• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن
فکر فردا … راجہ اکبردادخان
پاکستان اندرونی سیاست کے بحران سے کم و بیش36ماہ سے گزر رہا ہے۔ 2018ء کے عام انتخابات سے قبل ہی پی ٹی آئی اور دوسری دونوں بڑی جماعتوں کے درمیان اختلافات کا دائرہ اتنا بڑھ چکا تھا کہ اگر عدالتوں سے مخالفین میں سے کسی کو بھی ذرا سی ریلیف ملتی تو سپریم کورٹ کے باہر (ن) اور پی ٹی آئی ترجمانوں کے درمیان میدان سج جاتے کہ دیکھتے ہیں کون آج شام کی ہیڈ لائنز میں بازی لے جاتا ہے۔ حکومت بھی (ن) والوں کی تھی اور اعلیٰ ترین سطح پہ محاسبہ بھی ان کا ہی ہورہا تھا۔ملک کی اعلیٰ عدلیہ کے تمام فیصلوں کو تسلیم کرنا جہاں قانونی ضرورت ہے، وہاں معاشرتی اور اخلاقی اقدار بھی یہی تقاضہ کرتی ہے۔ عدالتی احکامات کو جس طرح ہیڈ لائنز بناکر دنیا کے سامنے ذرائع ابلاغ کے ذریعہ پہنچایا گیا، اس طرز عمل نے دو طریقوں سے مسلم لیگ (ن) کو نقصان پہنچایا۔ پہلے یہ ہوا کہ متعلقین کے قانونی معاملات روزانہ کی سیاست کے رنگ میں ڈھل گئے اور دوسرا یہ کہ ترجمانوں کی اکثریت وہ ماحول پیدا کرنے میں مصروف نظر آئی جس سے صاف نظر آتا رہا کہ وہ تمام صورت حال کو پمپ اپ کرکے متعلقہ خاندان کے افراد سے وہ کچھ کہلواتے رہے جو ان کے مفاد میں نہ تھا۔ بسااوقات جماعتی ترجمان دوسروں کیلئے موافق حالات پیدا کرنے میں پرجوش نظر آئے، تاکہ متعلقین سے وہ کچھ کہلوایا جائے جو انہیں زیادہ سے زیادہ نقصان پہنچا سکے اور ایسا ہی ہوا، جس طرح اس وقت کی مسلم لیگی قیادت پہ مشکل وقت تھا، انہیں معاملات پہ کم سے کم بولنا چاہیے تھا۔ ان کی اس کوشش نے، جہاں وہ سیاسی خمار سے عدالتی معاملات سے نمٹنے کی کوشش کررہے تھے نے سیاست میں نفرت اور عدم برداشت کو مزید فروغ دیا، اس کے اثرات آج بھی ملکی سیاست میں موجود ہیں۔ پی ٹی آئی بھی جواب در جواب دینے میں کبھی پیچھے نہ رہی، مگر وہ اپوزیشن تھے، پی ٹی آئی کے کئی اجتماعات پہ (ن) حکومت کے دورانیہ کے دوران فائرنگ کے واقعات2013ء کے عام انتخابات کے نتیجہ میں پیدا ہونے والی ذہنی تقسیم جس میں اکائیوں کی جداگانہ حیثیت زیادہ واضح ہوئی اور پچھلی حکومت کے آخری سالوں کے کئی فیصلوں سے2018ء کے انتخابات متاثر ہوئے، جس کے نتیجہ میں مرکز کمزور ہوا، مثلاً آٹھویں ترمیم جب تک ملک میں موجود اعلیٰ عدالتی نظام جس سے حزب اختلاف کی دونوں بڑی جماعتوں کو شکایات ہیں، تبدیل نہیں ہوجاتا، ہر کسی کو عدالتی فیصلے ماننے پڑیں گے۔ جمہوریت جس کا اپوزیشن ڈھنڈورا پیٹتی ہے، یہ بھی یہی تقاضہ کرتی ہے اور مستقبل سے بہتری کی امیدیں رکھی جائیں۔ بھارت کے ساتھ تعلقات کی حالیہ تاریخ زیادہ روشن نہیں، جب سے عمران خان نے حکومت سنبھالی ہے، ہمارے بھارتی ہمسایہ نے کئی ایسے اقدامات اٹھائے ہیں جیسا کہ مقبوضہ کشمیر کی تحریک آزادی کو کچلنے کیلئے مزید بھارتی فوج کا آجانا، مظاہرین پہ پیلٹ گنز کا استعمال، گرفتاریوں سے جیلیں بھر دینی، ایک ماہ سے جاری کرفیو کے اقدامات نے یقینی طور پر پاکستان کیلئے سنجیدہ تشویش کا ماحول پیدا کردیا ہے۔ 