• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

سیّد ثقلین علی نقوی

’’ محرّم الحرام‘‘ ہر سال امّتِ مسلمہ کو خانوادہ ٔرسولؐ کی اُن بے مثال قربانیوں کی یاد دِلاتا ہے، جن کے نشان آج تک ریگزارِ کربلا اور تاریخ کے سینے پر پیوست ہیں۔ واقعۂ کربلا نے دنیا پر ثابت کر دیا کہ مسلمان اسلام کی خاطر ہر چیز قربان کرسکتا ہے، لیکن اسلام کو کسی چیز پر قربان نہیں کیا جاسکتا۔ یہ واقعہ ہمیں نواسہ رسولؐ ،حضرت حسینؓ کی اُس عظیم قربانی کی یاد دِلاتا ہے، جو اُنہوں نےاسلام کا جھنڈا بلند رکھنے کے لیے دی۔بلاشبہ اُن کی اس عظیم قربانی نےانسانیت کو جینے کا دستور، ظالم و جابر حکم رانوں کی آنکھ میں آنکھیں ڈال کر بات کرنے کا حوصلہ بخشا۔ یہی سبب ہے کہ اگر واقعہ کربلا محض تاریخ کا ایک باب ہوتا، تو اِتنے برس گزرجانے کے باوجود ہمارے قلوب میں زندہ نہ رہتا۔ درحقیقت، واقعۂ کربلا ایک جنگ نہیں ، ایک درس ہے، جس کا عنوان’’ تحفّظِ انسانیت‘‘ ہے۔جس میں ظالم کو شرمندگی اٹھانی پڑی، جہاں باطل ذلیل و خوار ہوا۔ امام عالی مقامؓ نے ارشاد فرمایا تھا کہ’’ اگر کبھی میرے نانا ؐکے دین پر کوئی آنچ آئی، تو مَیں اپنے پورے کنبے کو قربان کرکے اسلام کو ہر آفت سے بچالوں گا‘‘ اور اُنھوں نے ایسا ہی کیا۔

28 رجب کومدینہ منورہ سے ایک قافلہ روانہ ہوا، جس میں بہت سے لوگ راستے سے بھی شامل ہوتے گئے۔ دورانِ سفر امام عالی مقامؓ کو خبر ملی کہ کوفے کے حالات اب مختلف ہیں اور حضرت مسلم بن عقیلؓ شہید ہو چُکے ہیں تو آپؓ نے قافلے والوں کو ایک جگہ جمع کیا اور حمد وثنا کے بعد فرمایا’’ اے لوگو! کوفے سے اندوہ ناک خبریں آرہی ہیں۔ وہاں کے لوگوں نے ہمیں دھوکا دیا ہے، مگر مَیں اپنا سفر جاری رکھنا چاہتا ہوں۔ تم میں سے جو واپس جانا چاہتا ہے، بے شک چلا جائے۔‘‘تاہم، مدینہ منورہ سے ساتھ آنے والے ثابت قدم رہے، البتہ جو راستے میں ملے تھے، اُن میں سے کئی ایک واپس لَوٹ گئے۔ قافلہ اپنی منازل طے کرتا ہوا 2 محرّم کو سرزمینِ کربلا پہنچا ، جہاں یزیدی فوج نے اُس کا محاصرہ کرلیا۔ یہ ایک حقیقت ہے کہ آپؓ جنگ کے ارادے سے نہیں آئے تھے، اسی لیے جنگی سامان اور بڑا لشکر ساتھ نہ تھا۔ نیز، اس سفر میں صرف خاندان کے افراد یا کچھ اور محبّین ہی اُن کے ہم راہ تھے۔ ایک ایسا خاندان کہ جس کا تقویٰ مشعلِ راہ تھا، تو جس کی شرافت و عظمت کا فلک بھی شاہد تھا۔ یزیدی فوج نے ابنِ سعد کی قیادت میں 7 محرّم کو حضرت امام حسینؓ، آپؓ کے اہل و عیال اور دیگر اہلِ قافلہ کا پانی بند کردیا، جسے میر انیس ایک مرثیے میں یوں بیان کرتے ہیں ؎ ’’گھوڑے کو اپنے کرتے تھے سیراب سب سوار…آتے تھے اونٹ گھات پر باندھے ہوئے قطار…پانی کا دام و در کو پلانا ثواب تھا…اِک ابنِ فاطمہؓ کے لیے قحطِ آب تھا۔‘‘ چھوٹے بچّے قلّتِ آب سے بِلک رہے تھے، مگر کوئی اُنھیں پانی کی ایک بوند بھی دینے کا روا دار نہ تھا۔اُدھر ظلم بڑھ رہا تھا، اِدھر نواسہ رسولؐ صبر کر رہے تھے۔ چھے ماہ کے علی اصغر کو دینِ مبین پہ قربان کرنے اور شبہیہ رسولؐ، علی اکبرؓ کی شہادت کے باوجود آپؓ کے پائے استقامت میں لغزش نہ آئی۔ امامِ عالی مقامؓ نے دنیا والوں کے سامنے ثابت کر دیا کہ گھروں میں بیٹھ کر اسلام کا تذکرہ کرنا بہت آسان، مگر اٹھارہ سال کے کڑیل جوان کا لاشہ اٹھاکر بھی ثابت قدم رہنا صرف حضرت امامِ حسینؓ ہی کا طرّۂ امتیاز ہے۔ جہاں بھی دین کی خاطر قربانی، آزمائش جدوجہد اور جان لُٹانے کی بات آئے گی، اسوۂ حسینیؓ قابلِ تقلید نمونے پیش کرتا رہے گا۔ نواسۂ رسولؐ کا ہر اقدام اسلام کی بقا کے لیے تھا۔ خود اُن کا اشتیاقِ عبادت یہ تھا کہ نمازِ صبح تیروں کی برسات میں شروع کی، نمازِ ظہر ادا کی تو تلواروں کی چھاؤں میں اور پھر نمازِ عصر میں عین سجدے کی حالت میں گردن تن سے جدا کر دی گئی۔

