• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

بُلھے شاہ کی لفظالی میں نقطہ وہی اہمیت رکھتا ہے جو جسم میں روح کی ہے۔ گویا بات معنی سے بھی آگے کی ہے۔ نقطے کی بات کر کے وہ سفر کو مختصر اور آسان کر دیتا ہے۔ بُلھے شاہ کی تمام شاعری کا مرکزی خیال نقطے کے گرد رقص کرتا ہے۔ کبھی نقطہ آغاز ہے اور کبھی انجام اور کبھی وہ پوری کائنات پر محیط ہو جاتا ہے کہ جس میں کئی جہان آباد ہیں۔ جس طرح دور سے دیکھنے پر زمین اور دیگر سیارے چھوٹے چھوٹے ٹکڑے نظر آتے ہیں مگر وہاں جائیں تو اندر کئی جزیرے، دریا، سمندر، پہاڑ اور طرح طرح کی مخلوق دکھائی دیتی ہے۔ بُلھے شاہ کا نقطہ بھی زمین کی مانند ہے۔ وہ تنوع کو تسلیم کرتا ہے مگر انسانوں میں فرق اور استحصال قبول نہیں۔ جب خالق ایک ہے تو تخلیق میں اعلیٰ ادنی، اُونچ نیچ، ذات پات کا کیا تذکرہ۔ نقطہ وحدت کا استعارہ ہے۔ اگرچہ یہ ایک ایسی اکائی ہے جسے مزید تقسیم نہیں کیا جا سکتا مگر کائنات کے نقطے کے اندر مختلف رنگوں، عقیدوں، نسلوں اور قوموں کے انسان بستے ہیں۔ ان میں کچھ افتخار، کچھ غرور اور کچھ اپنی ذات کے سحر میں کھوئے دنیا کو ہاتھ کی انگلی پر نچانے کے دعویٰ دار بھی ہیں اور کبھی ہر شے اور معاملے سے بے خبر سانس لے رہے ہیں۔ جس طرح خود بخود درخت اُگتے ہیں اور کسی دن آندھی یا آگ کا رزق بن جاتے ہیں۔ یہ بھی جنم سے قبر تک کا سفر طے کرتے ہیں۔ بُلھا انسان کی اِس بے خبری سے نالاں ہے۔ اِس لئے وہ اُس کے شعور کے دروازے پر دستک دے کر اُسے جنجھوڑتا ہے تاکہ وہ اپنے فرائض سرانجام دے اور تنوع میں مشترک کو تلاش کرے۔ استحصال کرنے والے اور استعمال ہونے والے بھی کائنات کے اسی نقطے میں متحرک ہیں۔ نقطہ ٹھہرا ہوا ہے جامد ہے مگر اس کے اندر آباد دنیا میں ہل چل ہے۔ کم از کم جسمانی حرکت تو ہر جگہ لازم ہے مگر سوال یہ ہے کہ اس عظیم کائنات میں کتنے فیصد لوگ ہیں جو یار سے جڑے ہوتے ہیں۔ بُلھے شاہ نے جس ”یار“ کا ذکر کیا ہے وہ وسیع تر معنوں میں مُرشد سے لیکر حقیقت مطلق تک پھیلا ہوا ہے۔ یار کے سامنے سرنڈر کرنے سے سفر آغاز ہوتا ہے۔ محبت کا پہلا سبق نقطے سے شروع ہوتا ہے اور نفی کے مراحل سے گزرتے ہوئے نقطے پر ہی ختم ہوتا ہے۔ نقطہ توجہ کا ارتکاز بھی ہے، وحدت کی علامت بھی اور اک مِک ہو جانے والی ایسی کیفیت بھی جس میں دوئی کی گنجائش نہیں۔ بُلھے شاہ کا یار جس نکتے پر سوچ کو اُستوار کرتا ہے وہ وصل کا مقام ہے۔ جہاں ہر قسم کے اختلافات اور تعصبات مٹ جاتے ہیں۔ دل کا شیشہ اور سوچ کی حد اِس قدر شفاف ہو جاتی ہے کہ آلودگی لطافت میں ڈھل جاتی ہے۔

