1978ءمیں جنوبی یونان کے ایپی ڈیما نامی غار میں علم بشریات کے ماہرین کی ایک ٹیم نے دو جڑی ہوئی انسانی کھوپڑیاں دریافت کی تھیں۔ جن میں سے ایک کا چہرہ بگڑا ہواتھا جب کہ دوسری کابائیں طرف کا صرف دماغی خول باقی تھا۔ اس وقت محققین کا خیال تھا کہ غالباً یہ دونوں کھوپڑیاں نینڈرتھل یا شاید کسی اور قدیم انسانی نوع کی ہوں گی۔
جو دونوں ایک دوسرے میں جڑ کر پتھرکا ایک بلاک بن گئی تھیں۔ان کی بابت خیال تھا کہ غالباً دونوں کھوپڑیاں ایک ہی انسان کی ہوں گی اورشایدا ن کا زمانہ بھی ایک ہی رہا ہوگا۔ یہ بات ٹیوبنجن میں قائم ایبر ہاڑڈ کارل یونیورسٹی کی ماہرین کیٹر ینا ہارواتی نے بتا ئی تھی ۔لیکن کچھ عر صے بعد یہ خیال غلط ثابت ہوا ،کیوں کہ جدید تیکنیک کے ذرائع سے ان کے مکمل جائزے کے بعد ہارواتی اور اس کے ساتھیوں نے یہ دیکھا کہ عمر اور شناخت میں دونوں ہی مختلف ہیں ۔
چہرہ والا رکاز (fossil) جس کو ایپی ڈیما 2 کا نام دیا گیا ہے ۔یہ 170,000 سال قدیم نینڈرتھل کی نوع کا ہے ،جس میں تعجب کی کوئی بات نہیں ۔لیکن دوسرا حصہ جسے ایپی ڈیما 1 کہا گیا ہے ہماری اپنی نوع کا ہے جو 210,000 سالہ قدیم ایک جدید انسان (ہوموسیپین )کی کھو پڑی کا حصہ ہے اور اگر اس ٹیم کے تحقیقی نتائج کو تسلیم کیا جائے تو افریقی بر اعظم سے باہر کسی جدید انسان کا ملنے والا یہ قدیم ترین نمونہ ہے ،جس نے اسرائیل کے مسلیہ غار سے ملنے والے جبڑےکی ہڈی کے نمونے کا توڑ دیا ہے جو صرف 180,000 سال قدیم ہے ۔ہارواتی کے مطابق مجھے پہلے تو یقین ہی نہیں آیا تھا لیکن ہمارے تما م جائزوں کے نتائج ایک جیسے تھے ۔
اب تک زیادہ تر محققین نے ان دونوں میں سے زیادہ بڑی کھوپڑی پر اپنی توجہ مرکوز کی ہوئی تھی اور ایپی ڈیما 1 کو نظر اندازکیا تھا ۔سائنس دانوں کا کہنا ہے کہ جب کہ اس کی قدامت 3 وجوہات کے سبب زیادہ اہم ہے ۔پہلی یہ کہ اس کے سبب افریقا سے باہر جدید انسان کی موجود گی 30,000 سال پیچھے چلی جاتی ہے ۔
دوسری یہ کہ یورپ میں ملنے والےہوموسیپین کے تمام رکازات کے مقابلے میں یہ زیادہ قدامت رکھتی ہے ۔ جو کہ سب کے 40,000 سال تک قدیم ہیں اور تیسری وجہ یہ ہے کہ اپنے ساتھ ملنے والے نینڈر تھل کے رکاز کی بہ نسبت جدید انسان کی یہ کھو پڑی زیادہ قدامت کی حامل ہے۔ انسان افریقا سے نکل کر یورپ میں آئے تو وہاں پر پہلے سے موجود کامیاب نینڈر تھل انسان نما ان کی آبادکاری میں رکاوٹ بن گئے ۔اس سے یہ بات معلوم ہوتی ہے کہ ہوموسیپین جنوبی یورپ کے راستے سے ایشیا کی طر ف کیوں چلے گئے تھے ۔
جس کےسبب ان کا 40,000 سال سے زیادہ قدیم کوئی بھی رکاز یورپ میں نہیں ملتا ۔یورپ نینڈر تھل کا قلعہ تھا ،جس میں ہوموسیپین کاداخلہ نہیں ہو سکا تھا ۔یہ بات یونیورسٹی آف بورڈ یکس کی ماہر بشریات ریبیکا وریگ سائکس نے بتائی تھی ۔ لیکن210,000 سال قدیم ہوموسیپین کے رکاز کی موجود گی اس خیال کی تکذیب کرتی ہے ۔
