• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

’’ بڑی اُداس ہے وادی…گلا دبایا ہوا ہے کسی نے انگلی سے…یہ سانس لیتی رہے، پر یہ سانس لے نہ سکے…درخت اُگتے ہیں ،کچھ سوچ سوچ کر جیسے…جو سَر اُٹھائے گا، پہلے وہی قلم ہوگا…جُھکا کے گردنیں آتے ہیں اَبر…نادم ہیں کہ دھوئے جاتے نہیں…خون کے نشاں اُن سے…ہری ہری ہے، مگر گھاس اب ہری بھی نہیں…جہاں پہ گولیاں برسیں، زمیں بھری بھی نہیں…وہ مائیگریٹری پنچھی، جو آیا کرتے تھے…وہ سارے زخمی ہواؤں سے ڈر کے لَوٹ گئے…بڑی اُداس ہے وادی، یہ وادیٔ کشمیر‘‘،گلزار کے شعری مجموعے میں شامل نظم’’ رات پشمینے کی‘‘ پڑھتے پڑھتے ماضی میں کھو گئی۔ یہ 4 ستمبر 2004ء کی بات ہے۔ نائن الیون واقعے کے بعد یورپ میں مسلمانوں کے خلاف تعصب کی لہریں بڑھنے لگی تھیں۔’’ اسلامو فوبیا‘‘ کے مہیب سیاہ بادل چھانے لگے، تو لندن کے مئیر، لونگ اسٹون نے علمائے اسلام کی ایک عظیم الشّان کانفرنس منعقد کی، جس کے آخر میں مہمانِ خصوصی، نام وَر عالمِ دین، علّامہ یوسف القرضاوی نے ہر سال 4ستمبر کو ’’عالمی یومِ حجاب ‘‘ منانے کا اعلان کیا۔ جماعتِ اسلامی پاکستان کے حلقۂ خواتین نے اس اعلان کا خیر مقدم کیا اور ہر برس’’ عالمی یوم حجاب‘‘بھرپور طریقے سے منانا شروع کردیا۔ اِس ضمن میں ایک اہم بات یہ بھی ہے کہ روزنامہ’’ جنگ‘‘ نے آغاز ہی سے’’ عالمی یومِ حجاب‘‘ کے موقعے پر خصوصی ایڈیشن کی اشاعت لازم کردی۔ پھر ’’جنگ‘‘ کی دیکھا دیکھی، دیگر اخبارات اور ٹی وی چینلز نے بھی اِس کی کوریج کا اہتمام کیا۔

2019ء کا ستمبر، ستم گر بن کر طلوع ہوا ہے۔ کشمیر میں خواب بُنتی بیٹیاں تاریخ کے انتہائی بھیانک ظلم و جبر کا شکار ہیں۔ اُن کے حجاب نوچے اور جسموں کو ادھیڑا جا رہا ہے۔ تاریخِ انسانی میں بھارتی فوج جیسی بے حمیّت فوج شاید ہی کہیں دیکھی گئی ہو کہ جو عورت کی بے حُرمتی کو فوجی ہتھیار کے طور پر استعمال کر رہی ہے۔ استنبول میں مسجدِ اقصیٰ کی چوکیدار خواتین سے، جو بہت فخر سے خود کو’’ مرابطات‘‘ کہتی ہیں، مِلی، تو اُن سے پوچھا’’ تمھیں اسرائیلی فوج گرفتار کر تی رہتی ہے، تو کیا اہل کار کبھی کسی عورت کی بے حُرمتی کے بھی مرتکب ہوتے ہیں؟‘‘ جواب حیران کُن طور پر نفی میں تھا۔ اُن کا کہنا تھا’’ فوجی قانون کے پابند ہیں اور اگر کوئی اہل کار اس طرح کی حرکت کرے، تو اُسے قانون کا سامنا کرنا پڑتا ہے۔ وہ مار پیٹ کرتے ہیں، مگر انسانی شرف کا خیال رکھتے ہیں اور ویسے بھی عرب، عورت پر ہاتھ اُٹھانے کو بہت معیوب سمجھتے ہیں۔‘‘ مگر مقبوضہ کشمیر سے آئے دن ایسی تصاویر سوشل میڈیا پر آ رہی ہیں کہ جنھیں دیکھ کر انسانیت کا سَر شرم سے جُھک جاتا ہے۔ اب تو ہریانہ کا مگرمچھ وزیرِ اعلیٰ بڑی بے شرمی اور ڈھٹائی سے کہتا پِھر رہا ہے کہ’’ کشمیری گوری عورتوں کو بیاہ کر لائیں گے۔‘‘ اُس بد صورت بھیڑیے کے لیے کسی نے بہت اچھا لکھا کہ’’ اُس کو تو سانپ اپنی سپنی بھی نہ دے، کُجا کہ یہ کشمیری لڑکیوں کے خواب دیکھتا ہے۔‘‘ کیا پورے بھارت میں انسانیت نام کی شئے ناپید ہوچُکی ہے؟ کیا وہاں کوئی سلیم العقل انسان نہیں، جو اس طرح کے افراد کی لگامیں کھینچ سکے؟ بارِ الٰہ! کتنے پہر رہ گئی ہے رات…؟؟ شام و فلسطین میں گھروں کے ملبے پر بیٹھی باحجاب، لُٹی پٹی عورتیں ہوں یا اب کشمیر کی چیختی چِلّاتی بیٹیاں۔ ہم کس سے فریاد کریں اور کس کے ہاتھوں پر اپنا لہو تلاش کریں…؟؟

