• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

گزشتہ ہفتہ پاکستان کی میڈیکل تاریخ پر بہت بھاری گزرا۔ پاکستان کے نامور فزیشن پروفیسر ڈاکٹر فیصل مسعود صرف 65برس کی عمر میں انتقال کر گئے۔ زندگی بھی کیا ہے، دوپہر آفس میں مختلف میٹنگز کیں، اگلے روز کی میٹنگز طے کیں۔ گھر آئے کھانا کھایا، اپنے کمرے میں جا کر ٹی وی دیکھنا شروع کیا اور پھر اسی دوران اس دنیا کو ہمیشہ کے لئے پُرسکون انداز میں خیر باد کہہ کر کسی اور شہر میں جا بسے۔ ڈاکٹر فیصل مسعود میڈیکل پروفیشن میں ایک بہت بڑا نام تھے کسی بھی بیماری کی تشخیص کرنے میں انہیں ملکہ حاصل تھا۔ کوئی 35برس قبل ہماری ان سے آشنائی ہوئی تھی۔

2006میں جبکہ ابھی ہمارے ملک میں لوگوں نے ڈینگی کا نام بھی نہیں سنا تھا تو ہم بیمار ہو گئے اور تھے بھی ہم اس وقت کوئٹہ میں۔ فون پر جب ہم نے اپنی بیماری کے بارے میں بتایا تو انہوں نے اسے فون پر بتا دیا کہ تمہیں ڈینگی فیور ہے۔ اس بیماری کا نام پاکستان کے لوگوں کے لئے 2011تک بالکل نیا تھا اور کسی کو پتا نہیں تھا کہ ڈینگی بخار کس بیماری کا نام ہے۔ یہ کیوں اور کس مچھر سے ہوتا ہے؟ جب ہم نے لاہور آکر کلینکل ٹیسٹ کرایا تو پتا چلا کہ واقعی ڈینگی ہے۔ 2011-12میں ڈینگی کا مرض شدت اختیار کر گیا تو ڈاکٹر فیصل مسعود نے اسے روکنے اور اس سے بچائو کے لئے جو اقدامات تجویز کئے ان سے شرح اموات میں کمی آئی، آج بھی صوبہ پنجاب میں کوئی فرد ڈینگی کا شکار نہیں ہوتا بلکہ جن دنوں ڈینگی بخار کا موسم ہوتا ہے تب بھی لوگ اس سے محفوظ رہتے ہیں۔ انہوں نے ڈینگی فیور اور چکن پاکس کی ایک زبردست گائیڈ لائن بنائی تھی۔ اس طرح جب 2011میں پی آئی سی میں دل کی ادویات کے ری ایکشن کی وجہ سے کوئی دو سو کے قریب مریض موت کے منہ میں چلے گئے تھے اس وقت کسی بھی ڈاکٹر کو سمجھ نہیں آ رہا تھا اس وقت کے پنجاب کے وزیراعلیٰ میاں محمد شہباز شریف بھی بڑے سخت پریشان تھے اور میڈیا میں بڑی گرما گرم خبریں آرہی تھیں جبکہ دوسری طرف مریضوں کے لواحقین بھی بہت شور مچا رہے تھے۔امراضِ دل کی ان ادویات کے استعمال سے مریض کا رنگ پہلے سیاہ ہوتا تھا پھر وہ کچھ عرصہ بعد مر جاتا تھا۔ ڈاکٹر فیصل مسعود کو جب ایک مریض دکھایا گیا تو انہوں نے کہا کہ یہ دل کی ادویات سے ری ایکشن نہیں ہو رہا بلکہ اس میں کسی اور دوائی کی آمیزش ہو رہی ہے چنانچہ شہباز شریف کے حکم پر فوری طور پر یہ دوا برطانیہ ٹیسٹ کے لئے بھجوائی گئی، پتا چلا کہ اس دوائی میں ملیریا کی دوائی کی بھی آمیزش ہے چنانچہ مزید انکوائری کی گئی تو پتا چلا کہ جس جگہ دل کی یہ دوائی تیار ہو رہی تھی فیکٹری میں اس جگہ کے قریب ملیریا کی دوائی بھی تیار ہو رہی تھی اور اس کے ذرات اڑ اڑ کر اس دوائی میں شامل ہو رہے تھے اس وجہ سے اس دوائی نے ری ایکشن کیا۔

