اِس بات کو یہی کوئی چار سال گزرے ہوں گے کہ مجھے ہندوستان سے کشمیری لال ذاکر کی کتاب’’فیض کی دنیا‘‘ ملی تھی۔ اسی کتاب کے آغاز میں ان کے بارے میں شمس الرحمن فاروقی کا کہنا ہے کہ’’ذاکر صاحب نے زندگی کی تقریباً ایک صدی کا عرصہ طے کر لیا ہے لیکن پھر بھی ان کا قلم واماندہ نہیں ہوا ہے۔ ‘‘ زندگی کے آخری دن تک اردو ادب سے وابستہ رہنے والے ذاکر صاحب 2016ء میں چل بسے تھے۔
وہ اُردو دنیا کا زرخیز تخلیقی ذہن تھے ۔ پروفیسر ارتضی کریم نے ان کی رحلت پر کہا تھا کہ’’ انہوں نے اپنی کہانیوں میں اپنے وطن مالوف کشمیر کو جاوداں کیا۔‘‘ انہی کشمیری لال ذاکر نے اپنے ناول’’انگوٹھے کا نشان‘‘ (مطبوعہ 1978) کے دیباچے ’’ پہلا قدم‘‘ میں لکھا ہے:
’’انسانیت کی اس سے زیادہ توہین اورکیا ہو سکتی ہے کہ کچھ صاحبِ اقتدار لوگ اپنی ہوشیاری سے بہت سے لوگوں کو عمر بھر کے لیے غلام بنا لیں اور ان سے عزت و وقار سے رہنے کا حق چھین لیں۔‘‘
مقبوضہ کشمیر میں یہی تو ہورہا ہے ۔ ریاست جموں وکشمیر میں اردو زبان کا رواج تو پہلے سے تھااور یہ زبان اتنی مقبول تھی کہ 1889میں مہاراجہ پرتاب سنگھ کے دور میں اسے سرکاری زبان کا درجہ مل گیا۔ تب سے اب تک اس دھرتی کے دکھوں کو سمیٹنے والی یہ زبان بہت کچھ کہہ رہی ہے ۔ پریم ناتھ پردیسی کے لفظوں میں:
’’کشمیر کا ہر باشندہ بذات خود ایک افسانہ ہے جس کی طرف آج تک کسی نے توجہ نہ دی۔یہاں کا سب سے بڑا مسئلہ غلامی ہے، افلاس ہے شخصی راج ہے ‘‘
پریم ناتھ پردیسی کے بارے میں حامدی کاشمیری نے اپنی کتاب’’ریاست جموں و کشمیر میں اردو ادب ‘‘ میں ایک پورا باب رقم کیا اور لکھا کہ پردیسی 1955میں مرنے تک اردو زبان و ادب سے وابستہ رہے افسانوں کے تین مجموعے دیے ؛’’شام و سحر‘‘،’’دنیا ہماری‘‘،’’بہتے چراغ‘‘لکھے۔ انہوں نے سیاسی اتھل پتھل کو اپنی آنکھوں سے دیکھا اور آزادی کے جذبوں کو اپنے دل پر محسوس کیا تھا۔ حامدی کاشمیری لکھتے ہیں:
’’ریاست کے باشندے صدیوں کی محکومی، افلاس اور پس ماندگی سے تنگ آکر آزادی، فارغ البالی اور ترقی کے خواب دیکھنے اور اپنے خوابوں کی تکمیل کے لیے مطلق العنانیت سے ٹکرانے لگے تھے۔ 1931میں سنٹرل جیل کے آہنی دروازوں کے باہر لوگوں کاایک مشتعل ہجوم حکام کی بالادستی اور تشدد کے خلاف غم و غصہ اور نفرت کے کھلم کھلا اظہار پر اتر آیااور کتنے ہی مجاہدین کے بدن فوجیوں کی گولیوں سے چھلنی ہو گئے اور شہدا کا لہو سرزمین کشمیر کو سیراب کر گیا۔‘‘
