• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

وزیراعظم عمران خان گرجے تو اتنا گرجے کہ گونگی بہری بین الاقوامی برادری کے کان کے پردے اگر پھٹے نہیں تو اُن میں کچھ چھید ضرور پڑے ہوں گے کہ کلامِ نرم و نازک کب کا بے اثر ہو چلا تھا۔ 

اب گونگا بولے تو کیا بولے گا، سوائے اس کے کہ درجۂ حرارت کم کیا جائے۔ لیکن درجۂ حرارت کم کیسے ہو جب وادیٔ کشمیر کو دوزخ بے نظیر بنے 56 روز ہو چکے، کشمیریوں کو کھانے کو روٹی ہے نہ پینے کو پانی، دوا ہے نہ کاروبار اور اُوپر سے ہر گلی چوک میں کھڑا بندوق بردار جسے کچھ بھی کرنے کی کھلی چھوٹ۔ گولی مارے یا گھر میں گھسے۔ 

ہفتہ بھر سے عمران خان ہر کسی کے دامن کو حریفانہ کھینچتے کھینچتے زچ ہو چکے تھے تو جنرل اسمبلی میں وہ اپنے خطاب میں پھٹ پڑے۔ منی لانڈرنگ اور اسلاموفوبیا سے شروع ہو کر ان کی تان کشمیر پہ ٹوٹنے کو نہ آئی۔ 

اُن کی تقریر کو جہاں جہاں ہو سکا کشمیریوں نے ضرور سُنا ہوگا اور انہیں حوصلہ ملا ہوگا کہ اگر کوئی عملاً کچھ کر نہیں رہا تو ان کے لیے کوئی ببانگِ دہل بول تو رہا ہے۔ 

اصل میں اُن کی تقریر داخلی سامعین کے لیے تھی۔ منی لانڈرنگ پہ مغربی دُنیا کو طعن و تشنیع اُن کے حلقۂ انتخاب کے نوجوانوں کو بہت بھائی، بھلے حزبِ اختلاف اس پہ کیسی ہی بھنّائی ہو۔ 

اسلاموفوبیا پہ اُنھوں نے ریاستِ مدینہ کا بیانیہ دہرایا کہ مولانا فضل الرحمن کی ختمِ نبوت کے حوالے سے جاری مہم کے غبارے سے ہوا نکال دی اور کشمیر پہ اُنہوں نے وہ سب کچھ کہہ دیا جو کوئی عقاب تصور بھی نہیں کر سکتا تھا۔ 

وزیراعظم کے پاس کشمیر میں انسانی حقوق کی خوفناک پامالی پر ایک زبردست کیس تھا اور ایک ایسے مذہبی انتہاپسند لیڈر کے خلاف جس نے بھارت کے سیکولر و جمہوری چہرے کو ہندتوا کی سیاہی سے بچانا مشکل تر ہو چلا ہے۔

عمران خان نے کسی بھی گھس بیٹھیے کی سرحد پار دراندازی کو کشمیریوں اور پاکستان سے دشمنی کے مترادف قرار دیتے ہوئے، اقوامِ متحدہ کو پاکستان میں کسی بھی دہشت گرد کی کمیں گاہ کا پتا لگانے کی دعوت دے کر دراصل اُس متضاددُہرے معیار والے کرم خوردہ بیانیے سے اپنا دامن بچا لیا جس پر کسی کو اعتماد نہ تھا۔ 

اُلٹا، عالمی برادری کو دھمکیوں کی سفارت کاری (Diplomacy of Forewarnings) سے حفظِ ماتقدم کے طور پر کشمیریوں کی ممکنہ مزاحمت، بھارتی فوج کے ہاتھوں کشمیریوں کا آئندہ قتلِ عام، پلوامہ طرز کے اشتعالی ڈرامے، ممکنہ جنگ اور پھر نیوکلیئر عالمی تباہی تک ترکش کے ہر تیر کو آزما ڈالا۔ 

اب ٹیلی وژن کی اسکرینوں پہ جاری جنگجوئیت پسند بیانیے کو وہ انگیخت ملے گی کہ کچھ اور سنائی نہ دے گا۔ پرچیوں کے محتاج مگر شاطر لیڈروں سے بیزار رائے عامہ کو اب بغلیں بجانے کو ایسا لیڈر مل گیا ہے جو ایٹمی گھوڑے پہ سوار ہے اور جو دل کی بات سُنتا اور بے دھڑک کہہ دیتا ہے، چاہے دُنیا جل مرے۔

جو عقل کا غلام ہو وہ دل نہ کر قبول! عمران خان کی تقریر سے پہلے ایک ٹھنڈا لیکن خود ستائشی اور ہندوستان کی تاریخی اور موجودہ بڑائی کے گُن گاتا خطاب ہوا۔ 