ماہرین کے مطابق اس سے یہ معلوم ہوتا ہے کہ ہوموسیپین کا گروپ بہت پہلے ان علاقوں میں رہتا تھا جو بعد میں نینڈر تھل نوع کی رہائش کے لیے استعمال ہوئے تھے ۔نیویارک یونیورسٹی کی آثار قدیمہ کے ماہر شارا بیلی کا کہنا تھا کہ اس طر ح کی دریافتیں بہت اہم ہیں جن سے ہمیں اپنی نوع کے ارتقا ء کی بابت معلومات حاصل ہوتی ہیں ۔
ایپی ڈیما 1 کی شناخت یورپ سے ملنے والے پتھر کے آلات کے ساتھ رکازات کا نہ ملنا دوسرے آثار کی بابت شبہات پیدا کرسکتا ہے ۔جیسے کہ محققین اس بات کو مانتے ہیں کہ ایک زمانے میں یورپ سے ملنے والا ہر آلہ نینڈر تھل کا ساختہ تھا ۔
وریگ سائکس کا کہنا تھا کہ اگر جدید انسان بھی اس زمانے میں موجود تھے تو پھر دونوں انواع میں وہ کون سی نوع تھی ،جس نے یہ آلات بنائے تھے ؟یہ تمام بیانات ایپی ڈیما 1 کے زمانے کے سائنسی تعین پر منحصر ہیں جو بات ہمیشہ ہی مشکلات کا باعث ہوتی ہے ۔یہ دونوں کھوپڑیاں بہت ہی غیر معمول جگہ پر یعنی ایک غار کی چھت کے نیچے بنی ہوئی چھوٹی سی محراب سے ملی ہیں۔
جو کسی بھی گرد یا مٹی سے علیحدہ تھیں جو اس کے زمانہ کے تعین میں آسانی کا باعث ہوسکتی تھی اور وہ ایک خاص قسم کی چٹان میں پیوست تھیںجو مختلف چیزوں کے ٹکڑوں کے جڑ نے سے چٹان بن گئی تھی۔ ایسا لگتا ہے کہ جیسے برفانی دور آیا تھا، جس کے سبب سمندر کی سطح بھی اوپر نیچے ہوئی تھی، جس سے غار کے کچھ حصوں میں پانی داخل ہونے سے غار بھی ٹوٹ گئی تھی،اسی لیے دونوں اپنی پرا نی جگہ سے گڑھے میں گرنے کے بعد ایک لمبے عر صے میں چٹان کا حصہ بن گئیں ۔
ہارواتی کی ٹیم نے ان کی عمریں دریافت کرنے کے لیے ان میں یورینیم کی قلیل مقدار کا جائزہ لینے کے بعد دونوں کھوپڑیوں کا اسکین (scan) کیا تھا ،جس کےبعد ان کے غائب شدہ حصوں کو بناکر ان کو اس طرح مکمل کیا تھا جیسے وہ اپنی ٹوٹ پھوٹ اور بگاڑ سے پہلے اپنی زندگی میں نظرآتے ہوں گے اور پھر ان کی تھری ڈی شکلوں سے دوسری انسانی انواع سے ان کامقابلہ کیا تھا۔ اس موازنہ میں ایپی ڈیما 2واضح طور پر نینڈر تھل سے مماثلت رکھتا تھا جب کہ ایپی ڈیما 1 جدید انسانوں کی کھوپڑیوں کے گروپ میں نظر آتا تھا۔
سائنسدان کھوپڑی کی پشت سے کتنی معلومات حا صل کرسکتے ہیں ، کیوں کہ جب مختلف انسانی انواع کا آپس میں مقابلہ کرنا ہو تو یہ حصہ بہت سی اہم معلومات فراہم کرتاہے۔ ماہرین کا کہنا تھا کہ ایپی ڈیما1میں کئی خصوصیات کی کمی ہے جو نینڈرتھل کاخاصہ ہوتی ہی۔مثلا ًجدید انسان کی گول شکل لازمی طور پر اس کی مخصوص انسانی شناخت ہے جو نسبتاً کافی بعد میں ارتقا پذیر ہوئی تھی۔
