• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

محمد عارف

اُردو ادب میں طنز و مزاح کو عموماً یکساں معنوں میں لیا اور ایک ساتھ استعمال کیا جاتا ہے، حالانکہ طنز اور مزاح میں فرق ہے۔ دونوں کی اپنی اپنی حدود ہیں لیکن اس کے باوجود اکثر ایک دوسرے کے متوازی بھی چل رہے ہوتے ہیں اور بعض اوقات تو ان کی سرحدیں ایک دوسرے سے ایسے ملی ہوتی ہیں کہ ان کو الگ کرنا دشوار ہو جاتا ہے۔ طنز سے مراد طعنہ، ٹھٹھہ، تمسخر یا رمز کے ساتھ بات کرنا ہے جب کہ مزاح سے خوش طبعی، مذاق یا ظرافت مراد لیا جاتا ہے۔ بقول ڈاکٹر رفیع الدین ہاشمی:

’’عام طور پر ’’طنز‘‘ اور ’’مزاح ‘‘ کے الفاظ کو ملا کر بطور ایک مرکب کے استعمال کیا جاتا ہے مگر یہ دو مختلف المعانی الفاظ ہیں۔ مزاح کے لفظی معنی ہنسی مذاق، جب کہ طنز کے معنی طعنہ یا چھیڑ کے ہیں۔ ‘‘

سیّد ضمیر جعفری کی ایک غزل کے دو اشعار کے ذریعے طنز اور مزاح کے فرق کو بہ خوبی سمجھا جا سکتا ہے۔

آٹھ دس کی آنکھ پھوٹی آٹھ دس کا سر کھلا

لو خطیبِ شہر کی تقریر کا جوہر کھلا

اُن کا دروازہ تھا مجھ سے بھی سوا مشتاقِ دید

میں نے باہر کھولنا چاہا تو وہ اندر کھلا

یہاں پہلا شعر طنز اور دوسرا مزاح کی عمدہ مثال ہے۔

مشہورِ زمانہ مزاح نگار جناب اسٹیفن لی کاک اپنی کتاب "Humour and Humanity” میں مزاح کی تخلیق کے متعلق لکھتے ہیں :

’’مزاح زندگی کی ناہمواریوں کے اس ہمدردانہ شعور کا نام ہے، جس کا فنکارانہ اظہار ہو جائے۔‘‘

مزاح کی اس تعریف کے مطابق ایک مزاح نگار زندگی میں موجود ناہمواریوں کو نہ صرف محسوس کرتا ہے بلکہ تخلیقی سطح پر اس کا اظہار یوں کرتا ہے کہ اس سے ہنسی کو تحریک ملتی ہے۔ طنز اور مزاح میں ایک بڑا فرق یہ بھی ہے کہ ایک مزاح نگار مزاح کا حصہ بن کر اس سے محظوظ ہو رہا ہوتا ہے، جب کہ طنز نگار سارے ماحول سے الگ تھلگ ہو کر اور اپنے آپ کو بچا کر چوٹ کرتا ہے یہی وجہ ہے کہ’’طنز میں ایک گونہ جارحیت اور ایذا کوشی کا عنصر موجود ہوتا ہے اور مزاح میں انسان دوستی کا شائبہ پایا جاتا ہے۔ ‘‘

طنز ایک طرح کی تنقید ہے۔ ادب میں طنز کی اہمیت اس کی مقصدیت کے باعث ہے، اسی لیے اس کی تلخی گوارا کر لی جاتی ہے۔ مقصد کے بغیر طنزو مزاح کی تخلیق ممکن نہیں کہ خالص مزاح سے تو صرف ہنسی، دل لگی یا مذاق وغیرہ کا کام ہی لیا جا سکتا ہے اور یہ مزاح کی عمومی سطح ہوتی ہے۔ اس صورت میں اس کی کوئی واضح سمت نہیں ہوتی مزاح اسی وقت سمت آشنا ہوتا ہے جب اس میں طنز شامل ہو، گویا طنز ہی مزاح کی سمت متعین کرتا ہے۔ ایک مزاح نگار معاشرے میں موجود بُرائیوں اور ناہمواریوں پر اس انداز سے چوٹ کرتا ہے کہ ہنسی کے ساتھ ساتھ ان معاملات پر غور و فکر کی دعوت بھی ملتی ہے۔

