غیر منقسم ہندوستان میں اردو ادب پوری توانائی سے تخلیق ہو رہا تھا۔ادبی منظر نامے پر جہاں ناول کی صنف میں باقاعدہ طور پر ڈپٹی نذیر احمد نے اردو ناول کی داغ بیل ڈالی تو وہیں سجاد حیدر یلدرم اور منشی پریم چند افسانے کی منظم روایت کے ساتھ اُبھرے۔ اس کے بعد ادیبوں کا ایک طویل سلسلہ ہے، جن کے ذریعے افسانے کی صنف کو بامِ عروج حاصل ہوا۔
برصغیر پاک و ہند میں ترقی پسند تحریک سے وابستہ افسانہ نگاروں نے اردو ادب پر گہرے اثرات مرتب کیے۔ ہندوستان کی تقسیم سے پہلے شہرت پانے والے دو ادیب، قیام پاکستان کے بعد بھی اپنے ہنر میں یکتا اور فن میں تاک رہے، انہوں نے اردو افسانے پر حکمرانی برقرار رکھی، وہ سعادت حسن منٹو اور احمد ندیم قاسمی ہیں، یہی دونوں ادیب دونوں ملکوں میں فلمی صنعت کو متاثر کرنے میں بھی کامیاب رہے، آج کی متذکرہ شخصیت احمد ندیم قاسمی اور ان کا افسانہ ’’گنڈاسا‘‘ ہے۔
احمد ندیم قاسمی کا شمار ترقی پسند تحریک سے وابستہ صف اول کے ادیبوں میں ہوتا ہے۔ وہ پاکستان کے معروف ادیب، شاعر، افسانہ نگار، صحافی اور مدیر تھے۔ وہ ترقی پسند نظریات رکھنے کی وجہ سے دو مرتبہ گرفتار بھی ہوئے۔ اختر شیرانی اور امتیاز علی تاج کے ذریعے ادبی دنیا میں داخل ہوئے، اپنی نوے سالہ زندگی میں پچاس سے زائد کتابیں تصنیف کیں، تالیف اور تنقید کا کام اس کے علاوہ ہے۔
ان کاشمار پاکستان کے ان خوش نصیب ادیبوں میں بھی ہوتا ہے، جن کی خدمات کا اعتراف ان کی زندگی میں ہی کر لیا گیا۔ انہیں پاکستان کے سب سے بڑے سول ایوارڈ ستارۂ امتیاز سمیت دیگر اعزازات سے نوازا گیا اور عالمگیر شہرت کے ثمرات بھی حاصل ہوئے۔
احمد ندیم قاسمی کا افسانہ’’گنڈاسا‘‘ پنجاب کے ثقافتی تناظر میں قلم بند ہوا، جس میں پہلوانی کے فن کو محور بنایا گیا ہے، کشتی کے کھیل کی صورت میں معاشرے کے سیاہ وسفید کی روداد رقم کی گئی ہے۔ اس افسانے کا مرکزی کردار’’مولا‘‘ شجاعت اور جرات کا پیکر دکھایا گیا ہے، جس کے اپنے گائوں سمیت دور دورتک کے علاقوں میں ایک دھاک ہوتی ہے۔
وہ ایک بہادر نوجوان کے طورپر شہرت رکھتا ہے، جس کی عوام میں مقبولیت بھی بلند ترین حدوں کو چھو رہی ہوتی ہے۔ عین ایک بڑی کشتی کے دن، لڑائی سے چند لمحے قبل، اس کو اطلاع ملتی ہے، اس کا باپ دشمنوں کے ہاتھوں قتل ہوگیا ہے، یہ خبر اس پر بجلی بن کے گرتی ہے، وہ آندھی اور طوفان کی مانند اپنے دشمنوں کا صفایا کرنے کے لیے اکھاڑے سے روانہ ہوتا ہے، لیکن اس کی راہ میں گائوں کا ایک باوقار شخص آڑے آجاتا ہے، جو اس کو مذہبی دانش مندی کے ذیل میں قتل وغارت برپا کرنے سے روکتا ہے، جبکہ سماج اور خاندان اس کو مجبور کرتا ہے کہ وہ اپنے باپ کے قتل کا بدلہ لے۔
وہ ان دونوں کیفیات کے درمیان جبر کے احساس میں جکڑا جاتا ہے، اس کے جذبات کی بلند ترین سطح آنکھوں سے بہنے والے آنسو ہیں، جس پر افسانے کے دیگر کردار سوالیہ حیرت کا اظہار کرتے ہیں تو جو وہ جواب دیتا ہے، وہ ہی اس افسانے کا مرکزی خیال بھی ہے، کہانی کا کلائمکس بھی اور معاشرے کے فرسودہ تصورات کے منہ پر تھپڑ بھی، جس کو احمد ندیم قاسمی نے کمال مہارت سے کہانی کے منظر نامے میں ڈھالا ہے۔ وہ لکھتے ہیں۔
’’اس کی ماں چیختی چلاتی بھاگتی ہوئی آئی اور مولا کے پاس آکر نہایت وحشت سے بولنے لگی’’تجھے گلے نے تھپڑ مارا اور تو پی گیا چپکے سے! ارے تو تو میرا حلالی بیٹا تھا۔ تیرا گنڈاسا کیوں نہ اٹھا؟ تو نے۔۔‘‘ وہ اپنا سر پیٹتے ہوئے اچانک رک گئی اور بہت نرم آواز میں جیسے بہت دور سے بولی۔’’تو تو رو رہا ہے مولے؟‘‘ مولے گنڈاسے والے نے چارپائی پر بیٹھتے ہوئے اپنا ایک بازو آنکھوں پر رگڑا اور لرزتے ہوئے ہونٹوں سے بالکل معصوم بچوں کی طرح ہولے سے بولا۔’’تو کیا اب روئوں بھی نہیں۔‘‘
اس بے مثال افسانے کے اثرات اردو ادب پر مرتب ہوئے، وہ تو سو ہوئے لیکن یہ کوئی نہیں جانتا تھا، پاکستان کی فلمی صنعت میں اس افسانے کی بدولت ایک نئے فلمی دور کی ابتدا ہوگی۔
اردو ادب میں شاید ہی کوئی ایسا ناول یا افسانہ ہوگا، جس کو اتنی مقبولیت حاصل ہوئی ہو اور اس کے اثرات کا دائرہ اتنا وسیع ہوا ہو کہ ستر کی دہائی میں بننے والی فلم عہد موجود تک اپنا اثرقائم رکھے۔ تکنیکی اور تخلیقی بحث ایک طرف، لیکن یہ افسانہ اور پھر اس سے ماخو ذ کرکے لکھی گئی فلمی کہانیاں مکالمات اور ڈرامائی منظر کشی میں اپنی مثال آ پ ہیں، اس افسانے کی مقبولیت کا سفر کتنی دیر مزید جاری رہے گا، کوئی نہیں جانتا لیکن تاحال یہ ایک مقبول ترین افسانہ ہے، جس نے قارئین اور ناظرین دونوں کو اپنے اثر میں جکڑ رکھا ہے۔ احمد ندیم قاسمی اس افسانے کی وجہ سے پاکستانی سینما میں مرکزی حوالے کے طور پر یاد رکھے جائیں گے۔