• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن
”تو کیا ہماری خون کی پیاس ابھی نہیں بجھی“،ارون دھتی رائے نے کہا۔ وہ ایک فہم و فراست رکھنے والی خاتون ہیں۔ بھارت میں ایسی آوازیں شاذونادرہی سنائی دیتی ہیں۔ افضل گرو کی پھانسی پر تبصرہ کرتے ہوئے انہوں نے اضطراب سے پوچھا”اب تو ہمارا اجتماعی شعور مطمئن ہوگیا“۔ اجتماعی شعور کی بات بھارت کے سپریم کورٹ نے کی تھی، افضل گرو کی اپیل کا فیصلہ کرتے ہوئے ۔گرو کے خلاف مقدمہ میں اعلیٰ ترین عدالت کو شواہد ناکافی لگے مگر اجتماعی شعور کی تسلی کے لئے ملزمان کو سزا دینا ضروری سمجھا۔ انسداددہشت گردی کی ایک عدالت سے سزادلوانا کون سا بڑا کام ہے۔شواہد بے بنیاد تھے تو کیا ہوا، سزا تو دینی ہی تھی، دے دی۔ افضل گرو پر الزام کیا تھا؟یہ بھی واضح نہیں ہے۔ بھارتی پارلیمان پر 31 دسمبر 2001ء کو ایک حملہ کیا گیا۔ پانچوں حملہ آور حفاظتی عملہ کے ساتھ مقابلے میں ہلاک ہوگئے، آٹھ سیکورٹی اہلکار اور ایک مالی بھی ہلاک ہوا۔ پانچوں حملہ آوروں کے صرف نام معلوم ہوسکے۔ کہا گیانام گرو نے بتائے۔ بس ان کے بارے میں اتنا ہی پتہ ہے اور اگر کچھ اور پتہ تھا تو بھارتیہ جنتا پارٹی کے رہنما اور اُس وقت کے وزیرداخلہ ایڈوانی کو ”وہ پاکستانی لگ رہے تھے“۔ ارون دھتی اس بیان پر یقین نہیں کرتیں، وہ اس کا مضحکہ اڑاتی ہیں،”انہیں ہی پتہ ہو گا پاکستانی کیسے لگتے ہیں،وہ خود سندھی ہیں“۔
افضل گرو کو پارلیمان پر حملے کا ماسٹر مائنڈ بتایا گیا تھا مگر دہلی پولیس نے پہلے جسے ماسٹر مائنڈ کہا تھا وہ تو عدالت سے بری ہو گیا۔ پولیس نے دعویٰ کیا تھاپارلیمان پر حملے کا معمہ حل ہوگیا۔ دہلی یونیورسٹی کے پروفیسر ایس اے آر گیلانی بڑے شور شرابے کے ساتھ گرفتار کئے گئے تھے۔ گرفتاری کے وقت بھارتی ذرائع ابلاغ نے خوب خوب سرخیاں جمائیں، پروفیسر کو ڈون کہا، دہشت گردوں کو تربیت دینے والا، فدائین کا رہنما اور وہ سب کچھ جو بھارتی ذرائع ابلاغ ایسی کسی بھی صورتحال میں کہتے رہتے ہیں۔ (کاش وہاں کے ڈراموں کے بجائے ہم ان کی خبریں دیکھ سکتے تو اصل چہرہ ہمارے سامنے آتا)۔یہ ’ماسٹر مائنڈ ‘بری کردیا گیا۔ ان پر کوئی جرم ثابت نہیں ہوا، پولیس کے دعو ے دھرے کے دھرے رہ گئے۔ افضل گرو کو پولیس نے سری نگر کی سبزی منڈی سے گرفتار کرنے کا دعویٰ کیا۔ اس کاسراغ کس نے دیا؟ پولیس کے بقول پروفیسر گیلانی نے! وہی جو ماسٹر مائنڈ تھا حملے کا، وہی جسے ہائی کورٹ نے بری کردیا اور جس فیصلے کو سپریم کورٹ نے برقرار بھی رکھا۔حقیقت عدالت کے ریکارڈ میں ہے، پروفیسر گیلانی کو گرفتار کرنے سے پہلے ہی گرو کی گرفتاری کے احکامات جاری کر دیئے گئے تھے، باقی سب کہانیاں ہیں۔ بھارتی پولیس شواہد اسی طرح جمع کرتی ہے۔ بھارتی ہائی کورٹ نے ان شہادتوں کو مسترد کردیا”یہ تضادات سے بھری ہوئی ہیں“۔ مگر بس، عدالت نے اس سے آگے جانے کی ضرورت محسوس نہیں کی،تضادات سے پُر شہادتوں کو مسترد کرنا تو کجا، ان کی بنیاد پر سزا سنا دی۔ ہائی کورٹ اور سپریم کورٹ میں جب مقدمہ سنا جارہا تھا تو گرو کے پاس وکیل تھا نہ اس کی شنوائی ہوئی۔ عدالت نے ایک جونیئر وکیل اسے دیا تھا۔ اس وکیل نے جیل میں ایک مرتبہ بھی گرو سے ملاقات نہیں کی، اس نے صفائی کا کوئی گواہ پیش نہیں کیا، استغاثہ کے کسی گواہ پر جرح نہیں کی۔ جج بھی کوئی مدد کرنے سے قاصر رہا۔ مقدمہ میں جان نہیں تھی، شروع ہی سے۔ شواہد کی کوئی بنیاد نہیں تھی۔ کہا گیا افضل گرو کی گرفتاری کے وقت اس کے پاس سے ایک لیپ ٹاپ اور ایک موبائل فون برآمد کیا گیا۔ انہیں سیل بھی نہیں کیا گیا، جو کہ ضروری ہوتا ہے۔لیپ ٹاپ برآمدگی کے بعد بھی استعمال ہوا، شواہد نے عدالت میں یہ ثابت کیا اور اس لیپ ٹاپ میں کیا تھا ؟ صرف پارلیمان میں داخلے کے جعلی پاس اور جعلی شناختی کارڈ۔ باقی سب کچھ افضل گرو نے لیپ ٹاپ سے نکال دیا تھا، دہلی پولیس تو یہی کہتی ہے یعنی گرو نے لیپ ٹاپ میں صرف اپنے خلاف ’واضح‘ شہادتیں رہنے دیں اور موبائل فون میں استعمال کی گئی سم؟ پولیس کے ایک گواہ نے دعویٰ کیا کہ اس نے افضل گرو کو یہ سم4دسمبر 2001ء کو فروخت کی تھی مگر سم کاریکارڈ کہتا ہے کہ اسے 6 نومبر سے استعمال کیا جارہا تھا۔ رائے کہتی ہیں اسی طرح کے بے بنیاد شواہد کا ڈھیر تھا جو عدالتوں کے سامنے رکھا گیا۔ عدالتوں کو اس کا اندازہ بھی ہو گیا تھا مگر پولیس کو صرف معمولی سرزنش کی گئی۔ فیصلہ انہی بے بنیاد شہادتوں پر ہوا۔تین مرتبہ عمر قید اوردو مرتبہ پھانسی۔
پھانسی گرو کو دے دی گئی، بھارت کا اجتماعی شعور مطمئن ہوگیا۔ اسے اور بھی اطمینان ہوا ہوگا یہ جان کر کہ گرو کے خاندان والوں کو پھانسی کی اطلاع بھی نہیں دی گئی۔ خاندان والوں کی آخری ملاقات بھی نہیں کرائی گئی۔ وہ جن کا پیارا تھا انہیں اس کا کفن دفن بھی نہیں کرنے دیا گیا۔ تہاڑ جیل میں جہاں اس نے گیارہ برس گزارے اسے سپردخاک کردیا گیا، ہو سکتا ہے اسے وہیں ایک اور کشمیری رہنما مقبول بٹ کے پہلو میں جگہ ملی ہو۔ بھارتی مقبوضہ کشمیرکے وزیراعلیٰ عمر عبداللہ تک کو پھانسی کی اطلاع نہیں دی گئی۔ انہیں تو جمعہ کی صبح اطلاع ملی جب گرو کو پھانسی دیئے کئی گھنٹے گزرگئے تھے۔ جدید ٹیکنالوجی کے اس دور میں بھارتی اہلکاروں نے ”اسپیڈ پوسٹ“(پتہ نہیں یہ کیا ہوتی ہے؟) کے ذریعے گرو کے گھر والوں کو اطلاع دینے کا دعویٰ کیا۔ عمر عبداللہ نے بس یہ کہا ” اس سے لگتا ہے سسٹم میں کوئی خرابی ہے“۔
گرو پھانسی چڑھ گیا، وہ غاصب فوج کے ہاتھوں مارے گئے ہزاروں کشمیری شہیدوں میں شامل ہوگیا۔ بھارت میں فہم و فراست رکھنے والی چند آوازوں نے اس پر احتجاج کیا۔ یہ آوازیں گو صدا بہ صحرا ثابت ہوتی ہیں مگر ہیں تو۔ یہاں ، اپنے ہاں ،انسانی حقوق کی پاسداری کی دعویدار تنظیمیں کہاں ہیں؟ کسی جانب سے کوئی آواز سنائی نہیں دی، کسی نے نہیں کہا جو ہوا غلط ہوا، انصاف کا خون ہوا، انسانی حقوق پامال ہوئے۔ ان میں سے کوئی تو بولتا، ویسے تو بہت واویلا کرتے ہیں مگر شایدان کے اپنے ایجنڈے ہیں، انہیں مظلوموں سے کیا ہمدردی۔گرو کی موت مگر کیا کشمیر کی آزادی کی جدوجہد ختم کر دے گی؟ یہ ممکن نہیں ۔ وہاں نوّے ہزار لوگ شہید ہو چکے ہیں، جدوجہد مگر جاری ہے۔ گرو کی موت آزادی کی اس خواہش کو مہمیز دے گی۔ یہ جدوجہد آزادی کے حصول تک جاری رہے گی۔ یہ خون خاک نشیناں ضرور ہے، رائیگاں نہیں جائے گا۔
تازہ ترین