• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

جذباتی لوگ بہت جلد ناراض ہو جاتے ہیں۔ مزید کچھ لکھنے سے پہلے جذباتی لوگوں سے میری مودبانہ گزارش ہے کہ براہ کرم آپ ناراض نہ ہوں۔ میں سنی سنائی بات آپ کو نہیں سنائوں گا۔ یہ چشم دید باتیں ہیں۔ اگر آپ کو اس بات پر اعتراض ہے کہ باتیں سنی جاتی ہیں دیکھی نہیں جاتیں۔ ماضی بعید کے حوالے سے آپ کا اعتراض سو فیصد درست ہے مگر حالات حاضرہ میں ہم خبریں سنتے نہیں بلکہ دیکھتے ہیں۔ تمام تر تمہید سے میری مراد ہے کہ یہ باتیں مشاہدے کی باتیں ہیں۔ اگر یہ حکایتیں ہماری نصابی تاریخ میں لکھی ہوئی نہیں ہیں تو پھر ماتھے پر شکنیں ڈالنے کی ضرورت نہیں ہے۔ آپ ایسے تاریخ دانوں کی لکھی ہوئی تاریخ کھنگالئے جو اُجرت پر اپنے کلائنٹ یعنی موکل کے لئے تاریخ نہیں لکھتے۔ وہ تاریخ کو آنے والی نسلوں کی امانت سمجھتے ہیں۔ ایسی تاریخ اس دور کے قصے، کہانیوں اور افسانوں اور ناولوں میں ملتی ہے۔ بٹوارے کے بعد ہونے والے فسادات پر بے شمار افسانے اور ناول لکھے گئے تھے۔ ان افسانوں اور ناولوں میں انسانیت کی پامالی کو قلم بند کیا گیا تھا۔ زیادہ نہیں، آپ دو ناول پڑھیں، خوشونت سنگھ کا ناول اے ٹرین ٹو پاکستان "A Train to Pakistan"اور کرشن چندر کا ناول، غدار، منٹو کا افسانہ ٹوبہ ٹیک سنگھ۔ اُس دور کے اخبار اور مخزن اُس دور کی تاریخ کا اثاثہ ہوتے ہیں۔

انگریز نے ہندوستان کا بٹوارہ کیا۔ پاکستان بنا، تب ہندوستان کے چالیس فی صد رقبہ پر پانچ سو کے لگ بھگ چھوٹی بڑی ریاستیں بنی ہوئی تھیں۔ انگریز نے بٹوارہ کرتے ہوئے ریاستوں کے والیوں کو اختیار دیا تھا کہ وہ اپنی مرضی اور منشا کے مطابق پاکستان سے الحاق کر لیں یا ہندوستان سے، زیادہ تر ریاستوں کے والی ہندو تھے۔ گنتی کی ریاستوں کے والی مسلمان تھے۔ جغرافیائی لحاظ سے کچھ ایسی ریاستیں جن کے والی مسلمان تھے مگر ہندوستان کے بیچوں بیچ واقع تھیں۔ مثال کے طور پر حیدر آباد دکن، جونا گڑھ، بھوپال وغیرہ، کشمیر اور حیدر آباد دکن بہت بڑی ریاستیں تھیں۔ کشمیر کا والی ہندو تھا مگر آبادی زیادہ تر مسلمانوں پر مشتمل تھی۔ حیدر آباد دکن کا والی مسلمان تھا مگر حیدر آباد دکن کی آبادی میں واقعی اکثریت ہندوئوں کی تھی۔ کشمیر اور حیدر آباد دکن کے والیوں نے اپنی آزادانہ حیثیت برقرار رکھنے کا اصولی فیصلہ کر لیا۔ دونوں ریاستوں کے والیوں نے ہندوستان یا پاکستان سے الحاق سے انکار کر دیا۔ دونوں ریاستوں نے کسی ملک سے الحاق پر اپنی خود مختاری کو ترجیح دی۔ وہ دور برصغیر میں بدترین فرقہ وارانہ فسادات کا دور تھا۔ ایسے میں ہندو اکثریت کو مدِنظر رکھتے ہوئے ہندوستان نے حیدر آباد دکن پر چڑھائی کردی۔ دوسری طرف کشمیر چونکہ پاکستان اور ہندوستان کی سرحد پر تھا۔ ہندوستان نے اپنی فوجیں کشمیر میں بھیج دیں۔ یہ انیس سو اڑتالیس کا زمانہ تھا۔ جنگ چھڑ گئی۔ اقوام متحدہ نے بیچ میں پڑ کر جنگ بندی کروائی۔ اس دوران کشمیر کا جتنا حصہ ہندوستان نے زیر کر دیا تھا۔ ہندوستان کے انتظامی حصہ میں آیا اور کشمیر کا جتنا حصہ ہمارے قبضہ میں تھا، ہمارے انتظامی ذمہ داریوں میں آیا۔ اقوام متحدہ نے جنگ بندی کے بعد دونوں ممالک ہندوستان اور پاکستان پر واضح کر دیا تھا کہ کشمیر کا جتنا حصہ ہندوستان کے قبضہ میں ہے اور جتنا حصہ پاکستان کے پاس ہے، قانوناً متنازع علاقہ ہیں۔ وہ دن اور آج کا دن، پچھلے اِکہتر برس میں اقوام متحدہ کشمیریوں سے رائے پوچھنے کی ذمہ داری سے دوری اختیار کئے ہوئے ہے۔ کشمیریوں سے اقوام متحدہ نے آج تک نہیں پوچھا کہ وہ پاکستان سے الحاق چاہتے ہیں یا ہندوستان سے؟ یا پھر کشمیری اپنا خود مختار رہنے کا استحقاق برقرار رکھنا چاہتے ہیں؟ اقوام متحدہ کی پس و پیش اور تذبذب کی وجہ سے دونوں ممالک ہندوستان اور پاکستان حالت جنگ میں رہتے ہیں۔ برصغیر پر ہیجانی کیفیت چھائی رہتی ہے۔ دوستی کا ہاتھ بڑھانا چاہیں تو کشمیر بیچ میں آجاتا ہے۔ جب تک کشمیر کا معاملہ حل نہیں ہو گا۔ تب تک پاکستان اور ہندوستان کے درمیان حالات کشیدہ رہیں گے۔ ایک لمبے عرصے تک ایک جیسے ابتر حالات میں جینے سے، ہم ہر نوعیت کی ابتری سے مانوس ہو جاتے ہیں۔ کھچائو میں رہنے کی عادت سی پڑ جاتی ہے۔