مراقش کے جبل ارحود سے ملنے والے 3,00,000 سال قدیم ہڈیاں اس بات کی طرف اشارہ کرتی ہیں کہ ہماری نوع انسانی ایک دوسرے سے مختلف آباد یوں میں سے نمودار ہوئی تھی جو افریقا میں پھیلی ہوئی تھیں۔ چناں چہ اسرائیل کے مسلیہ اور یونان کے ایپی ڈیما غار کی کھوپڑیوں سے ہمیں یہ معلوم ہوتا ہے کہ شروع کے انسان بعد میں مختلف بر اعظموں میں پھیل گئے تھے اور دوسری انسانی انواع سے جدید انسان نے بہت پہلے زمانہ میں تعلق قائم کیا تھا، جس کی بابت اس سے پہلے کسی نے سوچا بھی نہیں تھا۔
ایپی ڈیما کی کھوپڑی سے یہ بھی معلوم ہوتا ہے کہ آخر کار جدید انسان نے یورپ میں مقتدر نینڈر تھل انسان نما کی جگہ حاصل کرکے کامیابی حاصل کرلی تھی۔ ہارواتی کا خیال ہے کہ جدید انسان 2,00,000سال قبل بھی یونان میں موجود تھے۔ جن کی جگہ نینڈرتھل نے لی تھی۔ 4,00,000 سال قبل پھر جدید انسانوں نے حاصل کر کے نینڈر تھل کو ہٹا دیا تھا ۔
اس طر ح کے مقابلے میں نینڈر تھل اور جدید انسان با ر بار ایک دوسرے سے مقابلہ کے چکر میں بار بار ایک دوسرے کو ہٹاتے رہے تھے اور ایسا ہی لیوینٹ میں بھی ہوا تھا جو مشرق وسطی کا خطہ تھا، جس میں شام اور اسرائیل شامل تھے۔ہم اس کو ہومو سیپین کی کامیابی قرار نہیں دے سکتےہیں کہ وہ نئے علاقوںمیں داخل ہوکر وہاں پر ٹھیر گئے تھے۔ وریگ سائکس کا کہنا ہے کہ یقینا ًیہ بھی مملن ہے کہ دونوں انسان نما ایک ساتھ رہتے ہوں۔
اس تحقیق کے لیے سب سے بہترین جگہ یونان ہو گی ،کیوں کہ یہ تین بر اعظموں کے سنگم پر ایسی جگہ ہے جہاں پر انسان اور جانور برفانی ادوار کے عروج میں بھی زندہ رہ سکتے تھے۔ ہارواتی کے مطابق یہاں پر آپ ان علاقوں میں آبادی کے پھیلاؤ اور ان کے اجتماع کی جگہوں کی بابت پیش گوئی کرسکتے ہیں اور یہ بھی معلوم کرسکتے ہیں کہ مختلف انسانی انواع کی ملاقات کے کتنے مواقع موجود تھے۔ اسی لئے آپ اس جگہ پریورپ کے دور دراز علاقوں کی بہ نسبت مختلف انسان نمائوں کے رکازات کے ریکارڈکی دریافت کی بابت زیادہ پر اُمید ہوسکتے ہیں۔
گو اس علاقہ میں شایدزیادہ ریکارڈ نہیں ہوگا لیکن یہ جگہ ہماری ترجیحات میں بھی نہیں رہی ہے۔ ا یپی ڈیما سے ملنے والی کھوپڑیوں سے یہ معلوم ہوتا ہے۔ مغربی یورپ اور لیوینٹ سے باہر بھی سیکھنے کے لیے بہت کچھ موجود ہے۔ جہاں پر ابھی تک ہماری ریسرچ محدود رہی ہے۔
ہم یہ معلوم کرسکیں گے کہ پہلی مرتبہ جدید انسان جن فائدوں سے محروم تھے بعد میں ان فائدوں کے حصول کے بعد ان کے ذریعہ نینڈرتھل پر مکمل بالا دستی حاصل کرلی تھی۔ سائنس دانوں کاخیال ہے کہ جدید انسانوں نے نینڈر تھل پر برتری اپنی عددی کثرت کی وجہ سے حاصل کرلی تھی، کیوں کہ مشرق وسطے کی معتدل آب وہوا آبادی میں اضافے کے لیے یورپ کی شدید سردی کے مقابلےمیں زیادہ سازگارتھی اور نینڈرتھل اپنی محدود آبادی کے سبب جدید انسانوں سے مقابلہ نہ کرسکے اور تقریبا10,000سال کے اندر معدوم ہوگئے ۔