• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

جس منظر نامے کی تشکیل آپ کے سامنے لانے کی کوشش ہے، اُس کے حوالے سے چند ابتدائی دلائل سے آغاز کیا جا رہا ہے، توقع ہے ان دلائل کے بعد ان شاء اللہ متذکرہ کوشش کامیاب ہو گی۔

1952ء کا سال، انگریزی معاصر ڈیلی ’’ڈان‘‘ کا شمارہ مورخہ 4؍ نومبر صوبہ پنجاب کے نظم و نسق سے متعلق اُس وقت کے پارلیمنٹری سیکرٹری ملک قادر بخش نے ایک رپورٹ مرتب کی جس کے بعض مندرجات آپ کی خدمت میں پیش کئے جا رہے ہیں۔ ملک قادر بخش صاحب نے اپنی رپورٹ میں انکشاف کیا:’’متعدد اضلاع میں انتظامی حالت ناگفتہ بہ ہے۔ معاملات میں بروقت کارروائی اگلے زمانے کی ایک داستان بن گئی ہے جس سے آج کے سرکاری ملازمین نا آشنا ہیں۔ ہر محکمے میں رشوت کا بازار گرم ہے، اقربا نوازی، دوست پروری، بے پروائی اور نکما پن ایسے عیوب ہیں جن کا آئے دن مشاہدہ ہوتا رہتا ہے‘‘۔

’’میں نے سرگودھا اور منٹگمری کے دفتر آباد کاری کا معائنہ کیا ان کی بے ترتیبی کا یہ حال تھا کہ وہ دفتر کی بجائے کباڑیے کی دکان معلوم ہوتے تھے‘‘۔ 

’’ایک بڑا قیمتی خزانہ جو سابق غیر ملکی حکمران ہمارے لئے چھوڑ گئے ہیں وہ مالگزاری اور دوسرے محکموں کے سرکاری ریکارڈ ہیں جس کے بغیر کوئی نظمِ حکومت باقاعدگی کے ساتھ نہیں چلایا جا سکتا مگر ہم دیکھتے ہیں کہ تین چار سال کی مختصر مدت ہی میں ان کا حال نہایت ابتر ہو چکا ہے (اس سلسلے میں ملک صاحب نے متعدد مثالیں ایسی دی ہیں جن سے معلوم ہوتا ہے کہ کاغذاتِ مال میں جھوٹے اندراجات کرنے اور جعلی دستاویز میں شامل کر دینے کا بھی طریقہ چل پڑا ہے‘‘۔

’’اضلاع میں مجھے یہ دیکھ کر سخت صدمہ ہوا کہ مجسٹریٹ احساس کمتری میں مبتلا ہیں، بدقسمتی سے نوبت یہاں تک پہنچ گئی ہے کہ مجسٹریٹ یہ سمجھنے لگے ہیں کہ وہ اپنے علاقے کی پولیس پر کوئی قابو نہیں رکھتے۔ ایک زمانہ تھا جب کہ ضلع کے پولیس افسر اپنے آپ کو علاقہ مجسٹریٹ کے ماتحت امن و امان کے قیام کا ایک ذریعہ سمجھتے تھے مگر اب مجسٹریٹوں کے اندر یہ احساس عام ہے کہ آج پولیس ہر وقت خود ان کو نقصان پہنچا سکتی ہے‘‘۔

’’مجھے یہ کہنا چاہئے کہ آدمی کے لئے ایک جنگل میں زندگی گزارنا اس سے بہتر ہے کہ وہ ایک ایسی متمدن سوسائٹی میں زندگی بسر کرے جہاں وہ بے لاگ انصاف کی نہ عدالتوں سے توقع رکھتا ہو اور نہ انتظامی حکام سے۔ لوگوں کے دلوں میں سو فیصدی یہ خیال بیٹھ گیا ہے کہ وہ کسی بااثر سفارش کے بغیر کہیں سے بھی انصاف نہیں پا سکتے‘‘۔

آج 2019ء ہے۔ 1952کا مطلب ہے ملک قادر بخش صاحب کی اس رپورٹ کو پیش ہوئے 67واں برس ہے، نون لیگ اور پیپلز پارٹی کی حکومتوں کو چھوڑیں، آج جو لوگ ’’نئے پاکستان‘‘ کی اصطلاح کے ایجاد کنندہ اور برسراقتدار ہیں، ان کے اس ’’نئے پاکستان‘‘ میں کیا پنجاب کے اکثر سرکاری اہلکاروں کا طرز عمل اس منظر نامہ کی سو فیصد تصدیق نہیں کرتا جس کے لئے آپ کو 67برس پہلے کی ایک رپورٹ پڑھنے کی زحمت دی گئی ہے۔