شہیدوں کے بہتے لہو سے کشمیر کی سرزمین مسلسل سیراب ہو رہی ہے۔ وہ جزوی یا علامتی خود مختیاری جو ہندستانی آئین کی شق370 کے مطابق کشمیریوں کو حاصل تھی، اس کے خاتمے کے بعد تو یوں لگتا کہ وہاں کشمیری مسلمانوں کی نسل کشی شروع ہو چکی ہے۔ لکھنے والوں کا قلم مودی سرکار کی سفاکی پر خون کے آنسو رو رہا ہے۔
مقبوضہ کشمیر کے علاقے پانپور میں 1919میں پیدا ہونے والے ایک شاعر غلام محمد میر طائوس نے بہت پہلے کہا تھا:
گھات میں صیاد ، پہلو میں ہے کھٹکا تیر کا
ایک پہلو یہ بھی ہے کشمیر کی تصویر کا
ایک اور شاعر طالب انصاری جو ۱۹۲۰ میں دلنہ بارہ مولہ میں پیدا ہوا،اس نے کہا تھا:
کہو شبیر سے میدان میں پھر للکارتا نکلے
یزید عصر ہے تیار، خنجر آزمانے کو
دُکھ یہ ہے کہ اب جب مقبوضہ کشمیر میں بہ قول طالب انصاری ’’ یزید عصر‘‘ پوری سفاکی کے ساتھ’’خنجرآزما‘‘ ہے مسلم امہ اپنا کوئی کردار ادا کرنے کی بجائے اپنے اپنے مفادات سے وابستہ دکھائی دیتی ہے۔ یہ صورت حال انتہائی تکلیف دہ ہے۔ لگ بھگ یہی تکلیف اور شکایت ہمیں اپنے ہاں کے مختلف طبقات کے رویوں کے سبب بھی ہوتی ہے۔
سیاسی سماجی سطح پر اس ظلم و ستم کے خلاف جس رد عمل، سنجیدگی اور حکمت عملی سے آگے بڑھنے کی ضرورت تھی ، اس کا عشر عشیر بھی کہیں نظر نہیں آرہا ہے ۔اقبال نے ملازادہ ضیغم لولابی کا فرضی کردار تراشا اور اس وسیلے بہت تلخ بات کہہ دی تھی۔ یہی کہ ’’تمام عارف و عامی خودی سے بیگانہ‘‘۔ اسی نظم میں اقبال نے یہ بھی کہا تھا:
ملا کی نظر نور فراست سے ہے خالی
بے سوز ہے میخانہ صوفی کی مئے ناب
اے وادی لولاب
کشمیر اقبال کا آبائی وطن تھا اور وہ یہاں کے لوگوں کے دکھ درد کو محسوس کرتے تھے۔ غلام نبی خیال نے اپنے ایک مضمون میں ممتاز حسن کے حوالے سے لکھا ہے کہ اقبال نے ایک صحبت میں خود بتایا تھا کہ انہوں نے 1921میں سری نگر کے نشاط باغ میں بیٹھ کر لکھا تھا:
کشیری کہ بابندگی خو گرفتہ
بتے می تراشد زسنگ مزارے
ضمیرش تہی از خیال بلندے
خودی ناشنا سے ز خود شرمسارے
اس سے ایک چوتھائی صدی پہلے فروری 1896میں جب لاہور میں رہائش پذیر کشمیریوں نے انجمن بنائی تو اقبال اس انجمن کشمیری مسلمانان کے سیکرٹری بنائے گئے تھے۔ اقبال نے اسی انجمن کے ایک اجلاس میں کہا تھا:’’مل کے دنیا میں رہو مثل حروف کشمیر‘‘۔ اس انجمن کے تحت کشمیریوں کے مسائل کی طرف توجہ دلاتے رہے۔ اقبال سے لے کر آج کے شاعر یامین تک سب کے دلوں میں کشمیریوں کی غلامی کا درد سمایا ہوا ہے ۔