یہ دُنیا کی سب سے بڑی جمہوریت میں تمام جمہوریتوں میں پڑنے والے ووٹوں کے قریب قریب ووٹ لے کر کامیاب ہوا تھا۔ جس کے پاس دُنیا کو مالی رغبت دینے کو اگر 130 کروڑ لوگوں کی نہ سہی، 20/25 کروڑ کھاتی پیتی مڈل کلاس کی منڈی ضرور ہے جو اب 5 کھرب ڈالرز (اس وقت 2 کھرب ڈالرز) کی معیشت کی ہڈیاں امریکہ سمیت سب کے آگے پھینک رہا ہے۔ 

جو راشٹریہ سوائم سیوک سنگھ (RSS) کا تربیت یافتہ کارسیوک ہے، جس کے آئیڈیلز گاندھی جیسے امن پسند اور جواہر لعل نہرو جیسے سیکولر جمہوریت پسند نہیں بلکہ ہندو فاشسٹ گولوالکر کا پیروکار ہے جس کا نظریہ صرف ’’ہندو نسل‘‘ کی بالادستی اور ہٹلر کی نسل پرستی جیسا ہے۔ 

لیکن مودی نے حوالہ دیا بھی تو ایک دراوڑی تامل شاعر کنیان کا: ’’یادھم اورے، یوودرم کیلر‘‘ یعنی ’’تمام دُنیا کے سبھی لوگ اپنا خاندان ہیں‘‘ جو کہ حملہ آور آریائوں کی یدھ پرستی اور ذات پات کی تفریق کے نظریے سے اُلٹ ہے۔ ابھی ابھی وہ اسی ایجنڈے پہ عمل کرتے ہوئے کشمیر کی خصوصی حیثیت اور ’’خود مختاری‘‘ کو ختم کرنے کے بعد پوری وادیٔ کشمیر کے لوگوں کو اجتماعی سزا کے طور پر کرفیو میں بند کر کے آیا تھا۔ 

لیکن بھارتی وزیراعظم مودی نے کشمیر کا ذکر کیا، نہ پاکستان کو کوئی دھمکی دی۔ بلکہ خودستائی کا دفتر کھول دیا، یہ بتائے بغیر کہ دُنیا میں غریبوں کی سب سے زیادہ تعداد ہندوستان میں ہے۔ 

یا پھر ماحولیات کا ذکر جس میں آلودگی کے پھیلائو میں چین کے بعد بھارت دوسرے نمبر پر ہے۔ کشمیر پہ اگر اس نے پناہ لی بھی تو اتنت واد یعنی ’’اسلامی دہشت گردی‘‘ کی گرہ لگا کر۔ جنرل اسمبلی میں تقریر کرنے وہ آیا بھی تو ہیوسٹن میں 50 ہزار انڈین امریکیوں کے بڑے اجتماع میں ٹرمپ کو دوبارہ صدر بنوانے کی انتخابی مہم شروع کر کے یا پھر تین عرب ملکوں سے اُن کے سب سے بڑے اعزاز حاصل کرنے کے بعد اور آخر میں بل گیٹس سے توصیفی سند پا کر۔ 

اب بھارت کے میڈیا کے جنگجو حصے کو مودی کی تقریر میں کوئی آتشیں مواد نہ ملا تو وہ پِل پڑا عمران خان کی آگ بگولہ کر دینے والی تقریر پر یا پھر مودی کو ورلڈ اسٹیٹس مین بنانے کی خفت آمیز آرزو لیے۔ 

کشمیر پہ تاریخی یُدھ اب ایک نازک موڑ پہ ہے۔ عمران خان نے ایشیا سوسائٹی سے اپنے خطاب میں سبھی کشمیریوں جس میں آزاد کشمیر بھی شامل ہے کے حقِ خود ارادیت کی بات کر کے اصولی موقف کو استقامت بخشی ہے۔ 

لیکن ہمارے شعلہ بیاں وزیراعظم کو اپنے خطاب کے بعد نئی حکمتِ عملی پر غور کرنا ہوگا کہ برصغیر کشمیر کے مسئلہ کے باعث باہمی یقینی تباہی کا متحمل نہیں ہو سکتا۔ نہ ہمیں ایٹمی جنگ کے خطرے کو اتنا اُٹھانا چاہیے کہ عالمی برادری پہلے اس کے حل پہ مائل ہو جائے۔ ویسے بات چیت کے لیے عمران خان نے شرط تو عملیت پسندانہ ہی رکھی ہے کہ کرفیو اور بندشوں کو ہٹایا جائے اور گرفتار شدگان کو رہا کیا جائے تو پھر بات ہوگی۔ 

یہی امریکی نائب وزیرِ خارجہ برائے جنوبی ایشیا ایلس ویلز نے بھی کہا ہے کہ زورِ بیاں ذرا کم اور یہ جانتے ہوئے کہ گرجنے اور برسنے میں فرق ہے۔ باقی اللہ جانے برصغیر کا کیا بنے گا۔ 

یہاں تو ’’ہم نہیں تو تم بھی نہیں‘‘ کا کھیل چل رہا ہے۔ اللہ برصغیر کو امان میں رکھے اور کشمیریوں کو سکھ کا سانس نصیب کرے۔

تازہ ترین