عجب آزاد منش انسان تھا۔ یو کے گئے وہاں جاکر شیف کی تربیت حاصل کی اور سرٹیفکیٹ بھی حاصل کیا، یہی وجہ تھی کہ جب کنگ ایڈورڈ میڈیکل کالج (اب یونیورسٹی) کے وہ ریگولر وائس چانسلر مقرر ہوئے تو آئی آر بی کی میٹنگوں میں خود اپنی چوائس سے بہترین مغربی انداز کے اسنیکس بنانا اور دوستوں کو کھلا کر اس قدر خوش ہونا کہ بیان سے باہر، جس زمانے میں پاکستان میں 55ہزار روپے کی نئی گاڑی آتی تھی، وہ جا کر اس قیمت میں باہر سے کمپیوٹر لے آئے تھے۔ وہ پاکستان میں ان دو تین ڈاکٹروں میں سے تھے جن کی کلینک میں آج تک کسی میڈیکل کمپنی کے نمائندہ کو جانے کی جرأت نہیں تھی۔ انہوں نے آج تک کسی فارما کمپنی کی دعوت پر کبھی بھی کہیں کی سیر نہ کی تھی نہ کسی فارما کمپنی کو انہوں نے قریب آنے دیا۔ جب انہوں نے کے ای ایم یو کے وائس چانسلر کی حیثیت سے چارج سنبھالا تو عمارت کی حالت بہت خراب تھی، انہوں نے یونیورسٹی کی عمارت کو اس کے اصل رنگ و روپ میں بحال کرنے کا کام شروع کیا۔ مزدوروں اور ٹھیکیدار کو ہدایات دیتے لگتا تھا جیسے وہ کوئی آرکیٹیکٹ ہوں یا پھر کوئی انجینئر۔

فارسی کے کئی اشعار ان کو یاد تھے ہمیں یاد ہے کہ آئی آر بی کی میٹنگ کے اختتام پر وہ پروفیسر ڈاکٹر ثاقب سعید، پروفیسر ڈاکٹر خدیجہ عرفان، ایسوسی ایٹ پروفیسر سومرو مسعود اور ہمیں فارسی کی غزلیں ملٹی میڈیا پر سنواتے اور پھر ایک ایک لفظ کا اردو میں ترجمہ کر کے بتاتے اور پھر کبھی کبھی درمیان میں پوچھ لیتے بتائو اس لفظ کا مطلب کیا ہے؟

کنگ ایڈورڈ میڈیکل یونیورسٹی میں وائس چانسلر مقرر ہونے سے قبل وہ سروسز انسٹیٹیوٹ میڈیکل سائنسز (سروسز اسپتال) کے سربراہ تھے، پبلک میڈیکل کالج قائم کیا اور لاہور کا پہلا عوامی ذیابیطس سینٹر قائم کیا اور اس کو بنانے کے لئے انہوں نے خود بھی بہت رقم دی بلکہ اس کے اخراجات ان کے اہلخانہ برداشت کرتے ہیں اس سینٹر سے شوگر کے مریضوں کو مفت ادویات، خصوصاً انسولین ملتی، وہ میڈیکل پروفیشن کا ایک روشن ستارہ تھے جو صدیوں میں پیدا ہوتے ہیں۔

ڈاکٹر فیصل مسعود ابھی تو آپ کو بہت کام کرنے تھے پھر جانے کی اتنی جلد کیوں تھی؟ ابھی کچھ روز اور جی لیتے کئی ادھورے کام مکمل کر لیتے۔ آج وہ مریض جن کے لئے وہ ایک عظیم مسیحا تھے وہ محروم ہو گئے وہ ہزاروں شاگرد آج یتیم ہو گئے جن کو انہوں نے پڑھایا وہ علم کا دریا نہیں بلکہ ایک بے کراں سمندر تھے وہ اپنا علم بانٹ کر خوش ہوتے تھے۔ اللہ تعالیٰ انہیں کروٹ کروٹ جنت نصیب فرمائے۔ (آمین )

بقول منیر نیازی

وہ جو اپنا یار تھا دیر کا

کسی اور شہر میں جا بسا

یہی آنا جانا ہے زندگی

کہیں دوستی کہیں اجنبی

وہ جو اس جہاں سے گزر گئے

کسی اور شہر میں زندہ ہیں

کوئی ایسا شہر ضرور ہے

انہی دوستوں سے بھرا ہوا

حکومت کو سمز کا نام فیصل مسعود انسٹیٹیوٹ آف میڈیکل سائنسز کر دینا چاہئے۔

تازہ ترین