• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

کراچی کے ہم قدیم باسی، جو بٹوارے سے بہت پہلے کراچی میں آباد ہیں اور اب رفتہ رفتہ برباد ہوتے جارہے ہیں، گنتی کے رہ گئے ہیں۔ حواس باختہ کر دینے والے بے لگام ٹریفک کے شور و غل، عمارتوں کی بھول بھلیاں اور انسانوں کے جنگل میں اچانک ایک دوسرے کے سامنے آجائیں تو حیران رہ جاتے ہیں۔ شہر کراچی کے ساتھ ساتھ ہم پرانے باسی بھی بہت بدل چکے ہیں۔ جھریوں کے پیچھے چہرے کے نقش و نگار مخدوش ہو چکے ہیں۔ ایک دوسرے کو جاننے اور پہچاننے کے دوران پریشان ہو جاتے ہیں، میرے سامنے بیساکھیوں پر کھڑا ہوا بوڑھا شخص کیا وہی مکرانی لڑکا ہے جس نے انٹر اسکول ٹورنامنٹ کے ایک میچ میں بائیں گول کر کے ایک ناقابل تسخیر ریکارڈ اپنے نام کیا تھا؟ اور یہ بوڑھا ناتواں گورا چٹا شخص جو چھڑی کے سہارے کراچی پارسی انسٹیٹیوٹ کے اجڑے ہوئے کرکٹ گرائونڈ میں نہ جانے کیا ٹٹولتا رہتا ہے۔ کیا فضل محمود جیسا وہی خوبرو نوجوان ہے جو بائیں ہاتھ سے بیٹنگ کرتا تھا؟ اور جس نے اکہتر برس پہلے غیرسرکاری ٹیسٹ میچز میں پاکستان کیلئے اوپننگ بیٹنگ کی تھی؟ اور لیاری کی گلیوں میں جوڑوں کے درد سے چور آہستہ آستہ چلنے پھرنے والا بوڑھا کہیں وہ نوجوان تو نہیں جس کا شمار ایشیا کے تین تیز ترین سائیکل چلانے والوں میں ہوتا تھا اور جو ستر برس پہلے ایشین گیمز میں پاکستان کیلئے تمغہ جیت کر آیا تھا؟ میں نام بتانا مناسب نہیں سمجھتا۔

اب ہم سب آخر شب کے مسافر ہیں۔ خاموشی سے رخصت ہوتے جا رہے ہیں۔ اپنے دور کی بے انتہا خوبصورت اداکارہ گاتی تھیں، ملکہ ترنم کہلاتی تھیں۔ بڑھاپے میں کسی کو اپنی تصویر کھینچنے نہیں دیتی تھیں۔ برصغیر پر قدرتی اداکاری کی چھاپ چھوڑنے والے دلیپ کمار کی جوانی میں ایک جھلک دیکھنے کیلئے دنیا دیوانی ہو جاتی تھی۔ دلیپ اب پچانوے برس کے ہو چکے ہیں۔ اپنے عروج کی پرچھائیں سے بھی دور ہو گئے ہیں۔ ٹھیک سے سن سکتے ہیں نہ سمجھ سکتے ہیں اور نہ بول سکتے ہیں مگر بیوی نے دلیپ کو تماشہ بنا کر رکھ دیا ہے۔ پارٹیاں کرتی ہے۔ پریس کو مدعو کرتی ہے۔ دلیپ کو ویل چیئر پر بٹھا کر، ان کا ہاتھ پکڑ کر اونچا کر کے لوگوں کو ویل کم اور گڈ بائی کرتی رہتی ہے۔ دکھ ہوتا ہے۔ ایک لیجنڈ رخصت ہو رہا ہے۔ اس کو عزت سے جانے دیں۔ اس کا تماشہ مت بنائیں۔ برسہا برس اپنے ریوڑ کی رہنمائی کرنے والا سردار ہاتھی جب بوڑھا اور ناتواں ہو جاتا ہے۔ تب ریوڑ سے الگ ہو جاتا ہے۔ وہ سنسان گھاٹیوں میں جا کر تن تنہا آخری سانس لیتا ہےاور اس دنیا سے چلا جاتا ہے۔

