• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

’’امی جی!مجھے پتا ہے کہ ہر فکر کے پیچھے ایک حرا اور ہر جلوت کے پیچھے ایک خلوت ہوتی ہے،طاقت کا سرچشمہ علم ہے اور عیاں کو بیاں کی ضرورت نہیں ہوتی۔ یہ سنہری اُصول دادا محمد جمیل شاہ نے میرے باپ محمد نوید شاہ کو سکھائے تھے اور ابّوکے انتقال کے بعد اب یہ آپ کی ڈیوٹی ٹھہری۔‘‘حرا نوید شاہ نے چِڑتے ہوئے اپنی ماں شگفتہ بانو کو جواب دیا۔ شگفتہ نے رات کی باسی روٹی اور چائے کا کپ اپنے جہیز کی میز پر رکھتے ہوئےکہا’’چلو ناشتا کر لو، کالج کے لیےدیر ہو رہی ہے۔‘‘حرا نے نوالہ منہ میں ڈالا اور گرم چائے کا گھونٹ لیا۔ چائے نے زبان کو حرارت پہنچائی تو دل کے شکوے زبان پر آگئے، ’’دادا کہتے تھے’’ہر فکر کے پیچھے حرا ہوتی ہے‘‘ اور یہاں حرا کے آگے پیچھے صرف غربت ہی غربت ہے، جلوت کا تو پتا نہیں،یہاں تو محض خلوت ہی خلوت ہے۔ کوئی رشتے دار ہم سے نہیں ملتا، نہ ہمیں اپنے گھر بُلاتا ہے۔ ہاں یہ صحیح کہا تھا دادا جی نے کہ عیاں کو بیاں کی ضرورت نہیں۔ ہماری غربت سب پر عیاں ہے، لہٰذا مجال ہے کوئی بیاں کیے بغیر سمجھ جائے۔اور تیسرا سنہری اُصول تو بھول ہی گئی، طاقت کا سرچشمہ علم ہے۔ یہاں پڑھ پڑھ کر مجھے چشمہ لگ گیاہے، پرطاقت نہیں ملی۔‘‘’’بیٹی! تُو ایسی بے ادبی کی باتیں مت کیا کر۔‘‘ شگفتہ نے حراکے سر پر دستِ شفقت پھیرتے ہوئے کہا۔’’پچھلے کچھ عرصے سے جو کام تم کر رہی ہو، اُسے چھوڑ دو۔ ہم سیّد ہیں، اپنے خاندانی رُتبے ہی کا کچھ خیال کر لو۔‘‘ شگفتہ نے بیٹی کو اُس کے مقام اور کام دونوں کی یاددہانی کروائی۔’’اپنے چھوٹے بہن بھائیوں کی چھوٹی چھوٹی خواہشیں ہی پوری کر رہی ہوں۔ کسی کا کوئی نقصان تو نہیں کر رہی ناں… اگر کچھ گناہ ہے بھی تو وہ صرف میری ذات پر ہے۔‘‘ حرا نے اپنا بیگ اُٹھایا اور میڈیکل کالج کے لیےروانہ ہو گئی، جہاں وہ ایم بی بی ایس ، فائنل ائیر کی اسٹوڈنٹ تھی۔حرا نویدچار بہن بھائیوں میں سب سے بڑی تھی۔ والد کا انتقال اس کے بچپن میں ہو گیا تھا، ماں سلائی کا کام جانتی تھیں، سو اپنے جہیز کی سلائی مشین نکالی اور زندگی کا پہیہ چل پڑا۔حرا شروع ہی سے لائق اور ذہین تھی،اس نے اپنی حسرتوں کا رس نچوڑ نچوڑ کر اپنے قلم میں سیاہی ڈالی، تو چھوٹے بہن بھائی بھی اُس کی دیکھا دیکھی قناعت شعار، ذہین،لائق اور روشن ضمیر ہوتے چلے گئے ۔ماں کو بچّوں کی تعلیم و تربیت پر زیادہ محنت نہیں کرنی پڑی تھی کہ بڑی بہن کے نقشِ قدم پر چلتے ہوئے اُن کے ننّھے ذہنوں میں سمجھ داری خود ہی گھر کر گئی تھی۔اُن کی معصوم سی آرزوئیں حرا پوری کر دیتی تھی، بہن بھائیوں کی خاطر وہ جو کچھ کر رہی تھی، وہ اُسے بھی پسند نہیں تھا، پر غربت کی ماری بے چاری کرتی بھی تو کیا۔

