• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن
زندگی کے کیلنڈر پر سارے لمحے، سارے دن اور سارے سال ایک جیسے لگتے ہیں مگر وہ ہوتے مختلف ہیں۔ ان سے جڑی یادیں اور واقعات ذہن کی اسکرین پر اپنے نشانات ہمیشہ کے لئے چھوڑ دیتے ہیں۔ خوشگوار احساس سے بھری ہوئی اور اداس کر دینے والی یادیں۔ مگر کچھ واقعات ایسے بھی ہوتے ہیں جن کے ساتھ اذیتوں کی داستانیں وابستہ ہوتی ہیں۔ 11 فروری 1983ء بھی ایک ایسا ہی دن تھا جب ضیاء الحق دور کے جبری قوانین کے پاسداروں نے وحشت و بربریت کا ایسا مظاہرہ کیا جس کے باعث پوری دنیا میں پاکستان کو جگ ہنسائی کا سامنا کرنا پڑا، کیونکہ یہ واقعہ ایک ایسی حکومت کے دور میں وقوع پذیر ہوا جس کا طرہٴ امتیاز اسلامی نظام کا نفاذ تھا۔ ضیاء الحق کا دور انسانی حقوق اور پاکستانی معاشرے و ریاست کے حوالے سے تاریک ترین دور تھا جب سرکاری طور پر لوگوں کو ایمان اور نیکی کی اسناد تقسیم کرنے کی رسم عام ہوئی۔ باقاعدہ منصوبے کے تحت فرقہ پرستی کو ہوا دی گئی ورنہ اس سے پہلے یہاں کے لوگ فرقوں پر یقین تو رکھتے تھے مگر معاشرے کی جاہلانہ اور متعصبانہ تقسیم کے قائل نہیں تھے۔ ان کے معاشرتی اور تہذیبی رویوں میں رواداری اور باہمی ہم آہنگی موجود تھی اور وہ سب انسانیت کی لڑی میں پروئے ہوئے تھے۔ یوں تو سبھی آمروں نے اپنے اقتدار کی خاطر قوم کو سماجی، ثقافتی اور لسانی حوالوں سے تقسیم اور کنفیوژ کرنے کا فریضہ اپنے ذمہ لیا لیکن اس عہد میں ستم ظریفی یہ ہوئی کہ یہ کام اسلام کے مقدس نام پر کیا گیا۔ یوں ضیاء الحق نے ایک ایسی نہ ختم ہونے والی جنگ کا آغاز کیا جس کا فکر سے کوئی تعلق نہیں تھا لیکن تقسیم در تقسیم کے عمل سے گزرتے ہوئے لوگوں کی فکر کا دائرہ ضرور محدود ہوتا گیا اور یوں ایک لبرل معاشرے کی فضا کو تنگ نظری، رجعت پسندی اور بنیاد پرستی کے حوالے کر دیا گیا۔
ضیاء الحق دور کی اس بنیاد پرستی کا پہلا شکار حقیقی مذہبی اقدار اور دوسرا عورت تھی۔ اس نے انسانیت کے مذہب کو ایک قوم تک محدود کرنے کی کوشش کی اور عورت، جو اسلام کے اولین دور میں ہر قسم کی معاشرتی اور معاشی سرگرمیوں حتیٰ کہ جنگوں تک میں بھی حصہ لیتی تھی، کو چادر اور چار دیواری کے حوالے کر کے بطور انسان نہ صرف اس کی صلاحیتوں سے انکار کیا بلکہ چند ملّاؤں سے حرفِ شاباش اور اپنے خود ساختہ نظامِ اسلام پر سند ِ توثیق حاصل کرنے کے لئے اس کے لئے ایسے امتیازی قوانین بنائے جن کی توجیہہ دینی حوالے سے بھی موجود نہیں تھی۔ حدود آرڈیننس، زیادتی کیس، آدھی گواہی اور جائیداد میں اس کے حصے کے حوالے سے ضیاء الحق کے چاہنے والوں نے اسلام کی خود ساختہ تعبیر کر کے کچھ ایسے قوانین منظور کروا لئے جن سے عورت کی حیثیت بطور صاحب ِ فکر اور آزاد انسان سے ختم کر کے ایک ادنیٰ کنیز اور لونڈی بنانے کی عملی کوشش شروع ہو گئی۔ ان قوانین میں ہر حوالے سے مرد کی فوقیت برقرار رکھتے ہوئے اسے بہت سی رعایات بلکہ بعض معاملات میں تو کھلی چھٹی دے دی گئی۔ مثلاً اندھی لڑکی کے ساتھ زیادتی کے معاملے کے حوالے سے یہ نقطہ ٴ نظر اپنایا گیا کہ وہ خود بتائے کہ اس کے ساتھ کس نے زیادتی کی بصورت دیگر اس کیس کا کوئی اور حل موجود نہیں۔ اسی طرح کی بے شمار بیہودگیاں سامنے لائی گئیں جن کے پسِ پشت یہ مقصد تھا کہ عورت اپنی عزت کی خاطر زیادتیاں برداشت کرنے اور خاموش رہنے پر مجبور ہو جائے گی کیونکہ اپنے حق کی خاطر لڑنے کے لئے اس کے پاس کسی مضبوط قانون کا سہارا نہیں تھا۔ ان قوانین کو دیکھ کر ہر صاحب ِ شعور انسان حیران اور پریشان تھا مگر جیسا کہ ہمارے معاشرے کا مزاج ہے ہم چیزوں کو ناپسند کرتے ہوئے بھی خاموش رہنے پر اکتفا کرتے ہیں اور اجتماعی معاملات کو اس لئے زیادہ اہمیت نہیں دیتے کہ یہ کون سا ہمارا ذاتی معاملہ ہے لیکن معاشرے میں کچھ خواتین اور مرد ایسے بھی تھے جن کی سرشت میں جبر، ظلم اور ناانصافی کو برداشت کرنا شامل نہیں ہوتا وہ ان امتیازی قوانین کے خلاف اٹھ کھڑے ہوئے۔
11 فروری 1983ء کو لاہور کے معروف علاقے ریگل چوک پر احتجاجی مظاہرہ کیا گیا۔ بنیادی طور پر یہ خواتین کا جلوس تھا مگر اس میں کچھ ممتاز مرد شخصیات بھی موجود تھیں مثلاً حبیب جالب وغیرہ۔ اس مظاہرے میں کشور ناہید، دیپ، مدیحہ گوہر سمیت لکھنے پڑھنے والے، فن سے محبت رکھنے والے اور روشنی کی راہ پر چلنے والے ایسے پُرامن لوگ شامل تھے جو صرف اپنا احتجاج ریکارڈ کرانا چاہتے تھے۔ ان کے نعروں سے کسی قسم کا بگاڑ پیدا ہونے کی کوئی صورت موجود نہیں تھی مگر آمر خود کو عقلِ کل اور مختارِ کل سمجھتے ہوئے ذرا سی مخالف آواز میں بھی اپنے لئے خطرہ محسوس کرتے ہوئے اس کا قلع قمع کرنے کی راہ اپناتا ہے۔ ان نہتے لوگوں پر پولیس نے ڈنڈے برسائے، عورتوں کے دوپٹے اور چادریں کھینچی گئیں، انہیں بالوں سے پکڑ کر گھسیٹا گیا اور انہیں فحش گالیاں دی گئیں۔ بہت سی خواتین زخمی ہوئیں، کئی کے سر پھٹے اور کچھ کے گریباں چاک ہوئے۔ تاریخ شرمندہ ہوئی مگر وقت کے حکمرانوں نے یہیں بس نہ کیا بلکہ ان لوگوں کو گرفتار کر کے اپنی بربریت کا اعلان کیا۔ حبیب جالب نے اس وحشیانہ تشدد اور مار کٹائی کے ردعمل میں جس کا وہ خود بھی شکار ہوئے ”پٹے سڑک کے بیچ“ والی مشہور زمانہ نظم لکھی۔
وقت ایک جیسا نہیں رہتا لیکن تاریخ اپنا رخ بدلنے میں کافی وقت لیتی ہے۔ رویّے تھوپے گئے ہوں یا نظریات کے انجکشن سے حالات کو اپنی مرضی کے مطابق ڈھالا گیا ہو ان کے اثرات طویل مدت تک باقی رہتے ہیں اور رجعت پسند ذہنوں میں تو اس طرح کے قوانین نہ صرف ہمیشہ کے لئے محفوظ ہو جاتے ہیں بلکہ راہِ عمل بن جاتے ہیں۔ شاید یہی وجہ ہے کہ اس کے بعد کئی دفعہ جمہوری حکومتیں قائم ہوئیں مگر ان قوانین کے محافظ بھی سامنے آتے رہے۔ ان قوانین میں سے کچھ شقیں آج کے جمہوری اقدام میں کالعدم قرار دی جا چکی ہیں تاہم ضیاء الحق کے عہد تاریک میں جبری طور پر نافذ کئے گئے امتیازی قوانین کا بیشتر حصہ ابھی تک پاکستانی قانون کا حصہ ہے اور یہ توقع کی جانی چاہئے کہ آئندہ منتخب ہو کر آنے والی حکومت اور پارلیمان پاکستانی معاشرے کے ماتھے پر لگا ہوا یہ داغ دھونے میں ضرور کامیاب ہو جائے گی کیونکہ جب تک عورت کو فرد کی حیثیت سے تسلیم نہیں کیا جائے گا معاشرہ سماجی، معاشرتی اور معاشی حوالے سے ترقی کے رستے پر گامزن نہیں ہو سکے گا۔ خدا کرے میرے وطن میں دوبارہ کبھی 11 فروری 1983ء جیسا دن طلوع نہ ہو جو ماؤں، بہنوں اور بیٹیوں کی تذلیل سے تاریخ کا سیاہ دن ٹھہرے۔
تازہ ترین