گاڑے اس قصبے کو دیکھتے رہے ۔ شام گہری ہو رہی تھی قصبے کی بتیاں ایک ایک کرکے روشن ہونے لگیں۔ اچانک اخترعبدالرحمٰن پر ایک خاص طرح کی کیفیت طاری ہو گئی ۔ اس کے دانت سختی سے بھینچ گئے اور اس نے جذبہ ایمانی سے سرشار ہو کر کہا ، بس ایک بار مجھے آرڈر مل جائیں، پھر دیکھو میں کیا کرتا ہوں۔ پھر وہ بے چینی کے عالم میں ادھر ادھر ٹہلنے لگے۔ میں نے ان کی آنکھوں میں جھانکا ، جن میں مقبوضہ کشمیر کے مظلوم مسلمانوں کے دکھ کا احساس نمی کی صورت میں تیر رہا تھا۔
قدرت نے جنرل اختر عبدالرحمٰن کی قسمت میں اپنے جنگی جو ہر دکھانے کیلئے جہاد افغانستان کا محاذ لکھ رکھا تھا، لیکن آج مغربی محققین بھی تسلیم کرتے ہیں کہ افغانستان میں سوویت یونین کی شکست کے نتیجہ میں ہی مقبوضہ کشمیر میں جنگ آزادی کو مہمیز ملی۔ ممتاز امریکی عسکری ماہر بروس رائیڈل اپنی یادداشتوں میںلکھتے ہیں: ’’جنیوا سمجھوتہ پر دستخط کرانے کی امریکہ کو جلدی اس لیے بھی تھی کہ امریکہ کو اندیشہ تھا، اگر افغانستان میں جنرل ضیاالحق اور جنرل اختر عبدالرحمٰن کی مرضی کی افغان حکومت قائم ہو گئی تو ان دونوں جرنیلوں کا اگلا محاذ مقبوضہ کشمیر ہو گا۔ ‘‘ ظاہراً اسی وجہ سے پہلے ایک سازش کے تحت اوجڑی کیمپ کو دھماکہ سے اڑایا گیا، تاکہ روس کو پسپائی میں کوئی مشکل نہ ہو اور اس کے بعد17 اگست 1988 کو جنرل ضیاالحق اور جنرل اختر عبدالرحمٰن کو شہید کرکے بھارت کا راستہ بھی صاف کر دیا گیا۔ لیکن افغانستان میں سوویت یونین کے خلاف ان کی پاکستان کی تاریخی کامیابی کے بطن سے جنم لینے والی مقبوضہ کشمیر کی تحریک آزادی آج مقبوضہ کشمیر میں ایک ایسی حقیقت بن چکی ہے ، جس سے اقوام متحدہ سمیت دنیا کا کوئی ملک بھی نگاہیں نہیں چرا سکتا اور اگر جنرل ضیاالحق اور جنرل اختر عبدالرحمٰن کو کچھ اور زندگی مل جاتی تو عین ممکن تھا کہ آج کشمیر کی جدوجہد آزادی بھی اپنی منزل مقصود تک پہنچ چکی ہوتی اور قائداعظم کا کشمیر کو پاکستان کا حصہ بنانے کا خواب پورا ہو چکا ہوتا۔
تازہ ترین