تقسیم ہند دیکھنے والی نسل کے ہم آخری گنے چنے لوگ جو رخت سفر باندھ کر بیٹھے ہوئے ہیں، اپنے شہر کا تماشہ بنتا ہوا دیکھ رہے ہیں۔ بے بس ہیں، ہم کچھ نہیں کر سکتے۔ ہم اب بڈھے کھوسٹ ہو چکے ہیں۔ کچھ کچھ پگلے، کچھ کچھ بائولے، کچھ کچھ حیران، کچھ کچھ پریشان رہنے لگے ہیں۔ ہم خستہ حال بوڑھوں کی فکر مندی سیانے سیاستدانوں، تجزیہ کاروں اور تجزیہ نگاروں، دانشوروں، قلمکاروں، اکابر اینکر پرسنوں، عاقلوں اور بالغوں کی فکر مندی سے مختلف ہے آپ کی نیندیں اس فکر مندی نے اڑا دی ہیں کہ کراچی پر حاکمیت کس کی ہے؟ کون کراچی پر قبضہ جمانا چاہتا ہے؟ کون کراچی کو یرغمال بنانا چاہتا ہے؟ مگر ہم بوڑے کھوسٹ سوچتے ہیں کہ کراچی کو اجاڑنے کے در پے کون ہے؟ کراچی کے برساتی نالوں میں دنیا بھر کا کوڑا کرکٹ اور کچرا ڈال کر نالے بند کرنے والے کون ہیں؟ انگریز نے برساتی نالے کوڑا کرکٹ ڈالنے کیلئے نہیں بنائے تھے۔ تقسیم ہند سے پہلے کراچی کا موسم شہر کولمبو ، ممبئی اور کلکتہ جیسا تھا۔ آسمان ابرآلود رہتا تھا۔ اکثر بوندا باندی ہوتی رہتی تھی۔ مون سون میں آسمان سے آبشار جیسا مینہ (بارش) برستا تھا۔ ڈرینیج سسٹم ایسا موثر ہوتا تھا کہ بارش تھمتے ہی سڑکوں سے پانی گڑھوں کے ذریعے نالوں میں اور نالوں سے سمندر میں جا گرتا تھا۔ یہ تب کی باتیں ہیں جب کراچی کی آبادی تین لاکھ کے لگ بھگ تھی۔ اب کراچی کی آبادی تین کروڑ کے لگ بھگ ہے۔ برسات کا پانی سمندر تک لے جانے کے لئے نالوں کی تعداد اتنی ہی ہے۔ جتنی انگریز چھوڑ گیا تھا۔ تقسیم ہند سے پہلے کراچی میں ہندو، مسلمان، یہودی، عیسائی، بہائی، پارسی، جین اور بدھ مت کے پیرو کار امن اور شانتی کے ساتھ رہتے تھے۔ وہ لوگ برساتی نالوں میں کوڑا کرکٹ نہیں ڈالتے تھے۔ میں اس حقیقت کا چشم دید گواہ ہوں۔ کراچی کے ہم پرانے باسی سوچتے ہیں کہ بٹوارے کے بعد کراچی کے لوگوں کو برساتی نالوں میں گند کچرا ڈالنے کی تجویز کس نے دی؟ کس نے ان سے کہا بیٹا یہ نالے انگریز کوڑا کرکٹ ڈالنے کے لئے بنا کر گیا ہے۔ دل کھول کر دنیا بھر کا کچرا لا کر برساتی نالوںمیں ڈالا کرو۔

آپ پلیز ناراض نہ ہوں۔ میری مودبانہ گزارش ہے کہ آپ مجھے حرف تشبیہ استعمال کر نے کی اجازت دیجیے۔ آم کو انگریزی میں Mangoکہتے ہیں مگر ہمارے ہاں پہ صرف آم نہیں ہوتے۔ ہمارے ہاں چونسہ، سندھڑی، انور رٹول، سرولی، لنگڑا، دسہڑی وغیرہ ہوتے ہیں۔ یہ ہے آموں کے درمیان اقسام کی نوعیت۔ اب آپ فیصلہ کریں کہ کراچی میں رہنے والے سرولی ہیں؟ چونسہ ہیں؟ سندھڑی ہیں؟ لنگڑا ہیں؟ کس نسل کے لوگ ہیں جو برساتی نالوں میں کچرا ڈالتے ہیں؟ سرکاری سطح پر، یا غیر سرکاری سطح پر۔ آپ کچھ بھی کر ڈالیں، کراچی صاف نہیں ہو گا۔ کراچی کو تقسیم ہند سے پہلے جیسا بنانے کے لئے آپ کو کراچی میں رہنے والوں کی تربیت کرنا ہوگی۔ ان کے رویوں اور عادات سے گند کچرا نکالنا ہو گا۔ ان کو ایک ترقی یافتہ شہر میں رہنے کے آداب سکھانا ہونگے۔

تازہ ترین