• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن
تحریر: آیت اللہ ڈاکٹر سخاوت حسین سندرالوی۔امریکہ
ہر قوم اپنے کلینڈر کا آغاز جشن، مسرت، شادمانی، خوشی اور عید کے طور پر مناتی ہے جبکہ مسلمانوں کے کلینڈر کا آغاز غم، دکھ، رنج، الم اور آہ و بکا سے ہوتا ہے۔ اس لئے کہ 61ھ میں کربلا کے تپتے صحراء میں سواسہ رسولؐ کو ان کے اعزاء و اقرباء اور احباب سمیت بھوکا پیاسا ذبح کر دیا گیا۔ محرم الحرام کی آمد سے قبل ہی دنیا بھر میں امام حسینؓ کی یاد میں مجالس عزا اور جلوس ہائے عزاداری کی تیاریں شروع ہو جاتی ہیں۔ چاند رات سے ہی دنیا کے اطراف و اکناف میں مجالس کا آغاز ہو جاتا ہے عشرہ محرم الحرام پر خرچ ہونے والے بجٹ کا مقابلہ دنیا کے بڑے سے بڑے ممالک نہیں کرسکتے۔امام حسینؓ کے نام کی نذر و نیاز جگہ جگہ بٹتی ہے شہدائے کربلا کی یاد میں سبیلیں لگائی جاتی ہیں دنیا کی شاید ہی کوئی ایسی زبان ہو جس میں نواسہ رسولؐ کی یاد نہ منائی جاتی ہو۔ علمائے کرام ، ذاکرین، نوحہ خواں اور مرثیہ خوانوں کی بڑی تعداد دنیا کے مختلف علاقوں میں پہنچ کر عزاداری کے تقاضے پورے کرتی ہے۔ یکم محرم الحرام سے شام غریباں تک مساجد، مراکز ، حسینیہ جات،امام بارگاہوں اور عاشور خانوں میں مجالس عزا میں حاضری بہت زیادہ ہو جاتی ہے۔ یزید جیسے ظالم و جابر اور ڈکٹیٹر کا نام لینے والا کوئی نہیں جب کہ نواسہ رسولؐ کا عشق ہر اہل درد کے دل میں موجزن ہے۔ محرم نئے تقاضوں کا متمنی ہے۔ دنیا بھر میں مسلمانوں کو اپنے کردار عمل سے اسلام کا نظریہ امن اجاگر کرنا ہے دنیا کو فکر کربلا سے روشناس کرانا ہے۔ یزید جیسے ظالم حاکموں کے جرائم سے مکمل طور پر نقاب ہٹانا ہے۔ حقیقی اسلام کے آفاقی اصولوں کو زبان رد عام کرنا ہے۔ عشرہ محرم الحرام کی مجالس عزا مسلمانوں کی رہنمائی کیلئے بہترین درس گاہ ہیں ہر تعلیمی ادارے میں لیول ضرور چیک ہوتا ہے۔ اس ادارے میں محبت کے سوا کچھ چیک نہیں ہوتا۔شہدائے کربلا کی قربانی کو سامنے رکھ کر مسلمانوں کی مجروح ساکھ بحال ہوسکتی ہے۔ شہدائے کربلا نے حق و باطل، صدق و کذب، شرافت وذلت، خیر و شر اور امن و دہشت میں امتیاز کا خط کھینچا ۔ آج مسجدوں کی اذانیں ۔ خانہ کعبہ کا طواف، بقائے اسلام، بقائے کلمہ طیبہ اور دین اسلام کا وجود ایثار کربلا کا نتیجہ ہے ۔ مقتولیں بدر کا بدلہ لینے کا دعویدار یزید اپنی اصل جنگ ہمیشہ کے لئے ہار گیا اس نے شخصیت پرومشن چاہی تھی جب کہ امام عالی مقام مذہب کی بقا کا مقدس مشن لے کر بڑھ رہے تھے۔عشرہ محرم الحرام کے دوران خطباء و مقررین کی ذمہ داری ہے کہ وہ اشتعال انگیز تقاریر سے گریز کریں۔ جرائد و رسائل میں قابل اعتراض مواد شائع نہ کریں۔ نوجوان جذبات کے ساتھ ساتھ حقائق بینی اپنائیں۔ مملکت خداداد میں فرقہ پرستوں نے مسجدوں میں نمازیوں کے قتل عام کا سلسلہ ابھی جاری رکھا ہوا ہے۔ ارباب حکومت کے فرائض میں شامل ہے کہ دوران محرم امن و امان کو اپنی ترجیحی بنیادوں میں شامل رکھیں عشرہ محرم الحرام کی مجالس میں کیونکہ تمام فرقے شرکت کرتے ہیں۔ لہٰذا اتحاد اسلامی کیلئے یہ بہترین پلیٹ فارم ہے۔نواسہ رسولؓ نے عشق توحید میں روضہ رسولؓ کا جوار چھوڑ دیا تاکہ مدینہ میں قتل عام نہ ہو اسی لئے حج کے احرام کو عمرے میں بدل کر جوار خانہ کعبہ سے بھی کوچ کرلیا کیوں کہ بعض لوگ حاجیوں کے لباس میں امام حسینؓ کو قتل کرنے آئے تھے۔ محرم الحرام میں جہاں امام حسینؓ کے قافلے کی تیاری کا ذکرہوگا وہیں آپؐ کے وفادار یارو انصار کا تذکرہ بھی ہوگا۔ دنیا میں امام عالی مقامؓ کی مصیبت پر غم منانے والے پہلے شخص صحابی رسول ؓ عروہ غفاریؓ ہیں جن کی کانوں کی سماعت اتنی کمزور تھی کہ بادلوں کی گھن گرج تک نہ سن سکتے تھے۔ ان کی زوجہ کہتی ہیں کہ28 رجب کی رات کے پچھلے حصے میں بستر پراٹھ کر بیٹھ گئے اور حیرت سے کہنے لگے کہ میں تو کچھ سن نہیں سکتا مگر میں دیر سے محسوس کررہا ہوں کہ بیبیاں زار و قطار رو رہی ہیں ان کی زوجہ نے عرض کیا کہ علی ؓ و بتولؓ کے بہی خواہوں کا ذکر امام حسینؓ میں شرکت ضرور کرنی چاہئے۔کربلا اگر صرف دکھ بھری داستان ہوتی تو شاید اتنی دیر پا نہ ہوتی یہ انسانیت کی ہدایت کی عظیم ترین یونیورسٹی بھی ہے۔ جس سے شش ماہ کے بچے سے لے کر 90 سالہ بوڑھے تک کے لئے کورس موجود ہے۔ یہی وجہ ہے کہ 14 صدیوں میں پڑھی جانے والی داستان جب بھی دھرائی جاتی ہے تو اس میں نیا جوش وولولہ ہوتا ہے۔ عزم و استقلال ، ایثار و وفا، ہمت و صلاحیت ، جذبہ و طاقت ، جہاد و اصلاح ، شرافت و دیانت، غیر و حمیت اور ربط خالق و مخلوق کا وہ جوش لہو میں کھولنا ہے کہ انسان خود کو ہیچ سمجھ کر دین کو سب کچھ سمجھنے لگ جاتا ہے۔ محرم الحرام میں شہادت عظمیٰ کے ہر پہلو کو اجاگر کیا جائے۔ کربلا نے کالے گورے ، عربی عجمی اور آقا و غلام کے امتیاز مٹا دیئے ۔
اہرام مصر سے بابل نینوا، موہنجودڑو سے ھڑپہ و ٹیکسلا تک آثار قدیمہ کی تاریخ پیلی ہے مگر ایسے اوراق نادرہی کسی کے صفحہ قرطاس پر رقم نہیں جیسے کربلا کی دھرتی پر رقم ہیں۔ عشرہ محرم میں جہاں حسینؓ جیسے سردار نوجوانان بہشت کا ذکر ہوگا وہیں جون جیسےحبشی غلام کو بھی یاد کیا جائے گا۔ہر امام بارگاہ میں ایک روز حرؓ کے ذکر سے مختص ہوتا ہے تاکہ لوگوں کو توبہ کی کشتی پر سوار ہونے والے چند گھنٹوں کے مہمان کی عظمت کا بھی احساس ہو صحابی رسولؓ حضرت حبیبؓ بن مظاہر، مسلمؓ بن عوسجہ،زبیر ؓ ابن قین کا تذکرہ خصوصیت سے ہوتا ہے۔وہب کلبیؓ جو تازہ مشرف بہ اسلام ہوا تھا۔ اس کا تذکرہ بھی ہوتا ہے اور ظاہر امام عالی مقامؓ کے اہل بیت سرکار غازی عباسؓ ، حضرت علی اکبرؓ، حضرت علی اصغرؓ، حضرت عونؓ و محمدؓ ،حضرت قاسم ،حضرت عبداللہ ابن حسن اولاد عقیل اولاد جعفر طیار وغیرہ کاذکر خصوصیت سے ہوگا۔ ابن عابس ؓ شاکری، بربری ہمدانی، نافع بن ہلال جیسے شہداء کی سیرت کے پہلو اجاگر ہو گے کربلا میں ظالم ظلم سے تھک گیا مگر صابر صبر سے نہیں تھا ایسے افراد جو ماتم نہیں کرتے انہیں میں نے تبرک تقسیم کرتے ہوئے دیکھا ہے یہ بھی ایک عقیدت کا رنگ ہے۔امام حسینؓ نے کیونکہ ذہنیتیں بدل دی ہیں فکروں کو انقلاب بخشا ہے قوموں کو حیات دی ہے اس لئے غم حسینؓ کسی مذہب یا فرقے سے مختص نہیں ہے۔ بلکہ ہر مذہب و قوم میں ذکر حسینؓ کا رواج ہے۔ حتیٰ کہ جنوں میں بھی ذکر امام حسینؓ کا بہت رواج ہے۔ راقم الحروم نے امریکہ کے ڈائون ٹائونز سے لے کر افریقہ کے جنگلوں تک یورپ کے کلیسائوں کے پڑوس سے لے کر حجاز مقدس کی مساجد کے جوار تک۔ ترک و فارس کے تکیہ جات سے لیکر شام و امارات کے حسینیہ جات تک ایرا نکے عزاخانوں سے لے کر عراق کے حوائر تک۔حیدرآباد دکن کے شاہی عاشور خانوں سے لیکر سندھ کے جھگی نشینوں تک، کینیڈا کے برف پوش کہساروں سے لے کر سبی کی آگ برساتی وادیوں تک۔ یوپی کے قدیمی امام بارگاہوں سے لے کر پنجاب کے کھلے امام باڑوں تک، میں نے اپنی آنکھوں سے شہدائے کربلا کی یاد کے وہ مناظر دیکھے ہیں کہ کبھی کبھی غیر شعوری طور پر سوتے میں یا حسینؓ کی آواز نکل جاتی ہے۔کربلا والوں نے ہمیں نامساعد حالات میں بھی دین پر چلنا سکھایا۔ ذرائع ابلاغ کو چاہئے کہ وہ امام عالی مقام کی فکر کو عام کیرں۔ محذرات عصمت نے واقعہ کربلا کو کربلا کے ریگزاروں میں دفن نہیں ہونے دیا اسی طرح ہماری خواتین مردوں سے بڑھ کر مجالس حسینؓ میں حصہ لیتی ہیں اللہ سب حضرات و خواتین کو جزائے خیر مرحمت فرمائے۔اس سال کا محرم بہت سارے چیلنجز لے کر آرہا ہے اور امت مسلمہ کو ایام محرم میں خاطر خواہ جدوجہد کی اشد ضرورت ہے۔ اولاً امت محمدیہؐ کے درمیان وحدت و اتحاد، مفاہمت و یگانگت اور عفو و درگزر کو روا دینا ہوگا۔ دوسروں پر فتوے لگانے کی بجائے اپنے گریبانوں میں جھانکنا ہوگا۔ کربلا والوں کے پیغام کو نعروں تک محدود نہیں کرنا ہوگا بلکہ ان کے ایثار کو مشعل راہ قرار دے کر طاغوت سے نجات حاصل کرنی ہوگی۔ ثانیاً اس مقدس انسٹیٹیوٹ ذاتی، خاندانی، فروعی یا علاقائی مفادات سے ہٹ کر اجتماعی، آفاقی اور دینی مفادات کیلئے ذریعہ سمجھنا ہوگا۔ ثالثاً بیت المقدس ، کشمیر ، یمن اور نائیجریا کی مظلوم عوام کی داد رسی کیلئے تحریک چلانی ہوگی۔ رابعاً سوشل میڈیا، الیکٹرانک اور پرنٹ میڈیا کے ذریعے امام حسینؓ اور شہدائے کربلا کی قربانی کے فلسفے کو اجاگر کرنا ہوگا۔ خامساً کربلا کے انسٹیٹیوٹ بدعقیدتی، بد عملی، کج فکری، ہٹ دھرمی، بداخلاقی، بد گفتاری، ظلم و تعدی اور لادینیت کو جڑ سے اکھاڑ پھینکنے کیلئے استعمال کرنا ہوگا۔ محرم کے اختتام پذیر ہوتے ہی چار دانگ عالم میں حسینیت کی خوشبو پھیل گئی اور یزیذیت تعفن ختم ہوگیا تو سمجھیں کے ہم کامیاب ہوگئے۔
تازہ ترین