• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

خوش الحانی اور شیریں بیانی ہو یا جوش خطابت و شعلہ بیانی، یہ سب کس دل میں نہیں اترتے؟ لحنِ داؤدی ہو، پھر طرزِ تکلم دلیل کی چاشنی سے بھی لبریز ہو تو اللہ اللہ! اقوام متحدہ کی جنرل اسمبلی کے 74ویں اجلاس میں خان کے خطاب کو حسب عادت قوم نے بہت سراہا۔ اس تزکرہ بعد میں،پہلے قبل از خطاب کا کچھ منظر نامہ:

امریکہ میں پاک بھارت وزرائے اعظم کی وکالتی و سفارتی اور سیاسی و ثقافتی سرگرمیوں کا میلہ لگا ہوا ہے۔ سماں کچھ ایسا ہی ہے جیسے ڈونلڈ ٹرمپ، عمران خان اور نریندر مودی انتخابی مہم پر ہوں۔ ٹرمپ اس کوشش میں ہے کہ چالیس لاکھ ڈیمو کریٹ بھارتی امریکیوں کے دل جیت سکے۔ مودی کی یہ کوشش کہ واشنگٹن ڈی سی کے کیپیٹل ون ایرینا میں عمران خان کی کامیابی کی جو دھاک بیٹھی اس کا سحر توڑ سکے سو اس نے انہی سیاسی بنیادوں کو مدنظر رکھتے ہوئے ہیوسٹن میں ٹرمپ کی سنگت میں ایک جلسے سے خطاب کیا۔ عمران خان اس میں سرگرم عمل کہ معیشت کیلئے ٹرمپ کارڈ کھیل گزریں اور ایرینا جلسے کا تاثر بھی جوں کا توں رہے جسے تحریک انصاف سیاسی و سفارتی کامرانی گردانتی ہے۔

ٹرمپ ایک تیر سے تین شکار کی حکمت عملی کے ساتھ میدان میں ہے۔ 1، ڈیمو کریٹک پارٹی سے پاکستانی اور بھارتی امریکیوں سے ووٹ چھیننا چاہتا ہے۔ 2، افغانستان اور ایران سے مطلوبہ نتائج کی پاداش میں پاکستان کو نہیں کھونا چاہتا۔ 3، بھارت سے بزنس کے رشتے کی تقویت مطلوب ہے۔ باہمی مفادات کی یہ مثلث اپنے اپنے اعتبار اور زاویوں سے تاحال ٹھیک جا رہی ہے مگر آنے والا وقت بتائے گا کہ کون کتنے پانی میں ہے۔ ان سب چیزوں کے باوجود ٹرمپ کو جذبات میں بے قابو نہیں ہونا چاہئے تھا اور ہیوسٹن کے جلسے میں مسلم مخالف بات کرنا یا دہشت گردی کا الزام کسی صورت میں مناسب نہیں تھا۔ خیر خان نے درست جواب دیا۔ اس مجمعے کے بعد بھی، کشمیر پر ثالثی کی بات کرنے والے ٹرمپ نے انسانی حقوق کے معیار و وقار اور مقبوضہ کشمیر میں مظالم کو یکسر نظرانداز کیا جو کسی طرح بھی بڑے رہنما کو زیب نہیں دیتا۔ جہاں تک ہماری سفارت کاری کا تعلق ہے اس میں وزارت خارجہ کے پلے کل کچھ تھا نہ آج ہے۔ اگر کچھ پیش رفت ہے تو سب خود وزیراعظم کے سبب۔

پچھلے دنوں اقوام متحدہ کی انسانی حقوق کونسل کے جنیوا اجلاس میں مسئلہ کشمیر ایجنڈے پر ہونے کے باوجود ہمارا قرارداد نہ لا سکنا کیا ہے؟ حالانکہ جنیوا جانے سے قبل وعدۂ قریشی تھا کہ وہ قرارداد پیش کر کے منظور بھی کروائیں گے جبکہ انسانی حقوق کونسل کے اس بیالیسویں اجلاس کے ایجنڈے میں مسئلہ کشمیر سرفہرست تھا، ہائی کمشنر میچیل بیچیلیٹ نے اپنی افتتاحی تقریر میں اس کا بطور خاص ذکر بھی کیا۔ مگر ہم کم سے کم 16ممالک کی حمایت کی شرط پوری نہ کر سکے۔ آخر کیوں؟ یہ سوال بہرحال جواب طلب رہے گا تاہم وزیراعظم کی یو این جنرل اسمبلی کی تقریر نے کافی میک اَپ کر دیا۔

