• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

وزیراعظم عمران خان کی زیرقیادت تحریک انصاف کی حکومت کا ایک سال مکمل ہوگیا ہے، میں نے گزشتہ برس دواگست کو شائع کردہ روزنامہ جنگ میں اپنے کالم بعنوان" عمران خان ، ہمت مرداں مدد خدا!" میںنومنتخب وزیراعظم کیلئے نیک خواہشات کا اظہار کیا تھا، میرا کہنا تھا کہ خان صاحب کی زیرقیادت تحریکِ انصاف نے اپنے آپ کو واحد قومی سیاسی جماعت ثابت کردیا ہے، اس بے مثال کامیابی کے پیچھے بلاشبہ عمران خان کی انتھک محنت، خدا پر یقین، عوام کا اعتماد اور سب سے بڑھ کر پاکستان تحریک انصاف کے چھتری تلے ایک کثیر الجہتی ٹیم کی موجودگی ہے۔ میں سمجھتا ہوں کہ لوگ وزیراعظم عمران خان کی کرشماتی شخصیت سے پیار کرتے تھے اور آج بھی کرتے ہیں لیکن اس امر کا تعین کرنا بھی بہت ضروری ہے کہ تحریک انصاف برسراقتدار آنے کے بعد عوام کی امنگوں پر پورا اترنے میں کتنا کامیاب ہوسکی ہے ؟ملک کو کرپشن سے پاک اور معاشی بحران سے نجات دلانے کیلئے کسی کو وزیراعظم صاحب کے عزم پر شک نہیں لیکن گزشتہ ایک برس کی کارگزاری بہت سے سوالیہ نشان ہیں ، سب سے بڑا مسئلہ ماضی کی حکومتوں کی باقیات ہے جو آج بھی مختلف سرکاری محکموں میں نہایت ڈھٹائی سے عوام کو تنگ کرنے میں مصروف ہے، لوگوں نے تبدیلی کے نام پر ووٹ دیئے تھے تو انکا حق ہے کہ انہیںسماج میں مثبت تبدیلی نظر آئے ۔ رحیم یار خان سے راولپنڈی تک پولیس تشدد کے نت نئے ظالمانہ واقعات موجودہ حکومت کی بے بسی عیاں کرتے ہیں، عوام اس سوال کا جواب جاننا چاہتی ہے کہ اگر پی ٹی آئی صوبائی حکومت میں ہوتے ہوئے خیبرپختونخوا میں آئی جی ناصر درانی کی قیادت میں شاندارانداز میں پولیس اصلاحات نافذکرسکتی ہے تو آج پی ٹی آئی وفاق اور پنجاب میں پولیس کے سامنے کیوں بے بس ہے؟ ابھی ایک خبر میرے سامنے سے گزری ہے کہ آئی جی پنجاب نے صوبے بھر کے تھانوں میں کیمرے والے اسمارٹ فون لے جانے پر پابندی عائد کردی ہے،یعنی کہ پولیس کے اعلیٰ حکام تھانہ تشدد کلچر سے چھٹکارا نہیں پاناچاہتے بلکہ واقعات منظرعام پر آنے سے روکنے میں زیادہ سنجیدہ ہیں۔میں نے وزیراعظم عمران خان کو امریکی دورے کے بعدماضی کے دوطرفہ تعلقات کو مدنظر رکھتے ہوئے خبردار کیا تھا کہ محتاط رویہ اپنایا جائے، چند دنوں بعد مقبوضہ کشمیر میں بھارتی جارحیت، ایک ماہ سے زائد کرفیو،عالمی برادری کی خاموشی،کشمیر یکجہتی کے نام پر آدھ گھنٹہ کھڑا رہنے کے باوجود کشمیریوں کے دکھ درد کا مداوانہ ہونا تشویشناک ہے۔ ایک عام آدمی کیلئے زندگی روز بروز مشکل ہوتی جارہی ہے تو دوسری طرف208 ارب کے قرضے معاف کرنے کیلئے آرڈیننس کا اجراء جبکہ میڈیا کے دباؤ پر واپسی کی وجوہات پر تبصرہ کرنے کیلئے کسی کے پاس کوئی جواز نہیں۔ برصغیر کے عظیم قدیمی فلسفی کوٹلیا چانکیہ جی کا کہنا تھا کہ کوئی بھی فیصلہ کرنے سے پہلے سو بار سوچو لیکن جب فیصلہ کرلو تو پھر نفاذ کیلئے جُت جاؤ۔