• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

اقوام متحدہ کی انسانی حقوق کونسل کی جانب سے منگل کے روز جاری کیا گیا مشترکہ بیان پاکستان، کشمیری عوام اور کرہ ارض میں پائیدار امن کے خواہاں تمام حلقوں کے لئے خاصی حد تک حوصلہ افزا ہے۔ مقبوضہ کشمیر کو اضافی فوجی نفری، مسلسل کرفیو اور تاریخ کے بدترین محاصرے کا شکار بناکر وہاں کے عوام پر ظلم و ستم کے جو پہاڑ توڑے جارہے ہیں ان کے منظر نامے میں 58ملکوں نے بھارت سے پانچ مطالبات کئے ہیں۔ پاکستان کے وزیر خارجہ شاہ محمود قریشی کشمیری عوام کا مقدمہ پیش کرنے کے لئے انسانی حقوق کی کونسل میں گئے تھے۔ منگل کے اجلاس کے بعد میڈیا کو ان کی طرف سے دی گئی بریفنگ سے ظاہر ہوتا ہے کہ مذکورہ مشترکہ بیان کو اس اعتبار سے کرہ ارض کی غالب اکثریت کے ضمیر کی آواز سمجھا جاسکتا ہے کہ اس بیان کی حتمی تیاری اور منظوری میں کردار ادا کرنے والے ممالک دنیا کے مختلف خطوں سے تعلق رکھتے ہیں۔ تاہم مبصرین کی بڑی تعداد منتظر ہے اس بات کی کہ ادارہ اقوام متحدہ کی فیصلہ ساز قوتوں کی جانب سے عملی اقدامات کی صورت میں کیا پیش رفت سامنے آتی ہے۔ مشترکہ بیان میں بھارت سے کہا گیا ہے کہ وہ کشمیریوں سے جینے کا حق نہ چھینے، کشمیریوں کی آزادی و سیکورٹی کو متاثر نہ کرے اور مقبوضہ کشمیر سے فوری طور پر کرفیو اٹھائے۔ دیگر مطالبات میں نئی دہلی پر زور دیا گیا ہے کہ وہ ذرائع مواصلات پر پابندی ختم کرے، سیاسی قیدیوں کو فی الفور رہا کرے، کشمیر میں بے تحاشا اور بے جا طاقت کا استعمال اور جبر فوری طور پر ختم کرے۔پانچویں مطالبے میں انسانی حقوق کی تنظیموں اور عالمی میڈیا کو مقبوضہ کشمیر میں رسائی دینے کی بات کہی گئی ہے۔ وزیر خارجہ شاہ محمود قریشی نے منگل 10ستمبر 2019کے دن کو، جب اس بیان کے لئے 58ملکوں کی حمایت سامنے آئی، پاکستان اور مقبوضہ کشمیر کے عوام کے لئے بڑی کامیابی کا دن قرار دیا۔ اس ضمن میں یہ تذکرہ غیرضروری نہ ہوگا کہ بھارت نے انسانی حقوق کونسل کا مذکورہ بیان رکوانے کے لئے ہر طرح کے جتن کئے جن میں ارکان کے درمیان پمفلٹوں کی تقسیم اور دیگر حربوں کے ذریعے یہ باور کرانے کی کوشش شامل تھی کہ مقبوضہ کشمیر کی صورتحال نہ صرف بھارت کا اندرونی معاملہ ہے بلکہ وہاں کوئی غیرمعمولی کیفیت نہیں۔ اسی لئے پاکستان کے وزیر خارجہ کو کہنا پڑا کہ یہ بھارت کا اندرونی معاملہ ہرگز نہیں، اگر مقبوضہ کشمیر میں حالات نارمل ہیں تو وہاںسے کرفیو اٹھانے میں تامل کیوں؟ پاکستان کی جانب سے ایک درست سفارتی قدم اقوام متحدہ کی انسانی حقوق کونسل میں مقبوضہ کشمیر کے عوام پر وحشیانہ مظالم کے حوالے سے 115صفحات پر مشتمل ڈوزیئر کا پیش کیا جانا ہے جس میں بھارتی بربریت کے شکار لوگوں کے نام اور دیگر معلومات تصاویر کے ساتھ شامل ہیں۔ 10ستمبر کو اقوام متحدہ کی حقوقِ انسانی کونسل کے مشترکہ بیان سے قبل 9ستمبر کو نیویارک میں عالمی انسانی حقوق کمیشن کے اجلاس میں مذکورہ کمیشن کی سربراہ مشیل باشیلے کی تقریر کو دیکھا جائے، امریکی سینیٹر بین کارڈن اور رکن کانگریس جوڈی شو کے ردعمل کو سامنے رکھا جائے، خود بھارت سے آنے والی بعض آوازوں اور دنیا بھر میں کئے گئے مظاہروں کی روح کو سمجھا جائے تو ممکنہ انسانی المیے سے بچنے کی ضرورت واضح ہوتی ہے۔ جہاں تک پاکستان کا تعلق ہے وہ کشمیری عوام کا ساتھ ہر صورت نبھانے کا عزم رکھتا ہے مگر بھارت کے جارحانہ تیور دیکھتے ہوئے یہ کہنا غلط نہ ہوگا کہ ایٹمی طاقتوں کی چپقلش نظرانداز کرنے کی غلطی کرہ ارض کے لئے سنگین خدشات کا پہلو رکھتی ہے۔ اس لئے عالمی برادری کو اپنا کردار ادا کرنے میں تاخیر نہیں کرنی چاہئے۔ اقوام متحدہ کی قراردادوں کے مطابق مسئلہ کشمیر کا جلد حل ہونا جنوبی ایشیا ہی نہیں، پوری دنیا کے مفاد میں ہے۔

تازہ ترین