• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

سندھ میں پیپلز پارٹی کی حکومت کے خلاف فارورڈ بلاک بنانے کا سنجیدہ اقدام کیا گیا اور بعض پارٹی ایم این ایز اور ایم پی ایز بھی مصروف رہے اور ان سے رابطہ کیا گیا لیکن چند قانونی پیچدگیوں کے سوا ممکنہ تبدیلی پر کوئی بھی اتفاق رائے نہ ہوسکا۔ ذرائع کا کہنا ہے کہ اس اقدام سے دستبردار نہیں ہوا گیا ہے بلکہ اسے کچھ وقت کیلئے روک لیا گیا ہے۔

ذرائع کے مطابق جی ڈی اے نے دعویٰ کیا ہے کہ ہاں ایک اقدام ہوا تھا جسے بننے والے فارورڈ بلاک اور گرینڈ اپوزیشن الائنس کے بہت سے امیدواروں کے بعد اب روک دیا گیا ہے۔

ایک سخت پیغام دینے کی کوشش میں سندھ میں فارورڈ بلاک کی تشکیل کے حوالے سے خبر کو وزیر اعلیٰ سندھ کے ساتھ ساتھ چند دیگر وزراء اور جن کے خلاف انکوائریاں چل رہی ہیں ان کی ممکنہ گرفتاری کی خبر کے ساتھ لیک کیا گیا ۔

اس طرح کے ایم پی ایز کی تعداد 20 بتائی جاتی ہے لیکن یہ مطلوبہ تعداد کیلئے اب بھی کم ہے۔ جس طرح سے حزب اختلاف کو تحریک عدم اعتماد کے نتیجے پر حیرت کا جھٹکا لگا، ایسا سندھ میں بھی ہوسکتا تھا اگر سنجرانی کو شکست ہوجاتی۔ لہٰذا پارٹی دباؤ میں آگئی جیسا کہ انہیں معلوم تھا کہ وہ سندھ کو کھونا برداشت نہیں کرسکتے ایک ایسے وقت میں جب ان کے خلاف مقدمات اور انکوائریاں بڑھتی جارہی ہیں۔

پیپلز پارٹی کے ایک ایم این اے کا کہنا ہے کہ پی پی کے پاس سندھ اسمبلی میں مناسب اکثریت ہے، جس طرح سے حزب اختلاف کے مشترکا امیدوار حاصل بزنجو کے خلاف پانسہ پلٹا، پی پی کیلئے سندھ میں سرپرائز انتظار کر رہا تھا لیکن آخری منٹ میں ایک معروف پی پی کے ایم این اے کو ابتدائی طور پر ٹاسک دیا گیا اور انہوں نے چند پارٹی ایم این ایز کے ساتھ ملاقاتیں کیں اور انہیں گرفتاری، مجرم ٹھہرانے اور پارٹی کی اعلیٰ قیادت کی ممکنہ نا اہلی سے متعلق آگاہ کیا۔

ایک ماہ قبل مذکورہ ایم این اے نے اپنے ایک قریبی مددگار کے ذریعے اس اقدام کے حوالے سے مجھے ایک پیغام بھیج کر یہ دعویٰ کیا کہ 10 سے 12 کے لگ بھگ ایم پی ایز نے اس اقدام کی حمایت کیلئے مختلف حلقوں کی جانب سے ان پر بڑھتے ہوئے دباؤ پر تشویش سے آگاہ کیا۔

ان میں سے بعض یہ ضمانتیں چاہتے تھے کہ ان کے ہاتھ ملانے کی صورت میں حکومت ختم کردی جائے گی۔

ذرائع کا کہنا ہے کہ اگر چہ سنجرانی کے عہدہ بچالینے کے بعد یہ اقدام کسی حد تک ٹھنڈا پڑ گیا ہے لیکن یہ پوری طرح سے ختم نہیں ہوا۔ اب یہ دیکھنا دلچسپ ہوگا کہ پیپلز پارٹی جے یو آئی ف کے اکتوبر میں آزادی مارچ کی حمایت میں کہاں تک جاتی ہے۔

ذرائع کا کہنا ہے کہ پیپلز پارٹی اس کے لئے بھی انتظار کرے گی کہ ان کے قید رہنماء این آر او کی درخواست کئے بغیر بدلے میں کس قسم کا سکون حاصل کریں گے۔ وفاقی وزیر قانون فروغ نسیم کی جانب سے آرٹیکل 194 (4) بھی اس ابتدائی اقدام سے منسلک ہے۔

تازہ ترین