دو اکتوبر کودنیا بھر کی عالمی برادری نے اقوام ِ متحدہ جنرل اسمبلی کی منظور کردہ قرارداد کے تحت عدم تشدد کے خلاف عالمی دن منا یا، یہ دن برصغیر کی اس عظیم ہستی کے جنم دن کی مناسبت سے ہر سال منایا جاتاہے جس نے آج سے ٹھیک 150سال قبل برطانوی ہندوستان کی ریاست گجرات میں جنم لیا، اس مہان ہستی نے اپنی پوری زندگی تشدد کے خلاف امن کا پرچار کرنے میں گزار دی، سادہ طرز زندگی اختیار کرتے ہوئے اپنے وقت کے طاقتوربرطانوی سامراج سے ٹکر لی اور رہتی دنیا کو بتلا دیا کہ طاقت کا استعمال وقتی فتح دیتا ہے، اصل فتح انسان کے کردار اور حق و سچائی کی ہوتی ہے۔ جی ہاں، میں بات کررہا ہوں مہاتما گاندھی جی کی جو پوری دنیا میں تشدد کے خلاف تحریک کی ایک رول ماڈل شخصیت ہیںاورقائداعظم، مارٹن لوتھرکنگ، نیلسن مینڈیلا ، دلائی لامہ اور باراک اوباما سمیت مختلف عالمی شخصیات گاندھی جی سے عقیدت و احترام کے بندھن میں بندھی نظر آتی ہیں۔ افسوس کا مقام ہے کہ ان کے اپنے وطن بھارت کی موجودہ قیادت نے گاندھی جی کے امن پسندانہ نظریات کو بھلا دیا ہے۔ اسی طرح ہمارے وطن پاکستان میں بھی گاندھی جی کے حوالے سے بہت زیادہ لاعلمی پائی جاتی ہے حالانکہ یہ گاندھی جی تھے جنہوں نے سب سے پہلے پبلک میں قائداعظم محمد علی جناح کو قائداعظم کے نام سے پکارا جو بعد میں برصغیر کے لاکھوں کروڑوں مسلمانوں کی زبان پر عام ہوگیا، اس حوالے سے کا نگریس کے صدراور بھارت کے پہلے وزیرتعلیم مولانا ابوالکلام آزاد کی کتاب بعنوان ’’انڈیا وِنز فریڈم‘‘کا مطالعہ کیا جاسکتا ہے۔مجھے یقین ہے کہ آج کے دور میں بہت سے پاکستانی ہموطنوں کیلئے یہ امر حیران کن اور ناقابلِ یقین ہوگا کہ پاکستان کی خاطر سب سے پہلے جان کی قربانی پیش کرنے والے ہندوکا نام مہاتما گاندھی ہے، انہیں ایک شدت پسند نے اس بناء پر موت کے گھاٹ اتا را کیونکہ وہ بٹوارے کے بعد پاکستان کیلئے اثاثوں میں جائز حق کی خاطر مرن برت (بھوک ہڑتال) پرچلے گئے تھے، گاندھی جی کے مطالبات میںدارالحکومت دہلی میں واقع تمام مسجدوں کی مکمل بحالی، مسلمانوں کی بلا خوف و خطر آزادانہ نقل و حرکت اور معاشی بائیکاٹ کا خاتمہ یقینی بنانا شامل تھے، گاندھی جی کی یقین دہانی پر دہلی میں بسنے والے لگ بھگ دو لاکھ ہندو، سکھ، کرسچیئن اوردیگر شہریوں نے مسلمان شہریوں کے حقوق کے تحفظ کیلئے تحریری صورت میں یقین دہانی کرائی۔ایک ایسے وقت جب انگریز سامراج کے جانے کے بعد پورا برصغیر مذہب کے نام پر دنگے فساد کی آگ میں جل رہا تھا، مذہبی ہم آہنگی اور قیام امن کی خاطر گاندھی جی کا یہ کارنامہ سنہری حروف سے لکھے جانے کے قابل ہے۔ مہاتما گاندھی کی پرامن تعلیمات تین بنیادی اصول عدم تشدد (اہنسا)، سچائی پر قائم رہنا (ستیا گرہ)اور انفرادی سیاسی حق رائے دہی (سواراج) پر مشتمل ہیں،گاندھی جی کا کہنا تھا کہ زندگی موت کی آغوش کے درمیان، سچائی جھوٹ کے درمیان اور روشنی اندھیرے کے درمیان اپنا وجود قائم رکھتی ہے، خدا زندگی، سچائی اور نور ہے جو اپنی مخلوق سے محبت کرنے والا اور اعلیٰ ترین وجود ہے۔