• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن
آپ نے ایک محاورہ فارورڈ بلاک ضرور سنا ہوگا۔ ہمارے ٹیلیویژن چینلز نے پوری قوم کو دیسی سیاسی علوم میں خواندہ کر دیا ہے۔ اس لئے آپ بخوبی جانتے ہوں گے کہ فارورڈ بلاک کس وبا کا نام ہے۔ مگر ہم کچھ مست مولائی دوستوں نے اپنا بیک ورڈ بلاک بنایا اور فیصلہ کیا کہ ہم ایک گول میز کانفرنس میں بیٹھیں گے اور بینظیر بھٹو کے پُراسرار قتل کی گتھی سلجھانے کی کوشش کریں گے۔ آپ سوچ رہے ہوں گے کہ بیک ورڈ بلاک کیا چیز ہے؟ میں آپ سے کئی مرتبہ گزارش کر چکا ہوں کہ خدارا سوچا مت کریں، سوچنے سے دماغ چکرا جاتا ہے پھر بھوک نہیں لگتی اور جب آپ کو بھوک نہیں لگتی تب ملک میں وافر مقدار میں ملنے والی کھانے پینے کی چیزیں ضائع ہوجاتی ہیں۔ کھانے پینے کی چیزوں کو شرفاء کھانے پینے کی اشیاء کہتے ہیں۔ میں نہیں چاہتا کہ سوچتے سوچتے آپ کی بھوک مر جائے اور ملک کے گلی کوچوں میں ملنے والی کھانے پینے کی چیزیں ضائع ہو جائیں۔ ہمارے ملک کو مولیٰ نے طرح طرح کی نعمتوں سے نوازا ہے۔ میں نہیں چاہتا کہ آپ ان نعمتوں سے محروم ہو جائیں۔ میں چاہتا ہوں کہ آپ کھائیں پیئیں، موج کریں اور رات بھر موبائل فون پر جوآپ کے جی میں آئے، لوگوں کو جگا جگا کر سب کہہ دیں لہٰذا میرا قومی و ملی فرض بنتا ہے کہ میں چند لفظوں میں آپ کو بیک ورڈ بلاک کا مطلب بتا دوں۔ بیک ورڈ بلاک وہ لوگ بناتے ہیں جو بیک ورڈ ہوتے ہیں۔ ہم بیک ورڈ دوستوں نے اپنا بیک ورڈ بلاک اس لئے بنایا کیوں کہ ہم مست مولائی سمجھتے تھے کہ کسی قتل کیس کی تفتیش یا چھان بین کرنا اقوام متحدہ کا کام نہیں ہے بلکہ ان کے بس کی بات نہیں ہے۔ دو رکنی تفتیشی ٹیم خرچ ہو جائے گی اور جاتے جاتے سارا خرچہ پاکستان کے گلے میں ڈال جائے گی۔ سب سے بڑھ کر یہ کہ غیر ملکی سراغ رسانوں یا کھوجیوں کی تفتیشی رپورٹ پر پاکستان کی کسی عدالت میں کسی پر مقدمہ نہیں چلایا جا سکتا۔ بینظیر بھٹو کی المناک وفات کو پانچ برس گزر چکے ہیں۔ تفتیشی پیشرفت وہیں کی وہیں رکی ہوئی ہے۔ ایسے میں بیک ورڈ بلاک کا وجود میں آنا لازمی تھا۔
بیک ورڈ بلاک کے ہم ممبروں نے فیصلہ کیا کہ ہم گول میزکانفرنس بلائیں گے ہر زوایئے سے سانحے کو دیکھنے کی کوشش کریں گے۔ بیک ورڈ سہی مگر ہم گھناؤنے منصوبے کی تہہ تک پہنچ جائیں گے۔
سب سے پہلے ہم لوگوں نے ایک گول میز کی تلاش شروع کر دی۔ آپ جانتے ہیں کہ گول میز کے بغیر گول میز کانفرنس نہیں ہو سکتی۔ ہم لوگوں نے پورا شہر چھان مارا لیکن ہمیں مناسب گول میز نہ مل سکی۔ ویسے تو شہر میں گول میزوں کی کمی نہ تھی لیکن وہ ڈائننگ ٹیبلیں تھیں۔ گول ڈائننگ ٹیبل پر آپ کھانا کھا سکتے ہیں مگر گول میز کانفرنس نہیں کر سکتے۔ مجبوراً ہم ایک چوکور میز لے آئے۔ چوکور میز کے گرد بیٹھ کر ہم بیک ورڈوں نے چوکور میز کانفرنس کی۔ آپ چوکور میز کے گرد بیٹھ کر گول میز کانفرنس نہیں کر سکتے۔