اتفاق سے عمران حکومت کی موجودہ متحرک ترین ترجمان ڈاکٹر فردوس عاشق اعوان کے حوالے سے ان کے خیالات شائع ہوئے ہیں۔ ان خیالات کے مطابق ’’نیب کا ادارہ کاروباری لوگوں کا نہ صرف بازو مروڑنے میں مصروف ہے بلکہ انہیں ڈراتا دھمکاتا بھی رہتا ہے۔ ڈاکٹر صاحبہ کے اس اعتراف کے علاوہ وفاقی کابینہ نے بھی یہی بات کی کہ کاروباری لوگ نیب سے خوف زدہ ہیں جس کی وجہ سے ملکی کاروباری حالات خراب سے خراب تر ہو رہے ہیں۔ وفاقی کابینہ کے خیال میں اسی خوف کی وجہ سے لوگ سرمایہ کاری نہیں کر رہے اور پیسہ بھی بینکوں میں رکھنے کے بجائے کیش کی صورت میں اپنے گھروں میں رکھ رہے ہیں اور سیاسی سرگرمیاں اب نہ ہونے کے برابر رہ گئی ہیں۔ یہی حال بیرونی سرمایہ کاروں کے علاوہ بیورو کریسی بھی سخت خوف زدہ ہونے کی وجہ سے نہ فائلوں پر دستخط کر رہی ہے اور نہ کوئی فیصلے کر رہی ہے‘‘۔ ہم عمران حکومت کے ناقدین ہیں۔ ہمارے نزدیک پاکستان میں جمہوری تسلسل قائم رہنا چاہئے۔ ہر منتخب جمہوری حکومت کو اپنی آئینی مدت پوری کرنی چاہئے مگر افسوس اس منتخب جمہوری حکومت نے ایسے راستوں کا انتخاب کیا جن سے انتقام اور ناانصافی کے اشارے ملتے ہیں۔

سچائی چھپائی نہیں جا سکتی۔ مثلاً ان دنوں کشمیر کے مسئلے پر جس ماحول کو ہم دیکھ رہے ہیں ہو سکتا ہے اُس ماحول کے اندر چھپی ہوئی سچائی وقت آنے پر ہمیں حیران کر دے۔ ملک کے اندرونی حالات میں عوام جس قسم کی مہنگائی اور لاقانونیت کا سامنا کر رہے ہیں اُس نے اُن کے اندر ایک ایسی مایوس کن حالت پیدا کر دی ہے جس کا موقع آنے پر وہ اپنے ووٹ کے ذریعے ایسا اظہار کریں جو شاید عمران حکومت کے خوابوں میں بھی نہیں ہو گا۔ 31؍اگست 2019ءہی کی ایک خبر کے مطابق ’’قومی احتساب بیورو(نیب) سکھر کی جانب سے پیپلز پارٹی کے مرکزی رہنما اور سابق اپوزیشن لیڈر سید خورشید احمد شاہ کے خلاف باضابطہ طور پر تحقیقات شروع کر دی گئی ہیں۔ ڈپٹی کمشنر دادو کو لیٹر جاری کر کے سید خورشید احمد شاہ اور ان کے اہل خانہ کی جائیداد کے حوالہ سے تفصیلات طلب کی گئی ہیں۔ نیب کے جاری کردہ لیٹر کے مطابق پیپلز پارٹی کے مرکزی رہنما سید خورشید احمد شاہ اور ان کے اہلِ خانہ کی جائیداد کے حوالے سے تفصیلات طلب کرنے کا لیٹر لکھنے سے پہلے چیئرمین نیب سے اجازت لی گئی۔ ڈپٹی کمشنر دادو سے خورشید شاہ، ان کی دونوں اہلیہ، بیٹے، بیٹیوں کی جائیداد کی تفصیلات 5دن کے اندر طلب کی گئی ہیں، خورشید شاہ کے جن اہل خانہ کی جائیداد کی تفصیلات طلب کی گئی ہیں ان میں صوبائی وزیر ٹرانسپورٹ اور سید خورشید شاہ کے بھتیجے اویس قادر شاہ اور قادر شاہ کے بھائی جنید قادر، سید خورشید شاہ کے فرزند رکن صوبائی اسمبلی سید فرخ شاہ، سید زیرک شاہ سمیت ان کے خاندان کے 11افراد شامل ہیں‘‘۔

اب سید خورشید شاہ کے احتساب کے عنوان سے ایک اور باب کھلنے جا رہا ہے۔ دعا ہے کہ حکومت کا یہ احتساب پاکستان کیلئے مفید ثابت ہو سکے۔ بہرحال حالات کی ترشی اور نحوست کے بادل چھائے جا رہے ہیں، اگلے چھ ماہ ہمیں ان بادلوں کے سایوں کے نتائج کا کچھ اندازہ ہو جائیگا۔

تازہ ترین