صفدر میر نے اپنی نظم ’’فائربندی کی رات‘‘ میں اس جانب اشارہ کیا کہ’’ڈیڑھ سو سال سے موت کا راگ کشمیر سے اٹھ رہا ہے‘‘ تو احمد ندیم قاسمی کا’’مہاراج ادھیراج‘‘ میں کہنا تھا:’’حضور آپ نے خون انساں سے اپنے شبستاں کی تاریکیاں دور کی تھیں‘‘ اور ایک اور نظم’’کشمیر‘‘ میں یہ بھی کہا :
تاریخ پلٹ رہی ہے اوراق
کشمیر کی برف شعلہ زن ہے
جوش ملیح آبادی نے اپنی نظم ’’کمزور کو آسودگئی دل نہیں ملتی‘‘ میں جنت کشمیر کے بیدار جوانوں کو مخاطب کرتے ہوئے کہا تھا :’’جو قوم پہ مرتا ہے وہ مرتا نہیں ہے‘‘۔ حفیظ جالندھری نے ’’کشمیر کے جانباز‘‘ میں یوں لکھ رکھا ہے:’’وہ دیکھو وادی کشمیر کے جانباز جاتے ہیں‘‘۔ جب کہ احمد فراز نے اپنی نظم’’نیا کشمیر‘‘ میں کہا تھا:’’کب سے ہیں شعلہ بداماں و جہنم بکنار‘‘۔
ہمارے دوست اصغر عابد کے کشمیر کی جد و جہد آزادی سے متعلق ایک شعری مجموعے کا نام ہی ’’الم تا علم‘‘ہے جبکہ ان کااسی موضوع پر سرائیکی شاعری کا مجموعہ ’’برف دا سیک ‘‘ ہے تاہم یہاں مجھے ان کی طویل مثنوی’’کشمیرنامہ ‘‘ یاد آتی ہے جس میں وہ اس امید کا اظہار کرتے نظر آتے ہیں :
اب نہ کپواڑے میں ٹپکے گا لہو
ہر کفن بردار ہوگا سرخرو
اور خدا وندکریم کے حضور دعا گو بھی ہیں :
خطۂِ محکوم کو آزاد کر
ہر دُکھی دلدار کو دلشاد کر
مقبوضہ کشمیر کی آئینی حیثیت کو بدلنے والے حالیہ بھارتی اقدامات کے بعد شاعروں کے ہاں احتجاج کی نئی لہر اٹھی ہے ہر کہیں تشویش ہے کہ وہاں ایک انسانی المیہ جنم لے چکا ہے اورریاستی تشدد اور ظلم کی تازہ تازہ باڑھ دیکھ کر انسانیت بھی منہ چھپانے لگی ہے۔اختر عثمان نے لکھا تھا:
یہ سر سناں مرا سر نہیں
یہ گلوب ہے نئے عہد کا
جب کہ پروین طاہر نے دکھ اور صدمے کی کیفیت میں لکھا’’کاش میں پستول کی ایک گولی ہوتی /توسیدھے جاکر اس دل میں چھید کرتی/جس پر ظلم کی مہر ثبت ہو چکی ہے‘‘۔ یامین نے اپنی نظم’’پلکوں پر جمے آنسو‘‘ میں لکھا ہے ’’ہر گلی سے قبرستان جھانکنے لگاہے ‘‘ اور ’’چندن کی خوشبوسے مہکنے والے گھر/آگ پکڑ کر اپنے ہی دھویں میں ڈوب رہے ہیں‘‘۔
اس شاعروں کی طرح فکشن لکھنے والوں نے بھی کشمیر ی مسلمان کے مصائب اور تحریک آزادی کو موضوع بنایا ہے۔ کہیں سطروں کے درمیان اور کہیں صاف صاف۔ منٹو کا افسانہ ’’ٹیٹوال کا کتا ‘‘اور’’ آخری سیلوٹ‘‘ اس کی عمدہ مثالیں ہیں۔یوں تو کرشن چندر کا ناول ’’شکست‘‘ ہو یا ان کے کئی افسانے، ان میں وہ لوکیل کشمیر کو بناتے نظر آتے ہیں ۔