’’مزاح کی سطح اس وقت بلند ہوتی ہے جب مزاح نگار ذاتی تنقید سے گزر کر حالات، سماج، معاشرہ، سیاست، واقعات اور ماحول کو اپنی گرفت میں لے لیتا ہے۔ اس سطح پر پہنچ کر مزاح طنز میں تبدیل ہو جاتا ہے اور رکاکت سے گریز کرتے ہوئے انسانی ماحول کا بہترین نقاد بن جاتا ہے۔ ‘‘

مسرت اورعنصرِاستعجاب (Element of Surprise)

مزاح کے دو لازمی اجزا ہیں۔ ایک مزاح نگار اپنی ذہانت اور فطانت سے کسی صورت حال کے وہ پہلو معلوم کر لیتا ہے جو عام شخص کی نظروں سے اوجھل ہوتے ہیں اور ان کا اظہار ایک ایسے موڑ پر کرتا ہے کہ سننے والے کو حیرت اور مسرت محسوس ہوتی ہے۔ یہ سارا عمل انتہائی پیچیدہ اور مشکل ہوتا ہے۔ تاہم ایک مزاح نگار اس کو مہارت سے فطری انداز میں پیش کرتا ہے۔ اسی ضمن میں رشید احمد صدیقی کی یہ رائےملاحظہ کریں۔

’’طنز و ظرافت کا شمار دنیا کے مہلک ترین اسلحہ جات میں ہوتا ہے، اس کے استعمال کا منصب ہر وقت، ہر سپاہی یا پا پیادہ کو نہ ہونا چاہیے، بل کہ سپہ سالار کی خاص اجازت پر اور اس کی براہ راست نگرانی میں اس کو بروئے کار لانا چاہیے ‘‘

طنز و مزاح سے محظوظ ہونے کے لیے انسان میں اس صفت کا ہونا ضروری ہے جو اسے حیوانِ ظریف کے مقام پر فائز کرتی ہے۔ مزاح صرف عیب جوئی، طعن و تشنیع یا فقرے بازی کا نام نہیں،بلکہ ہم آہنگی، تضاد میں امتیاز، نامعقولیت اور ناہمواریوں کو ایسے دل پذیر انداز میں اُجاگر کرنے کا نام ہے کہ سننے والا قائل ہو جائے۔ ڈاکٹر سلیم اختر کے مطابق:

’’ہنسی انسانی جبلتوں میں سے ہے۔ اس جبلت کا اظہار تخلیقی سطح پر ہو تو مزاح جنم لیتا ہے۔ دوسروں کو بھی مزاح کی مسرت میں شریک کرنا مزاح نگار کا اوّلین فریضہ ہوتا ہے۔ ‘‘طنز اور مزاح اکٹھے ہوں یا الگ الگ، ان کی تخلیق اور اظہار کے لیے جو حربے استعمال کیے جاتے ہیں ان کو سمجھے بغیر طنز و مزاح کو سمجھنا مشکل ہے، جیسے موازنہ و تضاد میں بہ یک وقت دو مختلف چیزوں سے مشابہت اور تضاد کا موازنہ کر کے ہنسی کو بیدار کیا جاتا ہے۔ دیگر زبانوں کے ادب کی طرح اردو ادب میں بھی مزاح کے اس حربے سے فائدہ اُٹھایا جاتا ہے، تا ہم موازنے کے لیے نا موزونیت اور بے ڈھنگے پن کا مشاہدے میں آنا ضروری ہے۔ اردو مزاحیہ نظم و نثر میں اس کی کامیاب مثالیں ملتی ہیں۔

مزاحیہ صورتِ حال طنز و مزاح کا ایک اہم اور مشکل حربہ ہے، اس کی وجہ زبان و بیان اور الفاظ کی سلاست و بلاغت کے خیال کے ساتھ ساتھ مضحکہ خیز صورتِ حال کی پیدائش بھی ہے۔ یہ خالص مزاح کی معیاری قسم ہے، جیسےکیلے کے چھلکے سے پھسلنے سے جو مضحکہ صورتِ حال پیدا ہوتی ہے اس پر بے اختیار ہنسی آ جاتی ہے۔ بقول پروفیسر محمد طہٰ خان:

