• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

پاکستان کے وزیراعظم عمران خان نے کہا تھا کہ وہ کشمیریوں کے سفیر ہیں، نیویارک میں ابھی تک ہونے والی ملاقاتوں میں عمران خان نے اپنے اس قول کو سچ ثابت کیا ہے۔

وہ سارا دن دنیا کو کشمیر کا مقدمہ بتاتے ہیں، اسی طرح وہ اسلام کے بارے میں منفی پروپیگنڈا بھی بدلنے کی کوشش کر رہے ہیں، اسی لئے انہوں نے ایک اسلامی چینل کھولنے کا فیصلہ کیا ہے، اس چینل کے لئے ترکی اور ملائشیا کی معاونت بھی ہوگی، یقیناً یہ چینل دنیا کو اسلام کے بارے میں آگاہی فراہم کرے گا، اسلام کی عظمت رفتہ کی کہانیاں بیان کرے گا، شکر ہے مسلمان ملکوں کو یہ سوچ تو آئی کہ کوئی ایسا بین الاقوامی چینل ہونا چاہئے جو ان کا موقف حقائق کے ساتھ پیش کر سکے۔

عمران خان نے دنیا کو یہ بھی بتایا ہے کہ ’’ہمارا اسلام وہ ہے جو حضرت محمدؐ لے کر آئے ہیں، اسلام مختلف قسموں کا نہیں بلکہ ایک ہی اسلام ہے‘‘۔ جس بہتر انداز میں عمران خان نے کشمیر اور اسلام کا مقدمہ پیش کیا ہے شاید پچھلے ستر برسوں میں کوئی مسلمان رہنما ایسا نہیں کر سکا۔

اگر عمران خان کے پاس ٹیم عمدہ ہوتی تو یقیناً اس میں اور بہتری آ سکتی تھی۔ اب عمران خان اکیلا کشمیر کا مقدمہ لڑ رہا ہے۔ وہ جمعہ 27ستمبر کو اقوام متحدہ کی جنرل اسمبلی میں کشمیر کا مقدمہ بڑے شاندار انداز میں پیش کریں گے، وہ اسلام کے بارے میں مغربی دنیا کے خیالات کو بدلنے کی کوشش بھی کریں گے۔

25ستمبر کی شام تک عمران خان ستر سے زائد اہم ملاقاتیں کر چکے ہیں، ان ملاقاتوں میں عمران خان کی شخصیت نمایاں رہی بلکہ لطیفے کے طور پر کہا جا رہا ہے کہ عمران خان نے دو تین دنوں میں جتنی انگریزی بولی ہے اگر وہ پرچیاں پڑھتے تو تین چار بوریاں بھر جاتیں۔

اگرچہ عمران خان کی ٹیم میں بہت نقائص ہیں مگر پھر بھی عمران خان کی صورت میں ایک ایسا شخص پاکستان کا وزیراعظم ہے جو بڑی جرأت مندی سے بات کرنے کا حوصلہ رکھتا ہے۔ ٹیم کا اندازہ تو آپ صرف اس بات سے لگا لیں کہ وزیراعظم کی نیویارک موجودگی کے دوران آزاد کشمیر کے کچھ حصوں میں زلزلہ آیا تو زلزلہ زدگان کے پاس صرف ڈاکٹر فردوس عاشق اعوان پہنچیں، باقی وزراء اور مشیر سوئے رہے، انہیں زلزلہ زدگان کا خیال نہ آسکا، ہاں البتہ صحت کے مشیر ڈاکٹر ظفر مرزا نے ادویات ضرور روانہ کیں، باقی تو یہ کام بھی نہ کر سکے۔ باقی سارا کام افواج پاکستان کر رہی ہیں۔

آپ سوچ رہے ہوں گے کہ میں نے عمران خان کو اتنا کیوں سراہا ہے؟ اس کی گواہی تو گوگل نے دی ہے۔ گوگل پر سرچ کئے جانے والے عالمی رہنمائوں میں ڈونلڈ ٹرمپ کے بعد عمران خان کا نمبر ہے، آئی ٹی کی دنیا پر راج کرنے والے بھارتیوں کا مودی خیر سے پانچویں نمبر پر ہے۔ عمران خان نے اپنی صلاحیتوں کا لوہا خود منوایا ہے۔ وہ انتھک ہیں، اسمارٹ ہیں، محنتی ہیں، دلیری سے موقف پیش کرنے کا ہنر رکھتے ہیں۔