کہیں کشمیر کی جھیلیں ہیں اور کہیں اس کے پہاڑ اور وادیاں کہیں دھان کے کھیت ہیں اور کہیں زغفران کی خوشبو، وہاں گھٹائیں عورت کی آنکھوں کی طرح برستی ہیں ۔ جنت اور جہنم، کفارہ، کشمیر کو سلام، لاہور سے بہرام گلہ تک ،آپ افسانے پڑھتے ہیں اور یوں محسوس کرتے ہیں جیسے آپ کشمیر جنت نظیر میں ہیں۔
یہی کیفیت قدرت اللہ شہاب ’’پکے پکے آم‘‘ اور’’پھوڑے والی ٹانگ‘‘ پڑھ کر بھی ہوتی ہے۔’’ نندہ بس سروس‘‘ میں قدرت اللہ شہاب نے کشمیری مسلمانوں ،ڈوگرہ شاہی میں کیسا کیسا ظلم سہہ رہے تھے، اس کا زائچہ بہت عمدگی سے کھینچا گیا ہے۔ میلے پرانے پھٹے پرانے کپڑوں میں ملبوس کشمیری مسلمان ہاتو دو دو تین تین من کا وزن اٹھائے رینگ رینگ کر پہاڑ چڑھنے پر مجبور تھے۔
اسی تحریر میں بتایا گیا ہے کہ اس وقت کشمیری مسلمان کی زندگی کی قیمت صرف دو روپے تھے۔ فتح محمد ملک نے اپنی کتاب ’’تحریک آزادی کشمیر:اردو ادب کے آئینے میں‘‘ بہت ساری ایسی تحریروں کو مجتمع کر دیا ہے جنہیں پڑھ کر اصل صورت حال واضح ہوتی ہے۔
اسی کتاب میں اشفاق احمد کے ایک افسانے کی جانب توجہ دلائی گئی ہے جس میں ظلم سہنے والی کشمیری لڑکی ایک ایک کے پاس جاکر اپنے زخم دکھاتی ہے اور چاہتی ہے کہ وہ شاعر ہوں یا ادیب ، دانشور ہوں یا فن کے کسی بھی شعبے سے وابستہ ہوں وہ اس ظلم پر اپنا رد عمل دیں ۔ منٹو کے افسانے ’’ٹیٹوال کا کتا‘‘ میں دونوں جانب کی بے حسی کو موضوع بنایا گیا تھا جس میں جنگ طویل ہوتی جا رہی ہے ، جنگ جو محض ایک دکھاوا ہے جنگ بھی نہیں ہے۔
طرفین اپنے اپنے مورچوں میں جمے بیٹھے ہیں ۔ کبھی کبھار ادھر ادھر سے فائر ہو جاتے ہیں اور بس۔ایک طرف اپنی فوج کے ساتھ صوبیدار ہرنام سنگھ اور بنتا سنگھ ہیں اور دوسری طرف اپنی فوج میں صوبیدار ہمت خان اور بشیرا اور درمیان میں ایک کتا جسے چپڑ جھن جھن کے نام سے پکارا جاتا ہے اور وہ کتے کی موت مارا جاتا ہے۔ منٹو کے افسانے’’آخری سیلوٹ‘‘ بھی ٹیٹوال کے مقام پر ہونے والی جنگ سے پھوٹنے والا افسانہ ہے اور اس کا آغاز ہی یہاں سے ہوتا ہے:
’’یہ کشمیر کی لڑائی بھی عجیب و غریب تھی۔صوبیدار رب نواز کا دماغ ایسی بندوق بن گیا تھا جس کا گھوڑا خراب ہو گیا ہو۔‘‘
