تحریر: حافظ عبدالاعلی درانی۔۔بریڈ فورڈ ختم نبوت کا اعتقاد اسلام کی عزت و حرمت اور خاتم الانبیاؑ کی شان و رفعت سے تعلق رکھتا ہے۔ اس پر سب سے پہلا اجماع دور نبوت ہی میں ہوگیا تھا کہ کفر وارتداد کی یہ قسم اسلام کے مزاج کے ہی خلاف ہے اس لیے اسے فورا کچل دیا جائے۔ اس اجماع پر سب سے پہلا عمل دور صدیقی میں مسیلمہ کذاب کے خلاف جنگ یمامہ میں ہوا۔ جب سینکڑوں صحابہ کرام اس معرکے میں کام آئے۔ نبی اقدس نے پیش گوئی فرمائی تھی کہ میرے بعد تیس کذاب اور دجال پیدا ہوں گے جو اپنے آپ کو نبی سمجھتے ہوں گے لیکن میں خاتم النبیین ہوں میرے بعد کوئی نبی نہیں آئے گا۔ یمامہ میں تو مسیلمہ کذاب پیدا ہوا تھا لیکن سرزمین ہند میں مسیلمہ پنجاب پیدا ہوا جس کا مقصد و ہدف اہل ایمان کے فطری جذبہ جہاد کو بے وقعت کرنا بلکہ مسلمانوں کے دلوں سے اس کی اہمیت نکالنا تھا۔ جب یہ مسموم تحریک ہندوستان میں بال وپر پیدا کر رہی تھی تو سب سے پہلے اس کی نحوست کو محسوس کرنے والوں میں شیخ الاسلام مجدد ملت علامہ محمد حسین بٹالوی تھے انہوں نے اپنے استاذ حضرت السید نذیر حسین محدث دہلوی نور اللہ مرقدہ کی رہنمائی میں کفر کا فتویٰ تیار کیا اور پہلے دہلی اور اس کے نواح کے علما کو جھوٹے نبی کے کفر پر متفق کیا پھر انہوں نے سفر کی طنابیں کھینچیں اور ہندوستان کے کونے کونے میں علما و مفتیان مشائخ پیران و سجادہ نشینوں کے پاس پہنچے اور ان سے اس فتوے پر اتفاق حاصل کیا۔ حیرت کی بات ہے کہ 1891 میں وہ چاچڑاں میں بابا غلام فرید صاحب سے بھی ملے ۔ اس طرح انہوں نے بلا تفریق مسلک سبھی اسلام و شریعت کے ساتھ ہمدردی رکھنے والوں کو اس کے اثرات بد سے آگاہ کیا ۔ پھراس میں دیگر مکاتب فکر کے علما بھی شامل ہوتے گئے اور ہر مکتب فکر کے علماء کرام نے مسئلہ ختم نبوت پر کارہائے نمایاں سرانجام دیے ہیں۔ مگر ’’فاتح قادیان‘‘ کا لقب جس رجلِ عظیم کے حصے میں آیا، ان کو شیخ الاسلام مولانا ابو الوفاء ثناء اللہ امرتسری رحمہ اللہ کے نام نامی سے یاد کیا جاتا ہے۔ مولانا ثناء اللہ امرتسری (رحمہ اللہ) ایک نابغہ روزگار ہستی تھے۔ آپ بیک وقت مفسرِ قرآن، محدث و مؤرخ، صحافی و ادیب، خطیب و مصنف تھے، مگر آپ کی شہرت ’’مناظرِ اسلام‘‘ کے طور پر ہوئی۔ انہوں نے اسلام کے دفاع میں آریہ، عیسائی، سناتن دھرمی، سکھ مت وغیرہ تمام ادیان کے بڑوں سے کامیاب مناظرے کئے۔ ہند کے سب سے بڑے مذہبی اخبار نے انہیں اس طرح خراج تحسین پیش کیا کہ ہند کے کسی بھی علاقے میں رات کے سمے کوئی بھی فتنہ جنم لے تو صبح کے وقت اس کا جواب دینے والا کوئی اور ہو نہ ہو لیکن پورے ہندوستان میں ایک ہی شخص ہوگا جس کا نام ثنا اللہ امرتسری ہے۔ جھوٹی نبوت کے خلاف جو عظیم الشان کردارانہوں نے ادا کیا وہ ایک مثال اور تاریخ کی حیثیت رکھتا ہے۔ شیخ الاسلام مولانا ثناء اللہ امرتسری رحمہ اللہ نےجھوٹے نبی کی تحاریر و تقاریر کا عقلی و نقلی دلائل سے خوب رد کیا اور کئی کتابیں اس کے ’’دعویٰ باطل‘‘ کے خلاف لکھیں۔ اس نے مولانا ثناء اللہ رحمہ اللہ سے زچ ہو کر ’’مولوی ثناء اللہ کے ساتھ آخری فیصلہ‘‘ کے عنوان سے ایک اشتہار شائع کیا جس میں مولانا کو مخا طب کرتے ہوئے لکھا کہ آپ اپنے پرچے ’’اہل حدیث‘‘ میں میری تکذیب و تفسیق کرتے ہیں اور میری نسبت مشہور کرتے ہیں کہ میں مفتری اور کذاب ہوں وغیرہ، تو میں دعا کرتا ہوں کہ ’’جو جھوٹا ہے، وہ سچے کی زندگی میں طاعون یا ہیضہ وغیرہ بیماریوں کے ہاتھوں مر جائے۔‘‘ (اشتہار میں اس دعا کے الفاظ کو بدل بدل کر دہرایا گیا ہے)۔اس کا ’’دعوت مباہلہ‘‘ والا اشتہار اس وقت کے کئی رسائل و جرائد کے علاوہ الگ سے بھی شائع و عام ہوا، پھر قدرت نے دکھایا کہ اس اشتہار کی اشاعت کے تھوڑے عرصہ بعد،اس کو لاہور میں اپنے میزبان کے گھر ہیضہ و اسہال کے شدید مرض کی وجہ سے موت کی وادی میں اترنا پڑا۔ جب کہ مولانا ثناء اللہ امرتسری رحمہ اللہ اس کے چالیس سال بعد 15 مارچ 1948ء کو سرگودھا میں طبعی حالات میں اللہ کو پیارے ہو ئے۔اللھم اغفرلہ وارحمہ وادخلہ الجنت الفردوس ۔ مولانا ثناء اللہ امرتسری رحمہ اللہ برصغیر کی بڑی قد آور شخصیت تھے۔ بذلہ سنج ۔ وسیع الظرف ، ادب و احترام سے مخالفین سے معاملہ کرنے والے سخی دل عالم دین تھے ۔ اتحاد امت میں آپ کا کردار بڑا ہی نمایاں ہے ۔ آپ نے اپنے مخالفوں کو بھی پوری عزت دی اور مسلمانوں کے تمام مکاتب فکر کے علما کا احترام کیا ۔ پیر مہر علی شاہ گولڑا والوں نے مولانا ثنا اللہ کی تشریف آوری پر اپنی مسند طریقت خالی کردی اور مولانا کو اس پر یہ کہتے ہوئے تشریف رکھنے کی دعوت دی کہ عزت و وقار کے لحاظ سے اس مسند کا مستحق ثنا اللہ کے علاوہ کوئی نہیں ہوسکتا ۔ مسلم مسجد لوہاری کے خطیب سید حبیب اپنے رسالے میں مولانا پر بڑے فتوے جڑا کرتے تھے ۔ بیمار پڑے تو مولانا ثنا اللہ امرتسر سے لاہور ان کے گھر پہنچے تیمار داری کی اور بوقت رخصت ایک بڑی رقم چپکے سے ان کے تکیے کے نیچے رکھ دی ۔ ایک شخص نے اشتعال میں آکر مولانا کے سر پر ٹوکہ مار دیا ۔ اللہ کریم نے مولانا کو بچا لیا جب مجرم کو چار سال جیل کی سزا ہوئی تو پورا عرصہ ان کے گھر چپکے سے راشن بھجواتے رہے ۔ اور کسی کو پتہ بھی نہیں چلا ۔ اس آدمی نے رہا ہونے کے بعد حیرت ظاہر کی کہ میرے گھر کا خرچہ کون بھجواتا رہا ۔ اس انکشاف پر وہ ہمیشہ کیلئے آپ کا دلی معتقد بن گیا۔مولانا ثنا اللہ امرتسری مسلم لیگ اور تحریک پاکستان کے زبردست حامی تھے۔ 1947ء میں امرتسر ان کے گھر پر سکھوں نے حملے کئے، ان کا جوان بیٹا شہید ہوگیا۔ وہ گھر بار سب کچھ امرتسر چھوڑ کر اکیلے لاہور آگئے، پھر یہاں سے سرگودھا منتقل ہو گئے۔ قیام پاکستان کے ان دنوں میں ہر طرف قتل و غارت گری کا بازار گرم تھا مگر مولانا محفوظ رہے اور پھر ان کی طبعی وفات ہوئی۔ جھوٹا نبی کن حالات میں پنجہ موت میں جکڑا گیا ۔ عالم برزخ کا ایک منظر نامہ قرآن نے یوں بیان فرمایاہے ۔”اور اس ے بڑھ کر ظالم کون ہوگا جو اللہ پر جھوٹ باندھے یا یہ کہے کہ مجھ پر وحی آتی ہے حالانکہ اس پر کچھ بھی وحی نہیں آئی اور جو یہ کہے کہ جس طرح کی کتاب اللہ نے نازل کی ہے اس طرح کی میں بھی بنا لیتا ہوں ۔ کاش تم ان ظالم لوگوں کو اس وقت دیکھو جب موت کی سختیوں میں مبتلا ہوں اور فرشتے ان کی طرف عذاب کیلئے ہاتھ بڑھا رہے ہوں کہ نکالو اپنی جانیں ۔ آج تم کو ذلت کے عذاب کی سزا دی جائیگی اس لیے کہ تم اللہ پر جھوٹ نشانچتے تھے اور اس کی آیتوں کے سامنے اکڑتے تھے ( الانعام 93)یہ آیت سو فیصدجھوٹے نبی پر فٹ آتی ہے ۔ یعنی مرتے ہی اسے رسوا کن عذاب سے دوچار ہونا پڑتا ہے عام آدمی اس کا تو سوچ بھی نہیں سکتا ۔اور فاتح قادیان شیخ ا لاسلام مولانا ثناء اللہ امرتسری رحمہ اللہ جیسے دین حق کے داعیوں کے لیے سورہ حٰم السجدہ آیت 30میں ارشاد ہوا’’ بے شک جن لوگوں نے کہا اللہ ہمارا رب ہے پھر وہ اس پر قائم رہے ان پر فرشتے اتریں گے اور کہیں گے کہ خوف نہ کرو اور نہ غمناک ہو اور جنت کی جس کا تم سے وعدہ کیا جاتا تھا خوش خبری قبول کرو ۔ ہم دنیا کی زندگی میں بھی تمہارے دوست تھے اور آخرت میں بھی تمہارے رفیق ہیں اور وہاں جس نعمت کا تمہارا جی چاہے گا ملے گی اور جو طلب کرو گے تمہارے لیے موجود ہوگی ۔ یہ غفور رحیم کی میزبانی ہے ( آیات 31تا 33)اللہ کریم اپنے صالح بندوں کے ساتھ وہی معاملہ فرمائے جس کا اس نے وعدہ کیا ہے ۔ اور گمراہوں کو صحیح راستہ پہچاننے کی توفیق دے تاکہ وہ ناقابل تصور عذاب سے بھی بچ جائیں آمین۔