ماضی کی حکومتیں جو بیرونی قرضوں کے عوض ملک کو گروی رکھتی تھیں،کیا آج ان میں اور پی ٹی آئی حکومت میں کوئی فرق تلاش کیا جاسکتا ہے ؟ ایسے تمام ناپسندیدہ واقعات کا تسلسل بلاشبہ ماضی کی حکومتوں اور پالیسیوں کی وجہ سےہے، میں مانتا ہوں کہ ایک سال کا دورانیہ سب کچھ صحیح نہیں کرسکتا لیکن درست سمت کا تعین ضرور کرسکتا ہے۔ وزیراعظم صاحب سے محبت کرنے والوں کی کمی نہیں، نہ صرف پاکستان بلکہ بیرون ملک مقیم پاکستانی بھی ملک و قوم کی بھلائی کی خاطر تحریک انصاف کی بھرپور حمایت کرنا اپنا فرض سمجھتے ہیں لیکن محسوس یہ ہوتا ہے کہ وزیر اعظم صاحب کو کچھ خوشامدی گھیرنے میں کامیاب ہوگئے ہیں جو ماضی کے حکمرانوں کا بھی دھڑن تختہ کرچکے ہیں، یہ صرف اپنے ذاتی مفاد کی خاطر سب اچھاکی رپورٹ دینا اپنا فرض اولین سمجھتے ہیں اوربتدریج ملک و قوم کو تباہی کی جانب گامزن کردیتے ہیں۔سانحہ ساہیوال کے بعد وزیراعظم صاحب نے خود ٹویٹ کرکے عوام سے وعدہ کیا تھا کہ دورہ قطر سے واپسی کے بعد ذمہ داران کے خلاف ایکشن لیا جائے گالیکن عملی طور پر ایسا کچھ نہیں ہوسکا، میں سمجھتا ہوں کہ روز انہ کی بنیادوں پر رونماء ہونے والے منفی واقعات پی ٹی آئی کی ساری نیک نامی پر پانی پھر رہے ہیں۔موجودہ صورتحال میں یہ بھی سوال اٹھتا ہے کہ آج تمام تر مشکلات کے باوجود عوام پی ٹی آئی کی حمایت کررہے ہیں لیکن آخر کب تک ؟ بطور وزیراعظم عمران کے خیرخواہ، پی ٹی آئی کے کارکن اور سب سے بڑھ کر محب وطن پاکستانی شہری میں یہ بتلانا چاہتا ہوں کہ ہوشربا مہنگائی اور پولیس مظالم سے ستائے عوام کا پیمانہ صبر لبریز ہونے کا اندیشہ ہے،اسی طرح محب وطن غیرمسلم اقلیتوں کو قربانیاں دینے کے باوجو د مسلسل نظرانداز کیا جارہا ہے۔ ایک کہاوت ہے کہ نادان دوست سے عقلمند دشمن اچھا ہے۔ وقت آگیا ہے کہ وزیراعظم صاحب ہر شعبے کے قابل ترین افراد کی ٹیم بنانے پر توجہ دیں، اس وقت ملک و قوم کو درپیش بحرانوں سے نکالنے کیلئے دانشمندانہ پالیسی بنانے کی ضرورت ہے،وفاقی کابینہ میں اندرونی اختلافات کو ختم کرکے دھڑے بندی کی سیاست کی حوصلہ شکنی کی جائے،میرے جیسے مخلص ورکروں کی تنقید کو برائے اصلاح مثبت انداز میں لیا جائے، اس حوالے سے میں نے کچھ دن قبل وزیراعظم عمران خان کو ایک خط بھی لکھا ہے کہ پی ٹی آئی کے انتخابی منشور کے عملی نفاذ کیلئے رائٹ پرسن ایٹ رائٹ پلیس کو اولین ترجیح دی جائے۔ آج بھی پوری قوم کو وزیر اعظم عمران خان کی کرشماتی شخصیت پرفخر ہے لیکن وزیراعظم صاحب بھی اپنے چاہنے والوں کی توقعات پر پورا اترنےکی کوشش کریں کیونکہ گزشتہ سات دہائیوں کے عوامی مسائل بہت زیادہ ہیں اور حل کیلئے وقت بہت کم۔

(کالم نگار کے نام کیساتھ ایس ایم ایس اور واٹس ایپ رائےدیں00923004647998)

تازہ ترین