نقطے پر توجہ مرکوز کرنا اور اس کی حدود کو سمجھنا اشد ضروری ہے۔ اس کی موجودگی اور عدم موجودگی کیا معنی رکھتی ہے بلکہ معنی پر کس درجہ اثر انداز ہوتی ہے یہ جاننا بھی اہم ہے۔ بُلھے شاہ کے مطابق ع اور غ کی طرح انسانی صورتیں بھی ایک سی ہیں۔ نقطے کا فرق انھیں ممتاز کرتا ہے۔ جس کی فکر نقطے کا احاطہ کرے گی، اُس کے اندر شور برپا ہوگا۔ جس طرح دریا میں لہروں کا شور ہوتا ہے اور جس میں یہ نہیں ہوگا اس کی حیثیت مُردے کی سی ہوتی ہے۔ کائنات میں ایک کا حسن جلوہ گر ہے جس کے لشکارے مختلف صورتوں اور رنگوں میں جھلک رہے ہیں۔ جو اشیاء اور صورتوں میں اس کو ڈھونڈھ لے وہ وحدت میں ڈھل جاتا ہے۔ یہ جھلک دیکھنے والوں کو آپس میں جوڑتی جاتی ہے۔ جس آنکھ کو اُس کا جلوہ دکھائی دے جائے اُس کے لئے، ذات پات، طبقات اور تقسیم معدوم ہو جاتے ہیں۔ہمارا آج کا مسئلہ یہ ہے کہ آج کا اِنسان بہت تنہا ہے۔ باہر سے بھلے ایک ہجوم اس کے ارد گرد ہو مگر ڈگر سے ہٹ جانے کے باعث وہ اکیلا بھی ہے، خوف زدہ بھی ہے اور دُکھی بھی۔ اُس نے اپنے اندر اُس نقطے کو متحرک ہی نہیں کیا جو سمت درست رکھتا ہے۔ وہ بہت مصروف ہے۔ اُس کے پاس نہ اپنے لئے وقت ہے نہ یار کے لئے۔ اِس لئے اُس کی زندگی بے کیف اور بے مقصد ہے۔

برصغیر کے عظیم صوفی شاعر بابا بُلھے شاہ کے عرس مبارک کی تقریبات شروع ہو چکی ہیں۔ بُلھے شاہ کا دربار آفاقی فکر کا علمدار ہے۔ اس لئے عرس کے موقع پر یہاں ہر مذہب کو ماننے والے اور مذہب سے بے گانے سب موجود ہوتے ہیں۔ بلھے شاہ سب کا ہے کیوں کہ وہ سب کی بات کرتا ہے۔ اس کی ذات میں کائنات رچی ہوئی ہے۔ اُس کے دِل کا آنگن اتنا وسیع ہے کہ اس میں بھانت بھانت کے لوگ خیمہ ڈالے سستا رہے ہیں۔ یہاں سے انہیں روحانی روشنی کے علاوہ ان تمام سوالات کے جوابات بھی مِلتے ہیں جو ازل سے انسان کے ذہن میں کُلبلاتے چلے آ رہے ہیں۔ خود بُلھے شاہ نے ایک عرصہ ”کی جاناں میں کون“ الاپتے ہوئے الجھنوں کے گرم کوئلوں پر ننگے پائوں سفر کیا، عشق کی تال پر بے سُد ہو کر برسوں دھمال ڈالی تب حقیقت کھلی۔ پائوں لہو لہان ہو گئے مگر منظر واضح ہوگیا۔ دھمال بھی نقطے تک رسائی کا عمل ہے۔ الف بھی بُلھے کا محبوب استعارہ ہے۔ جسے ایک کے معنی میں بھی سمجھا جاتا ہے۔ اِک رانجھے کی تلاش میں نکلنے والے ثالق کو اِک الف پڑھنے میں ہی سب نجات مضمر ہے۔ الف وہ کنجی ہے جو تمام خزانوں تک رسائی ممکن بناتی ہے۔ اگر یہ کُنجی ہمراہ نہ ہو تو عمر بھر ٹھوکریں کھاتے گزر جاتی ہے مگر صندوق کے اندر کیا معلوم نہیں ہو پاتا۔ الف باطن کی طرف سفر کا اشارہ بھی ہے اور بُلھے کے نزدیک اصل رہنمائی اور علم ظاہر کی بجائے باطنی رہنمائی سے ممکن ہے۔ تاہم ”اِک نقطہ یار پڑھایا ہے“ سے سفر آغاز کرنے والا بُلھا حقیقت کی منزلیں طے کرتے ہوئے معرفت کے اُس مقام تک پہنچ جاتا ہے جہاں اُسے ”اِک نقطے وچ گل مُکدی اے“ کا نتیجہ نظر آ جاتا ہے۔ یہاں وہ کسے حوالے کی بات نہیں کرتا نہ یار کے سبق کا تذکرہ چھیڑتا ہے بلکہ اپنے باطنی سفر کا احوال بیان کرتے ہوئے نتیجہ اخذ کرتا ہے۔ یار نے اُسے جس راہ پر ڈالا تھا اُس کا انجام بھی نقطہ ہی ہے۔ وہ اپنے تجربے کے بنیاد پر دوسروں کو یہ کہتا ہے کہ ظاہریت پرستوں کے بچھائے جالوں میں اُلجھ کر پریشان اور منتشر ہونے کے بجائے نقطے کا دامن تھام لو پھر منزل آسان ہوجائے گی۔

پَھڑ نقطہ چھوڑ حساباں نوں

کر دُور کُفر دیاں باباں نوں

لاہ دوزخ گور عذاباں نوں

کر صاف دِلے دیاں خواباں نوں

گَل ایسے گھر وِچ ڈُھکدی اے

اِک نُقطے وچ گل مُکدی اے

تازہ ترین