27فروری کو8بھارتی جنگی طیارے پاکستان میں گھس آئے اور بخریت واپس چلے گئے؟ دوسری ہی صبح ہمارے ہوا بازوں اور بھارتیوں کے درمیان ایک چپقلش میں دو بھارتی پائلٹ گرفتار ہونے کی بات ہوئی، جسے بعد میں کم کرکے صرف ایک پائلٹ گرفتار ہونے کی بات بنادیا گیا۔ ذرائع ابلاغ اور مبصرین کہتے ہیں کہ جس پائلٹ کو گرفتار کرکے بحفاظت اسرائیل پہنچادیا گیا، وہ اسرائیلی شہری ہے۔ ہمارا نیو کلیئر پروگرام صرف چند ایک کو ہی اچھا لگتا ہے، اسے تباہ کرنا یا کسی بین الاقوامی انتظام کے ماتحت لانا دنیا کے کئی دارالخلافوں میں دیر سے زیر بحث ہے۔ اندرون اور بیرون ملک پاکستانی موجودہ جنگ جیسے حالات میں یہی نتیجہ اخذ کرسکتے ہیں کہ اس پائلٹ کی بھارت میں موجودگی کی دو ہی وجوہات ہوسکتی ہیں، ایک یہ کہ اس نے تحریک کی پشت پہ کسی ملک دشمن ٹیم کا حصہ بن کر ہمارے نیو کلیئر ٹھکانے پہ حملہ کرنا تھا، جس کی تیاری کے لئے وہ بھارت میں موجود تھا، کیا اس دن کا فضائی حملہ جس میں اسے گرالیا گیا، ایک ڈرائی رن تھا؟ یا وہ اپنے مطلوبہ ٹارگٹ کو ہٹ نہ کرسکا؟ اور حکومت اسرائیلی مداخلت کو کتنی سنجیدہ سمجھتی ہے؟ ایسے اہم سوالات ہیں جن کے جواب تاحال قوم کو نہیں مل سکے۔ وزیراعظم اکثر چیزوں میں قوم کو اعتماد میں لینے سے گریز نہیں کرتے، اس حوالہ سے بھی انہیں قوم کو اعتماد میں لینا چاہئے۔ دنیا ہمارے احتجاجوں کو محدود اہمیت دینے کے علاوہ کچھ نہیں سمجھتی، حکومت کو کشمیر ایشو پہ حزب اختلاف کو کہیں زیادہ درمیان میں لانے کی ضرورت ہے، ورنہ حکومت کو بھی دنیا اکیلی اور پبلک کے ایک بڑے حصہ سے کٹی ہوئی سمجھتی رہے گی۔ حکومتی بیانات اور ذرائع ابلاغ کے ذریعہ جو بیانیہ ترتیب ہوچکا ہے اور اس میں حزب اختلاف کی عدم موجودگی سے جو سوالات اٹھے ہیں، ان پہ توجہ دینی حکومت کی فوری ذمہ داری ہے، جو حزب اختلاف دفاع پاکستان اور آزادی کشمیر کی خاطر حکومت سے تعاون کرنا چاہئے، وہ سر آنکھوں پہ، پاکستانی سرحدوں اور اہم اثاثہ جات کا تحفظ یقینی بنانا حکومت کی اولین ذمہ داری ہے، حالیہ واقعات نے بہتوں کیلئے تمام صورت حال پہ تشویش پیدا کردی ہے، جسے دور کرنا بھی حکومت کی ذمہ داری ہے۔ دیکھنا ہوگا کہ کشمیر کا کیس لڑتے کہیں پاکستان خود مشکلات میں نہ پھنس جائے؟ جب اس حقیقت سے کسی کو انکار نہیں کہ ملک حالت جنگ میں ہے تو ایسے تمام اقدامات سے گریز ہونا چاہئے جن سے دنیا کو یہ لگے کہ ہماری طرف سے جنگی ماحول پیدا کیا جارہا ہے۔ سفارت کاری پہ زیادہ توجہ کی ضرورت ہے، کیونکہ بالآخر مسئلہ اسی طرح ہی حل ہوگا۔جموں و کشمیر ریاست کے دو اہم حصے ہیں، حکومتی بیانیوں میں ’’جموں‘‘ کا ذکر نہ ہونا بھی کئی سوالات اٹھاتا ہے، جن میں سے ایک یہ ہے کہ کیا ایسا کسی پلان کے تحت کیا جارہا ہے؟ اس ایشو کے ساتھ پاکستانی وابستگی پہ کسی کو شک نہیں ہوسکتا اور اس ایشو کا ایک باعزت حل ہی ایک محفوظ پاکستان کی ضمانت ہے۔ اللہ پاکستان کا حامی و ناصر رہے۔
تازہ ترین