اس میں بھی ایک طرف رام سنگھ ہے’’ خنزیر کی دم‘‘ اور دوسری طرف راب نواز ہے ’’کمہار کا کھوتا‘‘ ۔اس میں بھی تفریح کے لیے دونوں طرف سے گولیا ں چلتی ہیں اور کشمیر کا اپنا دُکھ کہیں اوجھل رہ جاتا ہے۔ تاہم پھر اچانک اس سوال کی صورت سامنے آتا ہے جو زخمی رام سنگھ نے اپنے پرانے دوست رب نواز سے پوچھا تھا؛ یہی کہ:
’’یارا سچو سچ بتاؤ، کیا تم لوگوں کو واقعی کشمیر چاہیے!‘‘
منٹو کو کشمیری ہونے پر فخر تھا یہی سبب ہے کہ وہ وقفے وقفے سے اُدھر دیکھتے تھے ۔چچا سام کے نام ایک خط میں درج ہے:
’’پنڈت جواہر لال نہرو کشمیری ہیں۔ان کو تحفے میں ایک ایسی بندوق ضرور بھیجئے گا جو دھوپ میں رکھنے سے ٹھس کرے۔ کشمیری میں بھی ہوں مگر مسلمان۔میں نے اپنے لیے آپ سے ننھا منا ایٹم بم مانگ لیا ہے۔‘‘
راجندر سنگھ بیدی کے افسانہ’’ تعطل‘‘ کے ذریعے بھی ہمیں وادی کے عام لوگوں کے دلوں میں جھانکنے کا موقع ملتا ہے اور مسئلہ کشمیر کے حل میں تعطل کی وجوہ سمجھنے کی طرف دھیان جاتا ہے۔ جن دنوں بیدی کشمیر میں ریڈیو کے اسٹیشن ڈائریکٹر بن کر مقیم تھے تب بھی اپنے سیاسی خیالات کی وجہ سے اُس وقت کی کشمیری حکومت سے بھڑ جاتے تھے۔ ڈپٹی پرائم منسٹر سے جھگڑے میں تو وہ قید ہونے سے بال بال بچے تھے۔ اس گھٹن زدہ ماحول کو وہ محسوس کر رہے تھے جو وہاں کے عام آدمی کے لیے تھا اور جب تک مادھو پور کا پل نہیں پھاندا تھا وہ خود بھی اپنے آپ کو حراست میں سمجھ رہے تھے۔
محمود ہاشمی کا’’پیر پنجال کے قیدی ‘‘ ہو یا رشید امجد کا سبز پھول ہم کشمیر کو اس رخ سے دیکھتے ہیں جو اس دنیا سے اور میڈیا سے بالعموم اوجھل رہتا ہے۔
حامدی کاشمیری کا تعلق سری نگر سے تھا ۔وہ بہت عمدہ فکشن نگار اور نقاد تھے ۔ ان کی کہانیوں میں کشمیر کے منظر نامے سے اپنی کہانیوں کا مواد اٹھاتے رہے اور ان لکھنے والوں کے کام کو بھی نمایاں کیا جن کا تعلق اس مقبوضہ وادی سے تھا۔ ان کی طرح دوسروں ادیبوں نے بھی اس باب میں بہت تفصیل سے لکھا ہے جس سے وہاں کی صورت حال کی ایک متوازی تاریخ مرتب ہو گئی ہے۔
جب بھی وہاں کے فکشن لکھنے والوں کی بات ہو گی محمد دین فوق،پریم ناتھ پردیسی پریم ناتھ در،تیرتھ کاشمیری،سوم ناتھ زتشی،علی محمد لون، ٹھاکر پونچھی،پشکر ناتھ،نور شاہ، حامدی کاشمیری، وریندر پٹھواری،آنند لہر،دیپک بد کی، وحشی سعید،غلام نبی شاہد،منصور احمد منصور، ترنم ریاض،ریاض تو حیدی جیسے فکشن لکھنے والوں کا ذکر ضرور ہوگا۔
