• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

عالمی ادارۂ صحت کے زیرِ اہتمام دُنیا بَھر میں اکتوبر کی دوسری جمعرات کو ’’بصارت کا عالمی یوم‘‘منایا جاتا ہے۔ امسال یہ دِن10اکتوبر کو،جس تھیم کے ساتھ منایا جارہاہے،وہ ہے،"Blindness And Vision Impairment"۔ ایک محتاط اندازے کے مطابق دُنیا بَھر میں تیس کروڑ، ساٹھ لاکھ افراد اندھے پن کے مرض میں مبتلا ہیں، جب کہ صحت کے ایک جریدے (Lancet Global Health) میں شایع شدہ ایک رپورٹ میں خدشہ ظاہر کیا گیا ہے کہ اگر بینائی سے متعلق طبّی مسائل میں اضافے کی یہی رفتار رہی، تو 2050ء تک دُنیا بَھر میں اندھے پن کے شکار افراد کی تعداد ایک ارب پندرہ کروڑ تک پہنچ جائے گی۔ 

امراضِ چشم کے مریضوں کی تعداد کے اعتبار سے پاکستان دُنیا کا تیسرا بڑا مُلک ہے،جہاں دوکروڑ افراد بینائی کے مختلف عوارض کا شکار ہیں،جن میں 30لاکھ بچّے بھی شامل ہیں،جب کہ ان مریضوں میںسے 80فی صدمریض موتیا کے مرض میں مبتلا ہیں۔

یوں تو آنکھوں کی بے شمار بیماریاں ہیں،مگرہمارے یہاںنظرکی کم زوری، سفید اور کالا موتیازیادہ عام ہیں۔ سفید موتیا ایک ایسا عارضہ ہے،جس میں آنکھ کا عدسہ بتدریج دھندلا ہوکر بینائی تک ضایع ہونے کا سبب بن جاتا ہے۔ اصل میں عُمر کے ساتھ آنکھ کےعدسےمیں ٹوٹ پھوٹ سےگدلا پَن تو آتا ہے، لیکن بعض اوقات یہ اس حد تک بڑھ جاتا ہے کہ آنکھ کے اندر مکمل طور پر روشنی ہی نہیں پہنچ پاتی،جس کے باعث افراد اور چیزیں غیر واضح نظر آنے لگتی ہیں۔ 

یہاں تک کہ روزمرّہ امور انجام دینا دشوار ہوجاتا ہے۔تاہم، سفید موتیے کی ایک قسم ایسی بھی ہے کہ جس میں مریض کے معمولاتِ زندگی متاثر نہیں ہوتے۔کالا موتیا اس کے بالکل برعکس ہے۔

کالا موتیا، جسے طبّی اصطلاح میں"Glaucoma"کہتے ہیں، چشم کے مُہلک امراض میں شمار ہوتا ہے کہ اگر اس کے سبب ایک بار بینائی ضایع ہوجائے، تو پھر کسی صُورت بحال نہیں ہوتی ۔تاہم، بروقت تشخیص اور علاج سے بینائی مکمل طور پر ضایع ہونے سے بچائی جاسکتی ہے۔ہمارے یہاں یہ تصوّر عام ہے کہ سفید موتیا دائمی ہوجائے،تو کالے موتیے میں بدل جاتا ہے، جوقطعاً درست نہیں۔موتیے کا عارضہ عُمر کے کسی بھی حصّے، خصوصاً بڑی عُمر میں لاحق ہوتا ہے۔بعض کیسز میں یہ موروثی بھی ہوتا ہے۔

سفید موتیے کے علاج کے لیے بذریعہ آپریشن آنکھ کی جھلّی نکال کر اس کی جگہ مصنوعی لینس لگادیا جاتا ہے ،تاکہ زندگی معمول کے مطابق بسر کی جاسکے، جب کہ کالےموتیےکا علاج بروقت تشخیص ہی سے ممکن ہے۔ لہٰذا جب عُمر چالیس سال سے زائد ہو جائے، تو خواہ کوئی تکلیف ہو یا نہ ہو، آنکھوں کا سالانہ طبّی معائنہ لازماً کروایا جائے اور اگر کالا موتیافیملی ہسٹری میں شامل ہو، تو پھر خاندان کے تمام افراد ہر سال اپنی آنکھوں کا معائنہ کروائیں۔ کالے موتیا کا علاج اس کی نوعیت کے مطابق ادویہ، ڈراپس ،لیزر شعاؤں اور سرجری کے ذریعے کیا جاتا ہے۔

نظر کی کم زوری دُور کی بھی ہوسکتی ہے اور نزدیک کی بھی۔گزشتہ چند دہائیوں سے ہر عُمر کے افراد، خاص طور پر بچّوں میںنظر کی کم زوری کی شرح میں تیزی سے اضافہ ہوا ہے، جس کی بنیادی وجہ انٹرنیٹ، کمپیوٹر، لیپ ٹاپ، موبائل اور ٹیبلیٹ وغیرہ کا بڑھتا ہوا استعمال ہے۔نظر کی کم زوری سے محفوظ رہنے کے لیے ان الیکٹرانک ڈیوائسز کا کم سے کم استعمال کیا جائے۔