قابل غور یہ کہ نفرتوں کے جس نصاب ساز کو ایک دہائی تک امریکہ میں داخل ہونے کی اجازت نہ تھی، جس نے طور طریقے بدلے نہ خیالات، پھر بھی وہ امریکی صدر کو لبھاتا ہے تو وجہ ’’بزنس‘‘ ہے نا۔ ہم یہ تسلیم کرلیں کہ کسی کا بزنس بے شک نفرتیں اور قتل و غارت ہی کیوں نہ ہو، امریکہ کو اپنے بزنس سے بزنس ہے، انسانی حقوق اس کا بزنس نہیں رہا۔ جہاں بات ہی انسانیت کی ہو تو اسی گلوبل ویلیج کی باسی انسانی حقوق کونسل برائے اقوام متحدہ اور عالمی برادری کو کشمیر کا لہو، زخم اور لاشے نظر کیوں نہیں آتے؟ وزیراعظم پاکستان کی امن پسندی نظر کیوں نہیں آتی؟ اعتماد دیا ہوتا تو پاکستان، ایران اور افغانستان سے متعلقہ خدشات اور معاملات کا حل کب کا عالمی برداری کو دے چکا ہوتا۔ کیا عالمی سطح پر اپنی اداؤں پر غور کرنے کا رواج دم توڑ چکا؟ ایسے ہی سوالات عمران خان کی تقریر میں تھے۔ بطور خاص یہ سوال پوچھنا کہ اگر آٹھ ہزار ہی یہودی محصور ہوں تو یورپ و امریکہ یا یہودی قوم کیا سوچے گی؟ کیا انہیں درد نہیں ہوگا؟

عمران خان کی قابل تعریف تقریر کا جائزہ لیں تو دلائل، اعتماد اور دردِ دل بہرحال تھا، کشمیر کا مقدمہ خوب لڑا۔ انہوں نے موسمیاتی تبدیلی، اسلامو فوبیا، منی لانڈرنگ کا احاطہ بھی کیا۔ لیکن اقوام عالم سے 370اور 35اے دفعات کی بحالی کا مطالبہ اور معاملہ کیوں نہ کیا؟

رہی بات شعلہ بیانی کی تو بھٹو کی تو بات ہی الگ تھی تاہم سر ظفر اللہ سے آغا شاہی تک، سب نے بھی اقوام متحدہ میں سماں باندھے مگر مطلوبہ نتائج نہ سمیٹ سکے۔ تقریروں ہی کو دیکھنا ہے تو گینز بک میں طویل ترین تقریر کا ریکارڈ بھی کشمیر کے موضوع پر ہے، بھارتی نمائندہ کرشنا مینن کی یہ تقریر 8گھنٹے کی تھی۔ وہ بے ہوش ہو کر گرے مگر علاج کے بعد پھر ایک گھنٹہ بولے۔ کسی سربراہِ مملکت کی طویل ترین تقریر کا ریکارڈ فیڈل کاسترو کا ہے، 1960ء کی یہ تقریر شدید امریکہ مخالف تھی جس کا بدقسمتی سے مندوبین یا میڈیا نے کوئی اثر نہ لیا۔ تقاریر میں صدر وینزویلا ہوگو شاویز نے صدر بش کو شیطان تک کہا اور نوم چومسکی کی کتاب لہرائی، یاسر عرفات نے یہودیوں اور اسرائیل کی اینٹ سے اینٹ بجائی، خروشحیف نے مخالفین کے زندہ دفن کرنے کی بات کی۔

اس صداقت عامہ کو نظر انداز کرنا بھی محال ہے کہ اقوام متحدہ میں آمر سےمنتخب و غیر منتخب تک سب وکالت اور تقریریں تو اچھی کرتے ہیں مگر اس ظالم دنیا نے لیڈر صرف اسے ہی مانا جس نے ملک کے داخلہ و معاشی امور کو سنبھالا دیا۔ علاوہ بریں اپنی قومی اسمبلی میں کمائی ہوئی عزت، رواداری اور جمہوریت ہی اقوام متحدہ کی جنرل اسمبلی میں کیش ہوا کرتی ہے!

تازہ ترین