نوجوانوں میں بڑھتی ہوئی بے روزگاری ہمارے ملک کا اہم ترین سماجی مسئلہ ہے، بنیادی طور پر بے روزگاری کاتعلق اقتصادی معاملات سے ہے لیکن اس کی جڑیں سماجی، سیاسی اور تعلیمی معاملات سے اس طرح پیوست ہیں کہ اس کی حقیقی نوعیت کو علیحدہ سے سمجھنا ممکن نہیں ہے نہ ہی ہم معاشرے پر اس کے اثرات کا اندازہ کر سکتے ہیں، تاہم کراچی جیسے بڑے شہر میں یہ دیکھا گیا ہے کہ اسٹریٹ کرائمز میں ملوث مجرموں میں ایک بڑی تعداد نوجوانوں کی ہے لیکن ضروری نہیں کہ ان نوجوانوں نے بے روز گاری کے سبب ہی جرائم کا راستہ اختیار کیا ہو ، اس کی دیگر وجوہ بھی ہو سکتی ہیں لیکن ہم آسانی سے سمجھ سکتےہیں کہ اگر کسی نوجوان کو اچھی ملازمت ، اچھی تنخواہ اور مراعات میسر ہوں تو اس کا رجحان کبھی جرائم کی طرف نہیںہو گا، کراچی میں ایک نیم سرکاری سماجی تنظیم کے زیر اہتمام منعقدہ تقریب میں مقررین کا کہنا تھا کہ، بے روزگاری نوجوانوں کو پر تشدد ، انتہا پسندی اور جرائم کی طرف دھکیل رہی ہے۔ حال ہی میں رونما ہونے والا واقعہ کسی المیے سے کم نہیں کہ چودہ پندرہ سال کا ایک نوجوان چوری کے شبے میں بنگلے کے مکینوں اور اہل محلہ کے ہاتھوں، تشدد کا نشانہ بن کر جاں بہ حق ہو گیا، مگر اس سے کہیں زیادہ تشویش ناک امر یہ کہ مرنےوالا نوجوان پہلے بھی چوری کے ایک مقدمے میں ماخوذ رہ چکا تھا۔
بے روزگاری کو اقتصادی نقطۂ نظر سے دیکھا جائے تو ماضی میں اختیار کی جانے والی اقتصادی پالیسیز کو اس کا ذمے دار قرار دیا جا سکتا ہے خاص طور پر روزگار کے مواقعوں کو چند شہروں تک محدود رکھنے کے سبب، ملک کے چھوٹے شہروں اور دیہی علاقوں میں بے روزگاری بڑھی ہے۔ اس وقت کراچی، لاہور، فیصل آباد، گجرات وغیرہ تجارتی اور صنعتی سرگرمیوں کا محور ہیں، خصوصاً کراچی اقتصادی لحاظ سے ان تمام شہروں پر فوقیت رکھتا ہے، جس کی وجہ سے پورے ملک کے افراد روزگار کی تلاش میں کراچی کا رخ کر رہے ہیں، اس وقت صورت حال یہ ہے کہ ملک کا کوئی علاقہ ایسا نہیں ہے جس کا کوئی فرد کراچی میں قیام پذیر نہ ہو، حتیٰ کہ قبائیلی علاقوں کےعوام کی ایک بڑی تعداد کراچی میں مقیم ہے اور برسرِ روزگار ہے۔ اس کے علاوہ اسلام آباد ، راولپنڈی، کوئٹہ، پشاور وغیرہ میں سرکاری ملازمتوں کی گنجائش دوسرے شہروں سے زیادہ ہے، جس سے ان شہروں پر آبادی کا بوجھ منتقل ہو رہا ہے۔ مگر وہاں کراچی جیسی صورت حال نہیں ہے۔
ملک میں پائی جانے والی غیر یقینی سیاسی صورت حال بھی بے روزگاری کا بڑا سبب کہی جاسکتی ہے، کیوں کہ معاشی معاملات کو سیاسی صورت حال سے علیحدہ کر کے دیکھا نہیں جا سکتا ملک سیاسی طور پر مستحکم ہو اور سیاسی حالات میں اتار چڑھائو نہ ہو تو معاشی سرگرمیاں فروغ پاتی ہیں۔ سرمایہ کار صنعتوں کے قیام کو ترجیح دیتے ہیں ۔ تجارت ، کاروبار اور خدمات کے شعبوں میں روزگار کے مواقع نکلتے ہیں، اس طرح ایک پرسکون، خوش حال اور پُر امن معاشرے کی بنیاد پڑتی ہے۔ ہر فرد کو اپنی صلاحیتوں کے لحاظ سے آگے بڑھنے کے مواقع ملتے ہیں تو جرائم کی شرح کم ہوتی چلی جاتی ہے اقتصادی ثمرات سے پورا ملک فیض یاب ہوتا ہے لیکن اس وقت معاشرتی صورت حال یہ ہے کہ ڈاکٹرز اور انجینئر سمیت گریجویٹ اور پوسٹ گریجویٹ ڈگریاں رکھنے والے ہزاروں نوجوان چھوٹی چھوٹی ملازمتوں کے حصول کے لئے سرگرداں ہیں ۔ لوگ کہتے ہیں کہ ہمارا اقتصادی ، سماجی اور سیاسی نظام اس صورت حال کو پیدا کرنے کا سبب بنا ہے لیکن کیا ہم اپنے نظام تعلیم کو بھول جائیں؟ ستر بہتر سال گزر جانے کے باوجود ہم اپنے لئے ایک بہتر نظام تعلیم وضع اور اختیار کرنے میں ناکام رہے ہیں۔ موجودہ نظام تعلیم تو انگریزوں نے اپنے مفادات کی تکمیل کے لئے رائج کیا تھا۔ جو کلرکوں کی فوج تو پیدا کرسکتا ہے، لیکن ملک کو چلانے والے ذہن پیدا نہیں کر سکتا۔ لہٰذا بے روزگاری پر قابو پانے کے لئے ہمیں ایک ایسا بامقصد نظام تعلیم رائج کرنا ہوگا جو ذہنی صلاحیتوں کو اجاگر کر سکے۔ جس کے ذریعے معاشی مفادات حاصل ہو سکیں کیوں کہ موجودہ نظام تعلیم فرد کی معاشی ضروریات کی تکمیل کرنے سے قاصر ہے۔ اس نظام تعلیم کی بے مقصدیت کا ثبوت اس سے بڑھ کر کیا ہو گا کہ آج کا انٹر پاس نوجوان انگریزی میں تو کجا، اردو میں بھی ملازمت کے لئے درخواست نہیں لکھ سکتا نہ ٹائپ کرنے کی صلاحیت رکھتا ہے۔
ہمارے نظام تعلیم کو جدید ضروریات کے مطابق ڈھالنے کی کوششوں پر بھی توجہ دی جانی چاہیے۔ نصاب تعلیم میں نظری تعلیم کےساتھ ساتھ عملی تعلیم کی گنجائش بھی رکھی جائے خصوصاً ساتویں کلاس سے میٹرک تک، نصاب میں بجلی کے آلات کی مرمت اور دیکھ بھال کے علاوہ ٹائپنگ وغیرہ کو شامل کیا جائے۔ انٹر میڈیٹ کے نصاب میں شارٹ ہینڈ ، ائرکنڈیشن ریفریجٹر اور کمپیوٹر کے مضامین رکھے جائیں۔ خصوصاً دیہی علاقوں میں ضلع اور تحصیل کی سطح پر پولی ٹیکنک اور پیشہ وارنہ تربیت کے اسکولز قائم ہوں تو دیہی نوجوانوں کو روزگار کا حصول آسان ہو جائے گا۔
ایک اور اہم بات یہ ہے کہ نوجوانوں کو خود بھی خوابوں کی دنیا سے نکل کر عملی دنیا کے تقاضوں پر دھیان دینا چاہیے۔ اعلیٰ ملازمتوں کے لئے اعلیٰ صلاحیتوں کی ضرورت ہوتی ہے۔ لیکن گھر چلانے اور اپنا خرچ خود اٹھانے کے لئے چھوٹی ملازمت بھی بہت ہے۔ اس وقت معاشرے میں ڈگری یافتہ نوجوانوں کی تعداد بہت بڑھ چکی ہے اور معاشرے کے دوسرے شعبوں میں چھوٹی ملازمتوں مثلاً ڈرائیورز، ٹائپسٹ، کمپیوٹر آپریٹرز وغیرہ کی قلت ہے۔ اگرہمارے نوجوان ان چھوٹی ملازمتوں کو اختیار کرنے میں شرم اور جھجک محسوس نہ کریں تو بے روزگاری بڑی حد تک ختم ہو جائے گی۔ آپ آج کوئی بھی اخبار اٹھا کر دیکھ لیجیے ۔ ملازمت کے بڑے بڑے اشتہار نظر آئیں گے، لیکن چھوٹی ملازمتوں کے لئے، اس کا مطلب صاف ظاہر ہے کہ اداروں کو اپنی ضروریات کے مطابق مطلوبہ افراد دست یاب نہیں ہیں۔ جب کہ یہ ملازمتیں بھی کم از کم بیس ہزار روپے ماہانہ کی ہیں۔ تو پھر بے روزگار پھرنے کی بجائے چھوٹی ملازمت حاصل کر کے اگلی منزلوں کاسفر کیوں نہ اختیار کیا جائے؟