وہ چوکور میز کانفرنس بہت لمبی چلی تھی۔ کانفرنس کے دوران ہم نے تین چار مرتبہ کھانا کھایا، چائے کیک پیسٹریاں ہضم کیں۔ ایک دو مرتبہ میز پر سر رکھ کر قیلولہ بھی کر لیا۔ آخر میں ہم لوگ اس نتیجے پر پہنچے کہ شرلاک ہومز کی مدد کے بغیر ہم گھناؤنی سازش سے پردہ نہیں اٹھا سکتے۔ ہم کبھی جان نہ پائیں گے کہ بینظیر کو کس نے قتل کیا تھا۔ ہمیں کیوں لگ رہا تھا کہ بینظیر بھٹو کا قاتل ہمارے درمیان کھڑا مسکرا رہا تھا اور سب کو دانہ ڈال رہا تھا۔
ہم سب سوچ میں پڑ گئے کہ شرلاک ہومز سے کیسے اور کیوں کر مدد لی جائے؟ تخیلاتی کردار شرلاک ہومز اور اس کا دوست ڈاکٹر واٹسن اپنے تخلیق کار سر آرتھر کونن ڈوئل کے ساتھ 1930ء میں مرگئے تھے۔ اب ان سے مدد لی جائے تو کیسے لی جائے! ہم سب دوستوں کے دوست درشن دمڑی نے مشورہ دیا کہ ہمیں ماہر نجوم، فلکیات اور غیبات میڈم فلک جھنجھنے والی سے ملنا چاہئے۔ اسی کی مدد سے ہم شرلاک ہومز سے مل سکتے ہیں۔
میڈم فلک جھنجھنے والی کلفٹن کے قرب ڈیفنس کے فیز بے فیض میں بستی ہے اور ہنستے بستے گھر اجاڑ دیتی ہے۔ سنا تھا کہ بہت خوبصورت ہے۔ ہم چندہ کر کے اس کے پاس گئے۔ وہ واقعی بے انتہا خوبصورت تھی۔ کسی کی بھی نیندیں اڑا سکتی تھی۔ کسی کو بھی بے بس بنا سکتی تھی۔ ہم نے اس سے بپتا بیان کی، وہ مسکرائی اور اچانک کمرے کی تمام بتیاں گُل ہوگئیں۔ سوائے ایک اسپاٹ لائٹ کے جس کی شعائیں فلک جھنجھنے والی کے سامنے میز پر رکھے ہوئے کرسٹل کے گولے پر پڑ رہی تھیں۔ کرسٹل کا گولا آہستہ آہستہ گھومنے لگا۔ فلک جھنجھنے والی اپنی مخروطی انگلیاں گولے پر گھماتی رہی اور کوئی جنتر منتر پڑھتی رہی۔ کرسٹل کے گولے سے پھوٹتی ہوئی روشنی کے رنگوں میں وہ اور زیادہ خوبصورت لگنے لگی۔ کمرے میں دھند پھیلتی گئی۔ میز ہلنے لگی اور پھرگرجدار آواز سنائی دی ”میں شرلاک ہومز ہوں“۔
فلک جھنجھنے والی نے صاف دکھائی نہ دینے والے شرلاک ہومز سے کہا ”یہ لوگ آپ کی مدد لینے آئے ہیں“۔
”میں جانتا ہوں“ شرلاک ہومز نے کہا۔ ”یہ لوگ بینظیر بھٹو کے پُراسرار قتل کے بارے میں مجھ سے ملنے آئے ہیں“۔
”کمال ہے!“ درشن دمڑی نے کہا ”آپ کو کیسے پتہ چلا؟“
شرلاک ہومز نے کہا”میں شرلاک ہومز ہوں، مجھ سے ملنے کے لئے آنے والے شخص کو دیکھتے ہی میں جان جاتا ہوں کہ اس کا مدعا کیا ہے“۔
درشن دمڑی نے کہا ”ہم چاہتے ہیں کہ آنے والے انتخابات سے پہلے اس راز سے پردہ اٹھ جائے اور بینظیر بھٹو کا قاتل عیاں ہو جائے“۔
شرلاک ہومز نے کہا ”آنے والے تمام الیکشنوں تک اس راز سے پردہ نہیں اٹھ سکتا“۔
درشن دمڑی نے پوچھا ”کیا آپ بھی یہ گتھی سلجھا نہیں سکتے؟“
”ہاں، میں بھی یہ گتھی سلجھا نہیں سکتا“۔ شرلاک ہومز نے کہا ”نظریہ افہام و تفہیم کے تحت مجھے میرا حصہ مل چکا ہے“۔
تازہ ترین