اسی لئے نیو یارک میں مودی کو خاطر خواہ کامیابی نہیں مل رہی ورنہ انڈین کمیونٹی نے مودی کے لئے بہت کچھ کر دیا تھا۔ ہیوسٹن میں مودی کے جلسے سے ایک روز پہلے ایک انڈین کمپنی نے امریکیوں کے ساتھ پچیس ارب ڈالرز کے معاہدے کئے۔ یہ معاہدے آئل اینڈ گیس سیکٹر میں ہیں، انڈین کمپنی آئل ریفائنری خریدے گی۔ دو ہزار نوکریاں امریکیوں کو دے گی۔

امریکہ میں مقیم بھارتیوں نے ڈونلڈ ٹرمپ کو الیکشن مہم کے لئے پانچ ملین ڈالر دیئے، اسی لئے ہیوسٹن کے جلسے میں ٹرمپ کے علاوہ چار وزیر، بائیس اراکین کانگریس اور آٹھ سینیٹرز شریک ہوئے مگر یہ سب کچھ بھی امریکیوں کا پورا ساتھ نہ خرید سکا کیونکہ جب جلسے میں مودی نے یہ کہا کہ ’’ہم نے کشمیر کے لئے آرٹیکل370 ختم کر دیا ہے، کھڑے ہو کر میری تائید کرو‘‘ سب لوگ کھڑے ہوگئے مگر امریکی صدر اور دیگر امریکی اراکین بیٹھے رہے، افسوس پاکستان میڈیا اس ’’بیٹھک‘‘ کو لوگوں کے سامنے نہ لا سکا حالانکہ پاکستانی میڈیا کو یہ کہنا چاہئے تھا کہ امریکی قیادت نے آرٹیکل 370پر مودی کے موقف کو مسترد کر دیا۔

افسوسناک پہلو یہ ہے کہ ہزاروں خدائوں کے ماننے والے ایک ہو چکے ہیں اور ایک خدا کو ماننے والے تقسیم ہو چکے ہیں۔ ہزاروں خدائوں کے ماننے والوں نے مودی کے لئے تین ملین ڈالر صرف جلسے پر خرچ کئے، بائیس سو رضاکار کئی دنوں تک ڈیوٹی ادا کرتے رہے۔ افسوسناک بات یہ ہے کہ پاکستانی، پاکستان کے لئے ایک نہیں ہوتے، یہی حال مسلمان ملکوں کا ہے۔ اس وقت یہود و ہنود کی چال کو سمجھنے کی ضرورت ہے، ان دونوں نے تین مسلمان ملکوں کے لئے ایک خوفناک منصوبہ تیار کیا ہے۔

منصوبہ یہ ہے کہ جس وقت انڈیا، پاکستان پر حملہ کرے تو عین اسی وقت سعودی عرب کو ایران سے لڑوایا جائے تاکہ ایران خفیہ طور پر پاکستان کی مدد نہ کر سکے اور نہ ہی سعودی عرب ظاہری طور پر پاکستان کی مدد کر سکے۔ اسی طرح جنگ میں الجھا ہوا پاکستان اپنے برادر اسلامی ملک ایران کی کوئی مدد نہ کر سکے۔

اس کے علاوہ پاکستان سعودی عرب کی بھی عسکری مدد نہ کر سکے۔ یہ تینوں ملک کسی ایک کی مدد نہ کر سکیں، اس دوران اسرائیل اپنے پائوں پھیلانے میں کامیاب ہو جائے، اس کی نظریں اردن کے علاوہ سعودی عرب کے کچھ حصے پر لگی ہوئی ہیں۔

عمران خان سعودی عرب اور ایران کے مابین ثالثی کروانے میں کامیاب ہو گئے تو یہودیوں کا خواب بکھر جائے گا، ابھی تک واشنگٹن بھارت کی بات نہیں مان رہا، امریکی صدر پاکستان کو دہشت گرد ماننے کے لئے تیار نہیں، ڈونلڈ ٹرمپ پاکستانی وزیراعظم کے علاوہ پاکستان کی تعریف کر رہے ہیں، ہمیں ایک اہم مسلمان کی حیثیت سے موثر اور اہم کردار ادا کرنا ہوگا۔ بقول اقبالؒ:

منفعت ایک ہے اس قوم کی، نقصان بھی ایک

ایک ہی سب کا نبیؐ، دین بھی، ایمان بھی ایک

حرم پاک بھی، اللہ بھی، قرآن بھی ایک

کچھ بڑی بات تھی ہوتے جو مسلمان بھی ایک

تازہ ترین