• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

پانچ اکتوبر عصر حاضر کے عظیم دانشور ڈاکٹر جاوید اقبال کی سالگرہ کا دن ہے۔ درویش کو یہ اعزاز حاصل ہے کہ گزشتہ دو دہائیوں سے قریباً ہر سال اس روز اس مایہ ناز اسکالر پر آرٹیکل لکھتا چلا آرہا ہے کیونکہ اصل عزت و احترام وہ ہے جو کسی شخصیت کو اس کی زندگی میں پیش کی جائے لیکن ہمارا عمومی رویہ ایک مردہ پرست قوم کا ہے۔

اس پر بعد میں بات کرتے ہیں پہلے آزادیٔ اظہار کا مسئلہ، پاکستان کے 90فیصد مسائل کی بنیاد آزادیٔ اظہار کا فقدان ہے۔ بظاہر یہ بات بڑی عجیب محسوس ہوتی ہے کہ آزادیٔ اظہار کا بھلا پاکستانی عوام کے مسائل سے کیا تعلق ہے۔

روزی روٹی کے مارے لوگوں کو بھلا اس نوع کے چونچلوں سے کیا واسطہ؟ یہ تو دانشوروں کے لیول کی باتیں ہیں۔ دنیا کے بہت سے ممالک ہیں جہاں کے باسیوں کو اس نوع کے بنیادی انسانی حقوق تک حاصل نہیں ہیں لیکن وہاں کے عوام کو روٹی پیٹ بھر کے مل رہی ہے، پہننے کو کپڑے اور رہنے کو گھر میسر ہے تو پھر انہوں نے اظہار کی آزادی لے کر اور اس نوع کے نعرے لگا کر کیا کرنا ہے؟۔

یہ بات بظاہر درست ہے کہ دنیا میں کئی اقوام نے فکری و نظری جبر کے باوجود ترقی کی ہے آج کی بہت سی آمریتوں کو اس نظر سے دیکھا پرکھا جا سکتا ہے ہم مسلمانوں سے بڑھ کر دنیا میں آمرتیوں کا تلخ تجربہ کیا روئے زمین کی کسی اور قوم کو حاصل رہا ہے؟ اس کے باوجود نہ صرف یہ کہ ہم نے دنیا میں ترقی کی کئی منازل طے کیں بلکہ بلاشبہ صدیوں دنیا کو اپنے آگے لگائے رکھا۔

جونہی آمریتوں کو زوال آیا ہم زیرو پر کھڑے تھے، جبر کی سیاہ رات جتنی بھی طویل ہو جائے بالآخر ختم ہو کر رہتی ہے اور انسانی تاریخ میں سوائے ایک مزید سیاہ باب بڑھانے کے کوئی impactڈالتی ہے اور نہ ہی نئی نسلوں کے لئے مثبت طور پر روشنی لینے اور یاد رکھے جانے کے قابل قرار پاتی ہے۔

جمہوریت، انسانی حقوق اور آزادیوں کی بات کرنے والے یونانی مدبرین اور ان کی شہری ریاستیں آج بھی کرہ ارضی کے لئے روشنی بکھیرتی کرنوں کی مانند ہیں جبکہ اپنے اپنے ادوار کی پھنے خاں نظریۂ جبر پر استوار سلطنتیں آج پوری انسانیت کے ماتھے کا کلنک اور ڈارک پیریڈ کے سوا کچھ نہیں۔ عصرِ حاضر کی تمام تر شعوری ترقی و عظمت کا راز حریتِ فکر اور آزادیٔ اظہار میں پنہاں ہے۔

اچھوتے تصورات و خیالات اور نت نئی ایجادات کا فیضان بھی اسی وسعتِ نگاہی میں ہے۔ آج ہمارے عوام ایک مہذب قوم کہلوانے کی بجائے بے سمت ہجوم کی مانند دکھائی دیتے ہیں۔ ذرا غور کریں اس کا باعث کیا ہے؟ آج کی دنیا میں کوئی بھی ملک یا قوم ہمیشہ کے لئے ایک مخصوص جزیرے یا جبری دائرے میں بند ہو کر نہیں رہ سکتی۔

شمالی کوریا جیسی ریاستوں کو اگر اس نوع کے اندھیروں میں رکھنا ہے تو یہ صرف اس صورت ممکن ہے جب شعوری ترقی کی کوئی کرن وہاں تک نہ پہنچ پائے۔

