• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

سویڈن کی پیاری بچی گزیٹا تھون برگ تیرا شکریہ کہ تم نے آب و ہوا کی آلودگی کے زہریلے پھیلائو اور ارضی حرارت کے خلاف جمعہ برائے مستقبل کی تحریک شروع کی اور گزشتہ جمعۃ المبارک نے یہ مبارک منظر دیکھا جب دُنیا بھر کے بچے اور جوان ہزارہا شہروں میں ہمارے جہان کو عالمی حرارت سے بچانے کیلئے سڑکوں پہ نکل آئے۔ لاہور میں بچوں جوانوں کے صاف و شفاف ماحول کے لیے مظاہرے میں ایک بچی نے نئی نسل کے کرئہ ارض اور فضا کو آلودگی سے محفوظ بنانے کی تشویش اور عزم کو اپنے پوسٹر کی تحریر میں یوں رقم کیا: ’’جہان ہے تو جان ہے‘‘۔ جان ہے تو جہان ہے کی اس جدلیاتی توضیح پر میں سر دھنتا رہ گیا۔ اور یاد آیا کہ جب ہم نے طالب علمی کے زمانے میں نظامِ تعلیم کی اصلاح کیلئے ’’شاگردوں (بچوں) کو اُستاد کر‘‘ کی ترکیب گھڑی تھی۔ ایک تو سویڈن اور لاہور کی یہ بچیاں ہیں جو اپنے کرئہ ارض اور اس کی آب و ہوا کو بچانے نکلی ہیں اور ایک امریکہ کے صدر ٹرمپ ہیں جو اِسی روز آسٹریلیا کے وزیراعظم کے ساتھ اپنی گفتگو میں کوئلے سے پیدا ہونیوالی توانائی (ہجریہ ایندھن) کی آلودگی کے گُن گا رہے تھے۔ یہ وہی صدارتی اُمیدوار ٹرمپ تھا جس نے فضا کی آلودگی کے خلاف کیے جانیوالے معاہدئہ پیرس کو حقارت سے ٹھکرانے کا اعلان کیا تھا جو کیوٹو کے معاہدے کا تسلسل تھا۔ یہ جاہلانہ اعلان بڑی بڑی کوئلے، تیل اور گیس کمپنیوں اور ٹرانسپورٹ، انرجی اور کیمیائی کارپوریشنوں کے ارض دشمن، فضا مخالف اور انسان کُش منافعوں کے دفاع میں کیا گیا تھا۔ یہ اُن تمام سائنسدانوں کی ماحولیاتی تحقیقات اور تقاضوں کی ضد میں تھا جو کہہ رہے تھے کہ فضا میں کاربن کی شرح کو 1.5 فیصد تک رکھنے کیلئے ضروری ہے کہ زیادہ اور کم آلودگی پیدا کرنے والے اسکی سطح کو 2010 کی شرح سے نصف کرتے ہوئے 2050 تک اس کی زہریلی بڑھوتری صفر کر دیں۔ یقیناََ بڑی ذمہ داری تو اُن پر ہے جو دھواں دار ایندھنوں کو صنعتی انقلاب کی ابتدا سے اندھا دھند استعمال کیے جا رہے ہیں۔ کاربن کے اسی پھیلائو میں امریکہ کا حصہ 14.6 فیصد، چین کا 27.2 فیصد، بھارت کا 6.8 فیصد، باقی یورپ اور دیگر ترقی یافتہ ممالک کا ہے یا پھر دُنیا کے دیگر ممالک کا جو 16فیصد ہے۔ ہمارے ضعیف الاعتقاد دوست اسے ہمارے اعمالوں کی سزا قرار دیتے ہیں یا پھر گناہوں کا اجر! مگر وہ یہ بتانے سے قاصر ہیں کہ وہ کیا اعمال و گناہ ہیں جن کا خمیازہ وہ بھی بھگت رہے ہیں جو اِن گناہوں میں شامل نہیں جیسے وہ چرواہے جن کی چراگاہیں موسمیاتی تبدیلیوں سے اُجڑ گئیں۔ یا وہ شہر اور جزیرے جو اتھلتے سمندروں کی طغیانیوں کے ہاتھوں ناپید ہو جائیں گے۔ وہ بھی جو پیدا ہوتے ہی آلودگی کی گھٹی پینے پہ مجبور ہیں۔ پھر وہ بھی ہیں جو خم ٹھونک کر کہتے ہیں کہ پاکستان میں کاربن کی افزائش تو پہلے ہی ایک فیصد سے کم ہے تو یہ ہمارا سر درد نہیں، لیکن یہ بھولتے ہوئے کہ پاکستان ان سات بدقسمت ملکوں میں شامل ہے جو ماحولیاتی تباہ حالی کا شکار ہو سکتا ہے اور ہو رہا ہے۔ ہمارے ماحولیاتی نظام کا اپنا ایک قدرتی توازن تھا جو خود انسانوں نے قدرت کی تسخیر کرتے ہوئے اسے دوام بخشنے کی بجائے بگاڑا ہے۔ کیا کچھ ہے جو انسان اور اس کا بڑھتا ہوا ہجوم کھا پی نہیں گیا۔ درخت، پودے، زیرِ زمین پانی، گلیشیرز، معدنیات، دریا، سمندر اور سمندری پیداوار، پرند چرند، جانور، ہر طرح کے ایندھن، جنگلات، گیس، پیٹرول، کوئلہ اور جو کچھ ہاتھ لگا سب ہڑپ کر گیا۔ دھات کے زمانوں سے صنعتی انقلاب اور سرمایہ داری کی بے انت منافع خوریوں اور قدرتی و انسانی ذرائع کے لامحدود استعمال کے ہاتھوں انسان نے دُنیا کو خود پہ تنگ کر لیا ہے۔ اس سے پہلے کہ اشتراکیوں کا خواب پورا ہو کہیں یہ نہ ہو کہ کرئہ ارض ہی اپنی تپش میں بھسم ہو جائے۔ وہ کیسے؟ ذرا سائنس دانوں کو سُن لیں۔ ہمارے ماحولیاتی نظام میں نباتاتی عمل میں پودے اور درخت سورج کی روشنی یا شعاعوں کے زیرِ اثر کاربن ڈائی آکسائیڈ اور پانی کی مدد سے خوراک، پھل پھول، طبی جڑی بوٹیاں، خوشبو اور ذائقے پیدا کرتے ہیں اور تمام جاندار ان سے نشوونما اور آسودگی پاتے ہیں۔ لیکن جب ان گرین ہائوس گیسوں کی پیداوار جو کہ ضروری ہے حد سے بڑھ جاتی ہے تو یہ ارضی حرارت یا گلوبل وارمنگ کا سبب بن جاتی ہے جو ارضی تپش کے خلا میں تحلیل ہونے میں رکاوٹ بن جاتی ہے۔ اس میں سرعت سے اضافہ زیادہ تر ہجریہ ایندھنوں یعنی تیل، گیس اور کوئلہ کے توانائی، گھروں، صنعتوں، آمد و رفت کے وسائل میں زیادہ اور غیرمحفوظ استعمال سے ہوتا ہے۔ صنعتی دور میں سرمایہ داروں کا زائد قدر اور نفع کے حصول کے لیے، نہ صرف محنت کشوں کے زائد وقت کا بلامعاوضہ استحصال، قدرتی ذرائع کا تباہ کُن استعمال اور آلودگی کا فروغ سرمایہ داری نظام کا طرئہ امتیاز ٹھہرا۔ نتیجتاً آج کرئہ ارض قدرت کے ساتھ اِس کھلواڑ کے باعث ماحولیاتی قیامت کے قریب تر ہو چلا ہے۔ نتیجتاً درجۂ حرارت بڑھ جاتا ہے، گلیشیرز پگھلتے جاتے ہیں، سمندروں کی سطح بلند اور ساحلی علاقے ڈوبتے جاتے ہیں، موسموں کی تبدیلیاں  سیلاب و طوفان بپا کرتی ہیں یا پھر قحط سالی۔ زرعی پیداوار اور طرزِ زندگی میں ناقابلِ تلافی تبدیلیاں  رونما ہوتی ہیں۔ اوپر سے جنگل کٹتے یا جلتے جاتے ہیں جو کاربن ڈائی آکسائیڈ کھینچتے ہیں اور آکسیجن خارج کرتے ہیں۔ مزید برآں یہ کہ عالمی استعماری نظام دُنیا کے اکثریتی ملکوں اور اُن کی آبادیوں کو نہ صرف اُن کے ذرائع سے محروم کرتا جاتا ہے بلکہ اُنہیں پسماندگی و غربت کے ساتھ ساتھ آلودگی کی نذر بھی کرتا جاتا ہے۔ اندریں حالات اپنے کرئہ ارض، اپنی دھرتی، اپنی ہوا، اپنے پانی اور اپنی فضا اور ماحول کو آلودگی سے بچانے، حقِ زندگی کی حفاظت کرنے، اچھے ماحول کے حق کو منوانے، گلوبل وارمنگ سے بچنے، سیلابوں اور قحطوں سے محفوظ رہنے، خوراک میں زہرآلود ملاوٹوں، اجناس و دیگر غذائوں  میں  خطرناک کیمیائی ملاوٹوں سے خلاصی، ساحلی علاقوں کو سمندروں میں غرق ہونے سے بچانے اور ایک پُرفضا، پُرسکون، پُرامن دُنیا جس میں لوگ ہر طرح کے ظلم و استحصال سے پاک سماج اور پائیدار نظامِ زندگی سے بہرہ ور ہو سکیں۔

تازہ ترین