علّامہ محمّد اقبال نے عورت سے کہا تھا کہ’’ تم اپنے آپ پر بہت فخر کرو کہ اللہ نے تمھیں اپنی صفتِ تخلیق عطا کی ہے‘‘ اور ہر خالق کو اپنی مخلوق کی حفاظت کے لیے حجابوں میں رہنا ہوتا ہے۔ عورت، خالق کی طرح حجاب میں ہو اور رازو نیاز میں زندگی بسر کرے، تو اُس کے صدف کا موتی پرورش پاتا ہے اور وہ جتنی چُھپی اور اَسرار کے پردوں میں رہے، اُتنی ہی باوقار اور معتبر بن جاتی ہے۔ معاشرے میں حیا، عفّت و عِصمت کا چلن عام ہو جائے، تو عورت محفوظ رہتی ہے۔ یہ ایک حقیقت ہے کہ عورت کو عزّت، محبّت اور حفاظت کے حصار میّسر آ جائیں، تو وہ ناممکن کام کو بھی ممکن کر سکتی ہے۔ بلاشبہ، قومیں تبھی ترقّی کی منازل طے کرتی ہیں، جب اُس کی عورت کو تحفّظ ملے۔ حفاظت کا جاں فزا احساس عورت کے اندر قوّت بھر دیتا ہے، جو اسے ترقّی کی شاہ راہ پر گام زن رکھتی ہے۔ ’’عالمی یومِ حجاب‘‘ ہمیں اِس عزم پر آمادہ کرتا ہے کہ عورت کا ہر رُوپ عزّت، محبّت اور حفاظت کے حصار چاہتا ہے۔ اُسے ہر گھر میں عزّت ملے، وہ محفوظ ہو اور اُسے محبّت کے حصار میّسر ہوں، تو وہ بہت اطمینان سے اپنی صلاحیتوں کے جوہر استعمال کر سکے گی۔ جنگ سب ہی کے لیے بربادی کا پیغام بن کر آتی ہے، مگر اس سے سب سے زیادہ خواتین متاثر ہوتی ہیں کہ وہ وحشت زدہ ہوکر اپنی تخلیقی قوّتوں کو بروئے کار لا پاتی ہیں اور نہ ہی اپنی نسلوں کی تربیت کا فریضہ سرانجام دینے کے قابل رہتی ہیں۔21 ویں صدی کے یہ لمحے انسانوں کو پکار رہے ہیں کہ آنے والی نسلوں کی تربیت اور حفاظت کے لیے اپنی عورتوں کے سَروں پر چادریں رہنے دو۔ اُن کی آنکھوں میں خواب سجنے دو، اُنھیں اپنی تخلیق کی حفاظت پر مامور رہنے کے لیے عزّت و اکرام اور پُرامن ماحول سے بھی نوازو۔ بہ قول اقبال’’ اگر پندے زدرویشے پذیری…ہزار امّت بمیری تو نہ میری…بتولےؓ باش و پنہاں شو ازیں عصر…کہ درِ آغوش شبیرےؓ بگیری!‘‘اقبال ہمیں نصیحت کرتے ہوئے کہتے ہیں کہ اگر اس درویش کی نصیحت کو پذیرائی بخشو، تو ہزار اقوام نیست و نابود ہو جائیں، مگر تمھیں زوال نہ آئے۔ حضرت فاطمہؓ کی سچّی پیروکار بن جاؤ اور زمانے کے فتنوں سے چُھپ جاؤ کہ تمہاری گود میں پھر سے ایک حُسینؓ پیدا ہو جائے۔

تازہ ترین