’’بین الاقوامی مزاح تو واقعاتی مزاح ہے ‘‘۔

الفاظ کے الٹ پھیر سے پیدا ہونے والا مزاح ’’لفظی بازی گری‘‘ کے زمرے میں آتا ہے۔ اس تکنیک میں عام طور پر ایسے الفاظ کا استعمال کیا جاتا ہے جن کے قریب اور بعید دو معنی ہوں، کہنے والا اوّل الذکر مراد لیتا ہے اور سننے والا بعد الذکر۔ ایہام اور الفاظ کی تکرار سے پیدا ہونے والا مزاح بھی اسی زمرے میں آتا ہے۔ اردو شاعری کے ابتدائی دور میں ’’ایہام گوئی‘‘ کی تحریک میں لفظی بازی گری کی بے شمار مثالیں ملتی ہیں۔ مرزا غالب جب بہادر شاہ ظفر سے عید ملنے گئے تو انھوں نے پوچھا ’’مرزا کتنے روزے رکھے ؟‘‘جواب دیا ’’ پیرو مرشد ایک نہیں رکھا۔ ‘‘

مزاحیہ کردار طنز و مزاح کی تخلیق کا اہم جزو ہیں۔ اس کی تخلیق میں مبالغہ آرائی سے کام لے کراس کے انداز و اطوار کی ایسی تصویر کشی کی جاتی ہے کہ مضحک صورت حال پیدا ہو کر طنز و مزاح کا باعث بنتی ہے۔ مزاحیہ کرداراس لیے بھی مشکل ہے کہ تخلیق کردہ کردار، سامنے آتے ہی قاری یا سامع کے چہرے پر ہنسی کی لہر دوڑ جانا ضروری ہے۔ اردو نثر میں رتن ناتھ سر شار کا ’’خوجی‘‘، ڈپٹی نذیر احمد کا ’’ظاہر دار بیگ‘‘، پطرس بخاری کا ’’مرزا صاحب‘‘، شفیق الرحمان کا ’’شیطان‘‘، محمد خالد اختر کا ’’چچا عبدالباقی‘‘ اور مشتاق احمد یوسفی کا ’’ مرزا عبد الودود‘‘ وغیرہ اس کی بہترین مثالیں ہیں۔ اُردو مزاحیہ شاعری میں مجید لاہوری نے ’’مولوی گل شیر خان اور ٹیوب جی ٹائر جی ‘‘اور سیّد ضمیر جعفری نے ’’قیس‘‘کو پے در پے مزاحیہ غزل کے اشعار میں استعمال کر کے انھیں بطور کردار متعارف کرانے کی کوشش کی لیکن جان دار مزاحیہ کردار تخلیق نہ کر سکے۔

اشارے یا کنائے میں ایسی بات کرنا کہ کچھ نہ کہتے ہوئے بھی سب کچھ سمجھا دینا رمز کہلاتا ہے۔ یہ حربہ بھی طنزو مزاح میں بہ کثرت استعمال ہوتا ہے۔ رمز میں طنز و مزاح ایک دوسرے سے گھلے ملے ہوتے ہیں، تا ہم طنز کا عنصر غالب ہوتا ہے۔ غالب کا یہ شعر رمز کی عمدہ مثال ہے :

ہوا ہے شہ کا مصاحب پھرے ہے اتراتا

وگرنہ شہر میں غالب کی آبرو کیا ہے ؟

مبالغہ کو اردو سنجیدہ اور مزاحیہ شاعری دونوں میں استعمال کیا جاتا ہے۔ سنجیدہ شاعری میں یہ حربہ بات میں زور پیدا کرنے کے لیے، جب کہ مزاحیہ شاعری میں مزاح پیدا کرنے کے لیے مستعمل ہے۔ مبالغہ میں کسی چھوٹی سی بات کو بڑھا چڑھا کے بیان کر کے ہنسی کو تحریک دی جاتی ہے۔ ڈاکٹر انعام الحق جاوید کا یہ شعرملا حظہ کریں:

وہ ہے سترہ کی اور میں ستر کا

پانچ مرلے کہاں کنال کہاں

تشبیہ و استعارہ مزاح کے اہم حربے ہیں۔ تشبیہ کا لفظ ’’شبہ‘‘ سے نکلا ہے جس کا معنی ہے ’’مماثل ہونا‘‘۔ علم بیان کی رو سے کسی ایک شے کی کسی اچھی یا بری خصوصیت کو کسی دوسری شے کی اچھی یا بری خصوصیت کے مشابہ قرار دینا تشبیہ ہے۔ لغوی معنوں میں استعارہ سے مراد ’’ادھار لینا‘‘ ہے۔ شعری اصطلاح میں استعارہ وہ صفت ہے جس کے تحت کسی لفظ کو اس کے حقیقی معنوں سے ہٹ کرکسی اور شے سے مشابہت کی وجہ سے اس کے مجازی معنوں میں استعمال کیا جائے۔ سیّد عابد علی عابد رقم طراز ہیں :