پھرموجودہ دَور میں چوں کہ دفاتر میں بھی کمپیوٹرز کا استعمال ضروری ہوگیا ہے، تو ہر15منٹ بعد کچھ سیکنڈز کے لیے آنکھیں اسکرین سے ضرور ہٹائیں، کیوں کہ مستقل نظریں جمائے رکھنے سے جہاں آنکھیں تھکاوٹ کا شکار ہوتی ہیں، وہیں مزاج میں بھی چڑچڑاپن پیدا ہوجاتا ہے۔ 

نیز، ایئرکنڈیشنڈ کمرے بھی آنکھوں کے پردے خشک کرنے کا سبب بنتے ہیں۔ اس کے علاوہ ایک مرض آشوبِ چشم بھی ہے، جس میں آنکھ کی سامنے والی جھلّی متاثر ہوجاتی ہے۔اس کی عام علامات میں آنکھوں سے پانی آنا، آنکھیں متوّرم ہوجانا اور چبھن کا احساس وغیرہ شامل ہیں۔ 

بعض اوقات سو کر اُٹھنے کے بعد پپوٹے آپس میں چپک جاتے ہیں، تو ازخود کوئی ڈراپس وغیرہ استعمال کرنے کی بجائے ماہر معالج سے رجوع کیا جائے۔ علاوہ ازیں، بعض امراض بھی آنکھوں پر مضر اثرات مرتّب کرتے ہیں، جیسا کہ ذیابطیس۔ اس کا اندازہ اس طرح لگائیں کہ اندھے پن کے شکار لگ بھگ50فی صدمریض، ذیابطیس کا شکار ہوتے ہیں۔جب کہ متاثرہ مریضوں میں سفید یا کالے موتیےکے امکانات بھی عام افراد کی نسبت زیادہ پائے جاتے ہیں۔ 

تو بہتر ہوگا کہ ذیا بطیس سے متاثرہ افراد کم ازکم ہر چھے ماہ بعد آنکھوں کا معائنہ لازماً کروائیں۔ پھر ایک لاعلاج مرض رتوند (Nyctalopia)بھی ہے، جسے عرفِ عام میں ’’شب کوری‘‘ کہا جاتا ہے۔ اس بیماری میں اندھیرے اورکم روشنی میں کچھ دکھائی نہیں دیتا، جس کی وجہ آنکھ کے اندرونی پردے کی خرابی ہے۔یہ مرض آہستہ آہستہ بڑھتاہے،لہٰذا جن خاندانوں میں شب کوری کا مرض موروثی ہو، وہاں آپس میں شادیاں نہ کی جائیں،تو بہتر ہے۔

ہمارے یہاں کانٹیکٹ لینسز کا استعمال بھی عام ہے،لیکن اس ضمن میں احتیاطی تدابیر اختیار کرنا ناگزیر ہے۔مثلاً ہمیشہ اعلیٰ معیار کے لینسز استعمال کیے جائیں، ان کا محلول/سلوشن ہر تین دن بعد تبدیل کریں اور ہمیشہ صاف ستھری جگہ پر رکھیں۔ 

ختم المعیاد تاریخ کے بعد آنکھوں میں لگانے سے گریز کیا جائے۔لینس اُتارنے اورلگانے سے قبل اچھی طرح ہاتھ دھوئیں، رات کو ہرگز لگا کر نہ سوئیں، اگر آنکھ میں سُرخی یا رطوبت ہو یا پانی نکل رہا ہو، تو لینسز ہرگز استعمال نہ کریں،لگانے سے کوئی چبھن یا تکلیف ہو، تو فوراً اُتاردیں۔ 

بصورتِ دیگر آنکھوں کے سامنے کے حصّے میں زخم بن سکتے ہیں اور اگر زخم میں انفیکشن ہوجائے، تو بینائی بھی متاثر ہوسکتی ہے۔اسی طرح موٹر سائیکل سوار کے لیے ہیلمٹ کا استعمال آنکھوں کے لیے بھی فائدہ مند ثابت ہوتا ہے۔کیوں کہ موٹر سائیکل چلاتے ہوئے ایک تو آنکھوں کو مستقل ہوا لگتی ہے، جس سے وہ خشک ہونے لگتی ہیں،دوم اگر کچرے وغیرہ کا کوئی ذرّہ آنکھ میں چلا جائے، تو خطرناک ثابت ہوسکتا ہے۔ عام طور پر یہ بھی کہا جاتا ہے کہ گاجر یا بادام وغیرہ کا استعمال بینائی بہتر کرتا ہے، تو یہ درست نہیں۔ 

کیوں کہ بینائی کی حفاظت کےلیے ایسی کوئی مخصوص غذائیں نہیں،البتہ جو غذائیں جسم کو توانائی فراہم کریں، اُن کا استعمال بینائی کے لیے بھی مفید ثابت ہوتاہے ۔بصارت کی کم زوری اور دیگر عوارضِ چشم سے محفوظ رہنے کے لیے آنکھوں کی حفاظت کی جائے اور اس کے لیے احتیاطی تدابیر پر عمل ناگزیر ہے۔

(مضمون نگار،معروف ماہرِامراضِ چشم ہیں۔ انہوں نے برطانیہ سے Ophthalmology میں فیلو شپ کی، ڈاؤ یونی ورسٹی آف ہیلتھ سائنسز، کراچی میں ایسوسی ایٹ پروفیسر کی حیثیت سے خدمات انجام دے چُکے ہیں۔ نیز، پاکستان اسلامک میڈیکل ایسوسی ایشن(پیما) کے مرکزی صدر بھی رہے)

تازہ ترین