یہیں 2013میں پہلی بار چھپنے والے کشمیری افسانہ نگار غلام نبی شاہد کے مجموعے ’’اعلان جاری ہے‘‘ میں ایک افسانہ ہے ’’مداوا‘‘اس افسانے میں مقبوضہ کشمیر میں سرسراتی دہشت کو تصویر کیا گیا ہے۔ کہانی بتاتی ہے کہ ماں باپ کے اکلوتے بیٹے کا دھماکے میں ایک بازو کٹ کر دور جا گرتا ہے ۔ باقی اعضا اکٹھے کیے اور دفنائے جاتے ہیں لیکن بازو نہیں مل رہا ۔
یہی کٹا ہوا بازو افسانے کا مرکزی کردار ہو جاتا ہے جسے ماں باپ ڈھونڈتے پھرتے تھے۔ ایک اور افسانہ ’’آجادی‘‘ یعنی آزادی بھی پڑھے جانے کے لائق ہے ۔ اس افسانے کے اس ایک اقتباس سے ہی آپ جان جائیں گے کہ کشمیر کا بچہ بچہ کیا چاہتا ہے۔
’’وہ آگے بڑھا اور جیب سے دس روپیہ کا نوٹ نکال کر محی الدین کے ہاتھ میں تھما دیا اور سامنے سے ایک چپس کا پیکٹ اٹھاکر بچے کے قریب آگیا۔ چپس کا پیکٹ بچے کے ہاتھوں میں تھماتے ہوئے بولا۔یہ لو اب تو چپ ہو جاؤ۔۔۔چپس کا پیکٹ لے کر بچہ فوراً چپ ہو گیا۔سریندر بچے کو خاموشی سے دیکھتا رہا پھر قدرے اطمینان سے پوچھا۔’’شاباش۔۔۔اب بو لو اور کیا چاہیے؟‘‘بچے نے چپس کے پیکٹ سے کھیلتے ہوئے اسی اطمینان سے جواب دیا:’’آجادی‘‘۔
ترنم ریاض کا ناول ’’برف آشنا پرندے ‘‘بھی جس میں وہ غیر منقسم کشمیر کے واقعات کو اپنی والدہ محترمہ کی یادداشت کے وسیلے سے متن کا حصہ بنا دیتی ہے۔ نہ صرف والدہ کے آنکھوں دیکھے واقعات ، وہ ریاستی تاریخ کا ورق ورق کھنگالتی ہیں اور اسے ناول کے بہائو میں رکھ کر اسے تخلیقی دستاویز بنا دیتی ہیں۔ انہوں نے جموں میں وسیع پیمانے پر مسلمانوں کی نسل کشی کی بابت لکھا ہے اور بتایا ہے کہ ایک لاکھ کے قریب مسلمان شہید کر دیے گئے اور اس سے دگنا پاکستانی علاقے کی طرف دھکیل دیے گئے تھے ۔ترنم ریاض کا تعلق سری نگر سے ہے۔
مجھے یوں لگتا ہے کہ ایک بار پھر لکھنے والوں کا دھیان مقبوضہ کشمیر کے ستم رسیدہ عوام کی طرف پہلے سے کہیں زیادہ ہونے لگا ہے۔ ہندوستانی حکومت کے تازہ جابرانہ اقدامات اور وہاں ہونے والی شدید مزاحمت نے دنیا بھر کے انسان دوست لکھنے والوں کی توجہ حاصل کر لی ہے ۔ خود ہندوستان کے اندر سے بھی اپنی حکومت کے ظالمانہ اقدامات کے خلاف آوازیں اٹھنے لگی ہیں۔ ایسے میں اردو ادیب قلم ایک طرف رکھ کر اور ہاتھ پر ہاتھ دھر کر کیسے بیٹھ سکتا ہے۔
وہ زندہ ہے اور زندگی پر مارے جانے والے شب خون کو اپنی آنکھوں سے دیکھ رہا ہے اور اس ظلم کی شدت کو محسوس کر رہا ہے جو وہاں عورتوں ، بچوں ، بزرگوں اور نوجوانوں پر روا رکھا جا رہا ہے لہٰذا تحریک آزادی کشمیر ایک بار پھر ہماری شاعری اور فکشن کا موضوع ہو رہا ہے۔