کشمیر کے حوالے سے ایک نہیں انیک باتیں ہوتی رہیں گی۔ کشمیر کے حوالے سے میں کچھ غیر معمولی اور تعجب میں ڈالنے والے مشاہدے آپ سے شیئر کرنا چاہتا ہوں۔ پاکستان میں جب بھی کوئی حکومت ڈانواںڈول ہونے لگتی ہے اور گرتی ہوئی دیوار کو عوام آخری دھکا دینے کی تیاری کر رہے ہوتے ہیں۔ تب اچانک کشمیر کے خراب حالات مزید خراب ہونے لگتے ہیں۔ اس دور کی حکومت بدامنی، بے انصافی، بے روزگاری، رشوت ستانی، بے ایمانی سے عوام کی توجہ ہٹانے کے لئے کشمیر کے مسئلے کو از سر نو اس طرح اجاگر کرتے ہیں جیسے کشمیر کا مسئلہ پہلے کبھی تھا ہی نہیں، پاکستان کی سیاسی تاریخ میں سب سے بڑی انتخابی دھاندلی جنرل ایوب خان اور محترمہ فاطمہ جناح کے درمیان صدارتی انتخابات میں ہوئی تھی۔ جنرل ایوب خان کے جیتنے کا دور دور تک امکان نہیں تھا لیکن جنرل ایوب خان جیت گئے۔ لوگ روڈ راستوں پر نکل آئے۔ ملک بھر میں برپا ہونے والے ہنگاموں نے جنرل ایوب خان کی حکومت کی بنیادیں ہلا کر رکھ دی تھیں۔ تب بھی کشمیر کے خراب حالات میں اچانک مزید کچھ خراب ہوا تھا۔ لوگ صدارتی انتخابات میں بدترین دھاندلی بھول گئے اور کشمیر کے لئے سڑکوں پر نکل آئے۔ تب جنرل ایوب خان کے وزیر خارجہ ذوالفقار علی بھٹو نے اقوام متحدہ میں دھواں دار تقریر کی تھی اور ریزولوشن کے پنے پھاڑ کر ہوا میں اُڑا دیئے تھے۔ اس طرح ایوب خان کو مزید تین چار برس حکومت کرنے کا موقع مل گیا تھا۔ اس طرح کی کئی مثالیں آپ کو ہماری تاریخ میں مل سکتی ہیں۔

تازہ ترین