• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

(گزشتہ سے پیوستہ )

گزشتہ کالم میں لکھا تھا کہ سندھ کے اس وقت کے وزیراعلیٰ جام صادق علی نے گریٹر تھل کینال پر وزیراعظم کے سامنے سخت اعتراضات اور آئندہ اجلاس میں پنجاب کی جانب سے کینالز کی فہرست پیش نہ کرنے پر سندھ کے 91ء کے پانی معاہدے پر نظر ثانی کا عندیہ دیا تھا، پنجاب نے یہ فہرست پیش کی تو اس پر خاص طور پر سندھ کے نمائندوں نے اعتراضات کئے۔ اعتراضات کی وجہ یہ تھی کہ اس فہرست میں گریٹر تھل کینال کو بھی شامل کیا گیا تھا۔ سندھ کے علاوہ کچھ اور ممبران نے اعتراض کیا کہ اس فہرست میں فقط وہ اسکیمیں شامل کی جائیں گی جو آپریشنل ہیں، باقی جو ابھی پلاننگ کے مرحلے میں ہیں، اس شق کے تحت اس فہرست میں شامل نہیں کی جا سکتیں مگر پنجاب نے یہ بات نہیں مانی اور اس سلسلے میں جو فہرست جاری کی اس میں گریٹر تھل کینال کا پروجیکٹ شامل تھا۔ اسی دوران میں ایک دلچسپ واقعہ کا بھی یہاں ذکر کرتا چلوں کہ واپڈا نے حیدرآباد سے صحافیوں کی ایک ٹیم کو لاہور مدعو کیا، یہ ٹیم 11ستمبر کو امریکہ کے شہر نیو یارک میں ورلڈ ٹریڈ سنٹر سے جہاز ٹکرانے کے واقعہ کے دوسرے دن 12ستمبر کو کراچی ایئر پورٹ سے لاہور روانہ ہوئی۔ لاہور کے ایئر پورٹ پر واپڈا کی ٹیم ان صحافیوں کو جن میں مَیں بھی شامل تھا، گاڑیوں کے ذریعے واپڈا ہائوس لے گئی، جہاں ان کو واپڈا کے وسیع اسمبلی ہال میں لاکر بٹھایا گیا۔ وہاں واپڈا کے چیئرمین نے پریس کانفرنس کی۔ اس مرحلے پر میں یہ بات بھی پیش کرتا چلوں کہ اس پریس کانفرنس سے چند دن پہلے اس وقت ملک کے سربراہ جنرل پرویز مشرف نے لاہور میں ایک اجلاس کی صدارت کی تھی جس میں کئی متنازع ڈیمز اور لنکس تعمیر کرنے کی منظوری دی گئی تھی۔ ان اسکیموں میں گریٹر تھل کینال کی اسکیم بھی شامل تھی۔ پریس کانفرنس میں مَیں نے چیئرمین واپڈا سے کچھ سوال کئے جن میں سے ایک یہ بھی تھا کہ ملک کے موجودہ حکمران نے اتنے ڈیم اور اسکیموں کی منظوری دیدی ہے جبکہ ملک کے رولز آف بزنس کے تحت ایسا کوئی بھی پروجیکٹ سب سے پہلے سی ڈی ڈبلیو کے اجلاس میں پیش کیا جاتا ہے تو کیا موجودہ حکومت نے ملک کے رولز آف بزنس معطل کر دیئے ہیں؟ یہ سوال سن کر چیئرمین واپڈا پریشان ہوگئے اور کہنے لگے نہیں، نہیں ایسی بات نہیں، ان پروجیکٹس پر کام تب ہوگا جب ان اداروں سے ان پروجیکٹس کی منظوری ملے گی۔ پریس کانفرنس کے بعد چائے کا دور چلا۔ صحافی اور واپڈا کے افسران ٹولیوں میں بات چیت بھی کر رہے تھے اور ہاتھوں میں پکڑے ہوئے چائے کے کپ سے چسکیاں بھی لے رہے تھے۔ اس گروپ میں ہمارے ساتھ واپڈا کے ممبر گپ شپ کر رہے تھے۔ اچانک میں نے ان سے مخاطب ہوتے ہوئے کہا کہ اب جبکہ آپ اور پروجیکٹس کی طرح گریٹر تھل پر بھی کام شروع کر رہے ہیں تو کیا ممکن ہے کہ آپ مجھے اس اسکیم کی کاپی دیں تاکہ میں اس کا جائزہ لے سکوں۔جواب میں ممبر واپڈا نے مجھ سمیت دوسرے صحافیوں کو بھی یہ کہہ کر حیرت زدہ کر دیا کہ یہ اسکیم ابھی ہمارے پاس نہیں آئی، یہ اسکیم ابھی پنجاب حکومت کے پاس ہے۔ اس پر سوالات ہونے لگے کہ اگر یہ اسکیم ابھی پنجاب حکومت کے پاس ہے تو جنرل پرویز مشرف نے جس گریٹر تھل کینال اسکیم کی منظوری دی، وہ کونسی اسکیم ہے۔ اس کے بعد سب صحافیوں کو اپنے اپنے ہوٹل کے کمروں میں پہنچا دیا گیا۔ دوسرے دن صبح سویرے سارے صحافیوں کو گاڑیوں میں بٹھایا گیا، یہ گاڑیاں ایک لمبی مسافت طے کرکے ایک ایسی جگہ پہنچیں جس کے بارے میں بتایا گیا کہ ہم سرائیکی علاقے کے صحرا میں پہنچ گئے ہیں۔ پھر گاڑیاں صحرا میں اتر گئیں۔ اس وقت اندھیرا چھا رہا تھا اور مٹی کا بھی ہلکا طوفان تھا۔ اچانک گاڑی میں بیٹھے ہوئے صحافی حیرت زدہ ہوگئے کیونکہ صحرا میں دور ٹریکٹرز کی آوازیں اور روشنیوں کا سمندر نظر آیا، وہاں ٹریکٹرز زمین کھود رہے تھے۔ وہاں پہنچنے پر ہمیں بتایا گیا کہ یہ گریٹر تھل کینال کھودی جا رہی ہے۔ یہ سن کر میری چیخ نکل گئی۔ اب تک نہ کسی ادارے سے اس کی منظوری لی گئی ہے اور نہ دوسری رسمی کارروائیاں مکمل ہوئی ہیں اور گریٹر تھل کینال وجود میں آ رہا ہے۔

(کالم نگار کے نام کیساتھ ایس ایم ایس اور واٹس ایپ رائےدیں00923004647998)

تازہ ترین