یہی وجہ ہے ایسے تمام گھٹن زدہ سماج، فکری طور پر دنیا سے کٹے ہوئے ہوتے ہیں اور جبر کی قوتیں اپنے لوگوں کو شاہ دولے کے چوہوں جیسے بنا کر رکھتے ہیں اور اپنی تمام تر تقاریر میں یہی نشہ گھول گھول کر پلاتے ہیں تاکہ کہیں شعور کی آنکھیں بیدار نہ ہو پائیں۔

ایسی تمام سوچیں اور الجھنیں درویش کے ذہنی کینوس پر اُس وقت ہویدا ہو رہی تھیں جب اُسے فرزندِ اقبال ڈاکٹر جاوید اقبال کے چوتھے یوم وفات کی تعزیتی تقریب میں اظہارِ خیال کی دعوت دی گئی۔ من تو یہ چاہ رہا تھا کہ افکارو نظریات کے تمامتر بند دریچے کھول دیے جائیں مگر دیمک زدہ سوسائٹی میں یہ آزادی تو عمر بھر فرزندِ اقبال کو حاصل نہ ہو سکی۔

ڈاکٹر صاحب محترم بارہا یہ فرمایا کرتے تھے کہ آپ جواں سال و جواں فکر ہیں یہ تمام جدید افکار ذہن قومی میں انڈیلیں جن پر میرے ساتھ بحث و گفتگو کر رہے ہیں ڈاکٹر صاحب کا ادنیٰ خوشہ چیں عرض کرتا حضور! ہماشما کا اتنا جگر ہے نہ مقام و پہچان یہ انہی کا کام ہے جن کے حوصلے ہیں زیاد، جن باتوں پر ھیچمدان کو روڑے پڑیں گے فرزند ِ اقبال کی عظمت کو سلام ہوگا، فکرِ اقبال کے نشے میں سرشار قوم جناب کی تلخ نوائی پر اگر پھول پیش نہیں بھی کرے گی تو کم از کم خوش اسلوبی سے سہہ لے گی۔

درویش دل کی اتھاہ گہرائیوں سے اس بڑے انسان کے عزم و ہمت کو سلامِ عقیدت پیش کرتا ہے کہ جس نے قوم سے عقیدت مندی کا ایک نیا بت بنوا کر اس کی پرستش کروانے کی خواہش پالی نہ ایسی اپروچ کو کبھی اپنے قریب پھٹکنے دیا درویش پوری ذمہ داری سے گواہی دیتاہے کہ اگر وہ اس نوع کی مجاوری اپنانا چاہتے تو ان کا یہ دھندہ بڑے بڑے گدی نشینوں کو مات دے سکتا تھا خوش عقیدگی والے لوگ ان کی زیارت کو مارے مارے پھر رہے ہوتے لیکن انہوں نے عزیمت کی وہ ملامتی صوفی جیسی راہ اختیار کی جس میں خود کو برُا کہلوا لیا لیکن شرکتِ میانہ حق و باطل کو شرفِ قبولیت بخشنے سے قطعی انکار کر دیا افسوس آج درویش کو ان جیسا پورے لاہور میں کوئی ایک نہیں دکھتا ہے نہ اُن کے کنبے میں اور نہ کنبے سے باہر۔

حضرت علامہؒ نے اپنے ننھے لاڈلے کا پہلا خط موصول ہونے پر جو الفاظ لکھ بھیجے وہ تو ہم یہاں تحریر کیے دیتے ہیں مگر دوسرا خط ملنے پر ہم عالم ارواح میں انہوں نے جو محفل سجائی اور تقریر فرمائی اس کا بیان شعوری مناسبت سے آئندہ کے لئے اٹھائے رکھتے ہیں۔

دیارِ عشق میں اپنا مقام پیدا کر ؍نیا زمانہ نئے صبح و شام پیدا کر ؍خدا اگر دلِ فطرت شناس دے تجھ کو؍ سکوتِ لالہ و گل سے کلام پیدا کر ؍اٹھا نہ شیشہ گرانِ فرنگ کے احساں؍ سفالِ ہند سے مینا و جام پیدا کر؍ میں شاخ تاک ہوں میری غزل ہے میرا ثمر ؍مرے ثمر سے مے لالہ فام پیدا کر؍ مرا طریق امیری نہیں فقیری ہے؍ خودی نہ بیچ غریبی میں نام پیدا کر

تازہ ترین