حرا حجاب کرتی تھی، ہر وقت اُس کا چہرہ نقاب میں اور جسم پر برقعہ ہوتا۔ بارہ مہینے جوگرز پہنتی۔ کسی نے پوچھا ’’ایسا کیوں؟‘‘ تو جواب دیا ’’میرے پیروں میں درد رہتا ہے ، ڈاکٹر نے تجویز کیا ہے۔‘‘ کندھے پر لیدر کا ایک کالا بیگ ہوتا، جو اُس نے ٹاؤن شپ کی لُنڈا مارکیٹ سے خریدا تھا۔ کرایہ بچانے کے لیے کالج پیدل جاتی، اس وجہ سے گھر سے ایک گھنٹہ پہلے نکلتی، تاکہ کلاس کے لیے ٹائم پر پہنچ سکے۔اُس کا کوئی دوست تھا، نہ وہ کسی سے زیادہ بات چیت کرتی تھی۔کلاس میں سب سے الگ تھلگ رہتی، مگر کلاس کی سب سے لائق طالبہ تھی، جب کہ فارغ وقت میں کالج کینٹین میں ہاتھ میں کتاب تھامے اِرد گرد کی دُنیا سے بے نیاز پائی جاتی۔’’حرا باجی! برگر بہت مزے دار ہے۔‘‘ حیا نے برگر کھاتے ہوئے حرا کو مخاطب کیا۔’’میرا سینڈوِچ زیادہ اچھا ہے۔‘‘ جویریہ نے بات کاٹی’’نہیں جی، میرا تیمے والا سموسہ سب سے زیادہ تیستی ہے۔‘‘ جاسم نے توتلی زبان میں فیصلہ سُنایا۔ حرا کے بہن بھائی رات کو کھانے کی بجائے اُس کی لائی چیزوں کو زیادہ اہمیت دیتے تھے۔’’اب تم سب دانت صاف کرو اور اپنے اپنے بستروں میں جاؤ۔‘‘ اس کے تینوں بہن بھائی سو چکے تھے۔ رات کے دوسرے پہر شگفتہ بانو کی آنکھ کُھلی تو حرا پڑھ رہی تھی۔

’’تمہیں نیند کیوں نہیں آتی؟ پہلے کالج جاتی ہو، پھر پتا نہیں کہاں کہاں پڑھانے ، پھر گھر پر ٹیوشن دیتی ہو۔ اُس کے بعد اپنی موٹی موٹی کتابیں لے کر بیٹھ جاتی ہو… سو جاؤ میری بچّی۔‘‘’’امّی جی! خواب سو کر پورے نہیں ہوتے اور میرا خواب اِ س ملک کی بڑی ہارٹ سرجن بننا ہے، جس کے لیے مجھے اپنی نیندیں گنوا نی ہی پڑیں گی۔‘‘’’تیری ساری باتیں ٹھیک ہیں سوائے ایک کے۔بھائی بہنوں کی خوشی کے لیے جو تو یہ کام کر تی ہے ناںاسے چھوڑ دے، اگر کسی نے دیکھ لیا تو…‘‘’’تو کیا؟ بتائیں؟‘‘ حرا تیکھے انداز میں دھیمی آواز سے بولی ۔’’بس یہ جان لو، اس معاشرے میں بد سے بدنام بُرا ہے۔‘‘’’ مَیں میڈیکل اسٹوڈنٹ ہوںاور آپ میرے ساتھ معرفت کی باتیں شروع کر دیتی ہیں۔‘‘حرا نے تنگ آکر جواب دیا۔’’جسے معرفت مل جائے وہ معروف ہو جاتا ہے۔‘‘ شگفتہ بانو نے اپنا لحاف ہٹایا اور وضو کرنے چلی گئیں۔

’’امی جی! دُعا کریں آج میرا آخری پیپر ہے، اُس کے بعد ہاؤس جاب ۔ بس سال ڈیڑھ سال کی بات ہے، پھر اِن شاء اللہ ہمارے حالات بدل جائیں گے۔‘‘ اس کا آخری پیپر بھی بہت شان دار ہوا ۔ اس کے ساتھ ساتھ وہ ہوا، جو نہیں ہونا چاہیے تھا۔ حرا پیپر سے فارغ ہوکر حسبِ معمول کینٹین میں بیٹھی اپنی کتاب میں محو تھی، جب عروج داؤد وہاں پہنچی۔ عروج داؤد کلاس کی دوسری لائق طالبہ تھی۔وہ کھاتے پیتے گھرانے کی لڑکی تھی۔جیسے ہی عروج اور جوّاد حرا کے پاس آکر بیٹھے ، اس نے شولڈر بیگ میں اپنا سامان ڈالا اور وہاں سے اُٹھ گئی۔’’حرا رُکو‘‘ عروج غصّے سے چلاّئی۔’’میرا موبائل کہاں ہے؟