گاندھی جی نے سماج میں مذہبی ہم آہنگی اور انسانیت کی بھلائی کی خاطر مختلف مذاہب کا تفصیلی مطالعہ کیا ،گاندھی جی اسلام کو امن کا دین قرار دیتے ہوئے حضرت امام حسین ؑسے بھی خصوصی عقیدت رکھتے تھے،اس حوالے سے گاندھی جی کا کہنا تھا کہ اگر انڈیا ایک کامیاب ملک بننا چاہتا ہے تو اسے حضرت امام حسینؑکے نقشِ قدم پر چلنا ہوگا۔افسوس، آج بھارتی حکومت گاندھی جی کی تعلیمات پر عمل پیرا ہوتی تو مقبوضہ کشمیر کے باسیوں کو ایسی ظالمانہ بربریت کا سامنا نہ کرنا پڑتا بلکہ مجھے یقین ہے کہ دونوں آزاد ممالک کے مابین وجہ تنازع کے خاتمہ کیلئے گاندھی جی اپنا مثبت کردار ضرور ادا کرتے، آنجہانی بھارتی صحافی کلدیپ نیئر اپنی کتاب بعنوان’’آف لیڈرزاینڈ آئیکنز، فرام جناح ٹو مودی‘‘میں لکھتے ہیں کہ قائداعظم اور گاندھی جی کے مطابق بٹوارے کا مقصد دشمن ممالک تخلیق کرنا نہیں تھا بلکہ علاقائی استحکام کو یقینی بنانا تھا۔میں نے اپنے گزشتہ کالم میں امریکہ اور میکسیکو کی مثال دی تھی کہ کیسے دونوں پڑوسی ممالک گزشتہ صدی تک سرحدی تنازعات میں الجھے ہوئے تھے اور اکیسویں صدی میں ایک دوسرے کے بڑے تجارتی شراکت دار ہیں۔ عالمی دن برائے عدم تشدد کے موقع پرمیرا یہی پیغام ہے کہ اب بھی وقت گزرا نہیں، پاکستان اور بھارت کی قیادت کو مسئلہ کشمیر سمیت تمام تنازعات نمٹانے کیلئے عدم تشدد اورباہمی ڈائیلاگ کا راستہ اختیار کرنا چاہئے، دونوں ممالک کو اپنے عوام کو غربت سے نکالنے کیلئے دشمنی کی بجائے دوطرفہ تعاون میں اضافہ کرنا چاہئے۔ بطور پاکستانی ہمیں بھی قائداعظم کے پاکستان کو تشدد سے محفوظ رکھنے کیلئے عملی اقدامات اٹھانا ہونگے، ہمیں یہ امر یقینی بنانا ہوگا کہ نہ تومستقبل میں گھوٹکی میںمحب وطن ہندوؤں کے مندر توڑے جانے کی تاریخ دہرائی جائے اور نہ ہی ہمسایہ ممالک کے ساتھ تنازعات کو طول دیا جائے، قائداعظم نے اپنی گیارہ اگست کی تقریر پر عمل کرتے ہوئے جوگندرناتھ منڈل کو اپنی کابینہ کا حصہ بنایا، ہمیں بھی صرف تقریروں اور تالیوںسے کام نہیں چلانا چاہئے بلکہ غیرمسلم اقلیتوں کو حکومتی سطح پر فیصلہ سازی امور میںعملی طور پر شامل کرنا چاہئے،سب سے پہلے ہندوکمیونٹی کے 1130 مندروں ،517 گوردواروں ، زرعی اراضی اور دیگر مقدس مقامات کی دیکھ بھال کیلئے کسی قابل پاکستانی ہندو شہری کو قومی متروکہ وقف املاک ادارے کاسربراہ مقرر کیا جائے، میں سمجھتا ہوں کہ آج نریندر مودی کی متشدد پالیسیوں کا توڑ کرنے کیلئے گاندھی جی کے نظریہ اہنسا پر عمل پیرا ہندوؤں کو آگے آناہوگا ۔ میں آج کے دن خود سے یہ وعدہ بھی کرتا ہوں کہ مجھے اگر مستقبل میں کوئی اہم حکومتی ذمہ داری ملی تو اپنے پیارے وطن پاکستان کو تشدد سے پاک کرنے کیلئے اپنا کردار ضرور ادا کروں گا۔
(کالم نگار کے نام کیساتھ ایس ایم ایس اور واٹس ایپ رائےدیں00923004647998)