’’جن لوگوں نے ظرافت، بذلہ سنجی، طنز، ہجو اور متعلقہ اصنافِ ادب کا بدقتِ نظر مطالعہ کیا ہو وہ اس بات سے اچھی طرح آگاہ ہوں گے کہ ظرافت ہو کہ بذلہ سنجی، طنز ہو کہ ہجو اکثر ایسا ہوتا ہے کہ مصنف ایسی اشیا میں مشابہتیں دریافت کرتا ہے جو بہ ظاہر معلوم ہوتی ہوں یا ایسی اشیا میں اختلافات کے پہلو ڈھونڈ کے دکھاتا ہے جہاں یہ گمان بھی نہ ہو کہ اختلاف کی کوئی صورت پیدا ہو گی۔

مزاح کے حربہ کے طور پر تشبیہ و استعارہ کا استعمال طنزیہ و مزاحیہ نظم و نثر میں عام ہے۔

رعایتِ لفظی ایک ایسا شاعرانہ عمل ہے جس میں کسی لفظ کی معنوی پہلو داری سے فائدہ اٹھاتے ہوئے شاعر ایک نئی صورتِ حال پیدا کر دیتا ہے۔ ’’الفاظ کی رعایت سے پیدا کی جانے والی گفتگو رعایتِ لفظی ہے۔ ‘‘رعایتِ لفظی ایہام ہی کی ایک قسم ہے جس میں کسی شعر میں ایسے الفاظ کا استعمال کیا جاتا ہے جس کے دو مفہوم نکلتے ہوں اور ان مفاہیم کا بُعد ہی مزاح کا محرک بنتا ہے۔

اُردو میں ’’پیروڈی‘‘ کے لیے ’’ تحریف‘‘ کا لفظ استعمال کیا جاتا ہے جو کہ اس کے مفہوم کو پوری طرح ادا نہیں کرتا۔ ’’ڈکشنری آف ورلڈ لٹریچر ‘‘کے مطابق الفاظ کی تبدیلی اور کمی بیشی، کسی فن پارے کے اندازو اسلوب کی نقل یا موضوع اور ہیئت کی نقل سے پیروڈی کی جا سکتی ہے۔ دل چسپ بات یہ ہے کہ اس صنف میں جدت تو ہوتی ہے لیکن اوریجنل خیال یا اسلوب نہیں ہوتا۔ اردو ادب کے آغاز ہی سے اس کے نقوش ملتے ہیں اور طنز و مزاح کے شعری و نثری سرمائے میں اس کی عمدہ مثالیں دستیاب ہیں۔

طنز و مزاح کی تخلیق کے لیے بنیادی طور پر یہی حربے استعمال میں لائے جاتے ہیں۔ انفرادی اور اجتماعی دونوں سطحوں پر طنز و مزاح کی اہمیت سے انکار ممکن نہیں۔ طنز تاریخی، اخلاقی، سماجی اور ادبی رجعت پسندی اور زوال پذیری پر ایسے انداز میں چوٹ کرتا ہے کہ ہنساتا بھی ہے اور حساس دلوں کو رُلاتا بھی ہے۔ اچھا طنز معاشرے اور زمانے کا آئینہ دار ہوتا ہے ،جب کہ مزاح چٹکیاں لیتا، گدگدیاںکرتا خوش طبعی کا سر چشمہ ہوتا ہے۔ ہنسی برائے ہنسی ہوتے ہوئے بھی مزاح کے سماجی کردار سے انکار ممکن نہیں ہے۔ ڈاکٹر وزیر آغا لکھتے ہیں :’’ اس میں کوئی شک نہیں کہ طنز سماج اور انسان کے رستے ہوئے زخموں کی طرف ہمیں متوجہ کر کے بہت بڑی انسانی خدمت سر انجام دیتاہے، دوسری طرف خالص مزاح بھی ہماری بجھی ہوئی پھیکی اور بد مزہ زندگیوں کو منور کرتا اور ہمیں مسرت بہم پہنچاتا ہے۔ فی الوقت افادیت کے نقطۂ نظر سے دونوں ہمارے رفیق و غم گسار ہیں اور ہم ایک کو دوسرے پر فوقیت دینے سے قاصر۔ ‘‘

تازہ ترین