‘‘ ’’کون سا موبائل؟‘‘’’وہ جو تمہارے بیگ میں ہے۔ دیکھو مجھے غصّہ مت دلاؤ۔ شرافت سے میرا موبائل واپس دے دو۔‘‘ ’’عروج! تمہیں یقیناً غلط فہمی ہوئی ہے، میرے پاس تمہارا موبائل نہیں ہے۔‘‘ حرا نے سمجھانے کی کوشش کی۔’’غلط فہمی کیسی؟ مَیں گاڑی میں بیٹھ رہی تھی کہ جوّاد نے کہا، چلو کینٹین سے چائے پیتے ہیں۔ہم یہاں آئے، ٹیبل پر موبائل رکھا ہی تھا کہ تم نے اُٹھا کر بیگ میں ڈال لیا۔‘‘عروج کی گھن گرج سے ہجوم اکٹھا ہو گیا تھا۔’’یہ جھوٹ ہے۔‘‘ حرا نے مختصر سا جواب دیا۔’’عروج کی نظریں کبھی دھوکا نہیں کھا سکتیں۔‘‘ جوّاد نے بات کو ہوا دی۔’’جواد اور جواز میں فرق رہنا چاہیے۔ بالکل اسی طرح، جس طرح دلیل اور ذلیل میں، تم لوگ بغیرکسی دلیل کے مجھے ذلیل کر رہے ہو اور جہاں تک بات ہےدھوکے کی ،تو عروج ہی دھوکا دیتا ہے، حرا نہیں۔‘‘’’ڈاکٹر حرا! ڈاکٹرز والی باتیں کرو، شیکسپئر کو کم پڑھا کرو۔ ڈراما چھوڑو موبائل واپس کرو۔‘‘ اس بار نیلم بولی۔’’تم لوگوں کو شرم آنی چاہیے مجھ پر الزام لگاتے ہوئے، چار سال سے ہم اکٹھے پڑھ رہے ہیں۔ مَیں نے کبھی کسی سے ایک بال پین تک نہیں مانگا اور تم سب مجھ پر چوری کا الزام لگا رہے۔‘‘’’تو تم اپنے بیگ کی تلاشی دے دو۔‘‘ جوّاد نے قدرے غصّے سے کہا۔’’مَیں اپنے بیگ کی تلاشی نہیں دوں گی۔‘‘ اس نے دو ٹوک کہہ دیا۔ کافی دیر بحث مباحثہ ہوتا رہا، مگر حرا اپنے بیگ کی تلاشی دینے پر آمادہ نہیں تھی۔ اسی اثنا میں کینٹین والے چاچا بولے،’’حرا بیٹی! اپنے بیگ کی تلاشی دے کر سب کے منہ بند کروادو۔‘‘ حرا نے اپنا بیگ کندھے سے اُتار کر لوہے کی میز پر رکھ دیا۔نیلم نے جلدی سے بیگ کی زِپ کھولی اور اُسے ٹیبل پر اُلٹ دیا۔جس میں سے ایک اسٹھیتھ اسکوپ، تھرما میٹر،چند بال پینز، ایک پینسل، اسکیل، ایک کوری کاپی اور ایک کالا شاپرنکلا۔ ’’دیکھنا موبائل اِسی شاپر میں ہوگا۔‘‘ عروج داؤد نے فاتحانہ انداز میں کہا ۔چاچا شریف نے جب وہ شاپر کھولا تواس کے اندر سےکاپی کے کورے کاغذوں میں لپٹے تین پیکٹ بر آمد ہوئے، سب کی نظریں اُن تین پیکٹس پر جمی تھیں۔ چاچا شریف کے بوڑھے لرزتے ہاتھوں نے پہلا کاغذ کھولا تو اُس میں اُس کے ہاتھ کے بنے ڈھائی سموسے، دوسرے کاغذ میں ڈیڑھ برگر اور تیسرے میں دو سینڈوچز تھے۔ یہ سب کچھ اُس نے مختلف ٹیبلزسے اپنے بہن بھائیوں کے لیےاکٹھےکیا تھا ،جو اُس کے کالج کے ساتھی بچا کر گئے تھے۔ اسی کام سے حرا کی ماں بھی اُسے منع کرتی تھیں۔سارا ہجوم اندر کی کہانی سمجھ گیا تھا، کُھسرپھسر شروع ہو گئی۔ چاچا شریف نے بھیگی آنکھوں کے ساتھ وہ سارا’’ مالِ غنیمت ‘‘آہستہ آہستہ حرا کے بیگ میں واپس ڈالا۔ حرا نظریں جھکائے ، کسی مجسمّے کی طرح ساکت کھڑی تھی۔’’مَیں قسم کھا کر کہتی ہوں، موبائل اِس نے برقعے کے اندر چھپایا ہے۔