یہ حقیقت ہے کہ کربلا ظلم کے خلاف وہ آواز ہے کہ جس میں نواسۂ رسولؐ نے اپنی شہادت پیش کرکے انسانیت کو بچا لیا۔ جس نے بھی واقعۂ کربلا پڑھا، وہ کہہ اٹھا’’ کربلا میں انسانیت کی جیت ہوئی۔‘‘ اسلامی تاریخ کے اس الم ناک سانحے کا اثر جہاں ایک عام مسلمان پر ہوا، وہیں مسلم اور غیر مسلم شعراء و ادبا ء نے مرثیوں، نوحوں، سلام اور نظم و نثر میں شہدائے کربلاؓ اور اُن کی قربانیوں کو بھرپور سلامِ عقیدت پیش کیا۔ ہر شاعر نے کسی نہ کسی انداز میں اپنا دامن، اس سعادت سے بھرنے کی کوشش کی ۔ایسے اشعار میں سے، جو ضرب المثل بن کر زندہ و جاوید ہو گئے، ایک شعر واقعۂ کربلا سے متعلق مولانا محمّد علی جوہر کا بھی ہے، جو ہر طبقۂ فکر کی تحریر و تقریر کا حصّہ بن چُکا ہے۔ اس شعر کی صُورت گویا واقعۂ کربلا کو کوزے میں سمو دیا گیا ہے؎ ’’قتلِ حسینؓ اصل میں مَرگِ یزید ہے …اسلام زندہ ہوتا ہے ہر کربلا کے بعد۔‘‘ پھر جوش ملیح آبادی کا یہ شعر بھی زبانِ زدِ عام ہے؎’’کیا صرف مُسلمان کے پیارے ہیں حُسینؓ …چرخِ نوعِ بَشَر کے تارے ہیں حُسینؓ …انسان کو بیدار تو ہو لینے دو…ہر قوم پکارے گی، ہمارے ہیں حُسینؓ۔‘‘کربلا صرف ایک المیے، ایک حادثے، ایک واقعے یا دُکھ بھری شہادتوں ہی کی داستان نہیں، بلکہ ایک پوری تحریک ہے۔الہٰی تحریک، جو اپنے اندر عالمِ انسانیت کے لیے الہٰی اطاعت کا حتمی کلیہ سموئے ہوئے ہے۔کربلا ایک میدانِ کارزار ہی نہیں، بلکہ ایک عظیم درس گاہ بھی ہے،جہاں سے حریّتِ فکر و عمل کا درس ملتا ہے۔

تازہ ترین