‘‘ عروج داؤد کو ہار منظور نہیں تھی، وہ اس بار ہر حال میں حرا کو ہرانا چاہتی تھی۔اُس نے چپ چاپ اپنے برقعے کے موٹے موٹے بٹن کھولنا شروع کیے۔اس کا پیوند لگا لباس اس کی غربت کی کہانی بیان کر رہا تھا۔یہ دیکھ کر وہاں موجود چند اسٹوڈنٹس کی آنکھوں میں نمی تیر گئی ، تو کچھ زیرِ لب مُسکرابھی رہے تھے۔ اُس کے چہرے پر نقاب ابھی باقی تھا، جس میں سے اُس کی موٹی موٹی سیاہ آنکھیں اور اُن میں موجود آنسو صاف نظر آرہے تھے۔اس سے پہلے کہ عروج اور اس کے دوست حرا کو مزید ذلیل کرتے، اُن کا ایک کلاس فیلو عدنان اندر داخل ہوا۔اُس کے ہاتھ میں عروج کا موبائل فون تھا۔’’تمہیں یہ کہاں ملا؟‘‘ عروج نے بے تابی سے پوچھا۔’’اپنی موٹر سائیکل پارک کرتے ہوئے ، تمہاری گاڑی کے پاس پڑا ملا۔ تمہیں لوٹانے آرہا تھا، تو کسی نے بتایا کہ تم لوگوں نے کینٹین میں کیسے ایک نیک سیرت، شریف النّفس لڑکی کی عزّت کا تماشا بنایا ہوا ہے۔

کینٹین میں چہ مگوئیاں ہو رہی تھیں’’حرا اتنی غریب ہے؟‘‘،’’اُس نے کبھی اپنی غربت کا ذکر تو نہیں کیا۔‘‘،’’اب سمجھ آئی وہ الگ الگ کیوں رہتی ہے۔‘‘،’’کیسے کیسوں کو میڈیکل کالج میں داخلہ مل جاتا ہے۔‘‘ نیلم نے حقارت سے آخری جملہ بولا تھا۔’’میں بھی یہی سوچ رہا ہوں، تم جیسیوں کو اس کالج میں کیسے داخلہ مل گیا؟‘‘ عدنان نےشدید غصّے کے عالم میں کہا اور عروج کے ہاتھ میں اُس کا موبائل تھما دیا۔ اُن تینوں نے وہاں سے کھسکنے ہی میں عافیت جانی۔ چاچا شریف نے حرا کے سر پر ہاتھ رکھا اور اُس کا برقعہ کرسی کی ٹیک سے اُٹھا کر اُسے تھما تے ہوئے آنسو صاف کرتا وہاں سے چلا گیا۔ حرا نے برقعہ پہنا اور خاموشی سے نظریں جُھکا ئے باہر نکل آئی۔عدنان اور حرا کا رشتہ بھی عجیب تھا۔ اُس نے کبھی حرا کو بنا نقاب نہیں دیکھا تھا اور نہ ہی حرا نے اُسےکبھی نظر بھر کر دیکھا ۔پھر بھی کبھی دونوں کینٹین میں ساتھ چائے پی لیا کرتے، تو کبھی کتابیں ایکسچینج کرلیتے اور پھر رزلٹ آتے ہی عدنان نے حرا کے گھر رشتہ بھیج دیا ۔ سادگی سے دونوں کا نکاح ہوگیا۔ آج وہ حرا عدنان کے نام سے جانی جاتی ہے، پاکستان کی مشہور ہارٹ سرجن ۔ وہ آج بھی اسی طرح حجاب کرتی ہے، جیسے کالج کے دنوں میں کرتی تھی۔حرا، عدنان سے اکثر کہتی ہے کہ ’’ڈاکٹر صاحب! عورت کا پردہ اُس کی عزت بھی بڑھاتا ہے اور اُس کی غربت بھی چُھپاتا ہے۔‘‘وہ دن حرا کی زندگی کی کتاب کا’’ بُک مارک‘‘ ہے۔کتابِ زندگی کےصفحات پلٹتے رہے، مگر بُک مارک وہیں کا وہیں ہے۔آج آٹھ سال بعد حرا نے اپنے سارے خواب پورے کر لیےہیں۔اپنا آبائی گھر نئے سرے سے تعمیر کروایا، بہن بھائی اعلیٰ تعلیم حاصل کر رہے ہیں۔ مگر حرا کی زندگی کا ایک اصول ہے ’’ کسی کی عزّت، بھرم کا حجاب کبھی نہیں اُتارنا چاہیے‘‘اور وہ مرتے دَم تک اس اصول پر کار بند رہنا چاہتی ہے۔

تازہ ترین