• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

آج سے ایک ہفتہ قبل آرمی چیف قمر جاوید باجوہ کی بزنس کمیونٹی سے ملاقات کی خبریں منظرعام پر آئیں، ان کا یہ بیان بھی سامنے آیا کہ معیشت کا قومی سلامتی سے گہرا تعلق ہے، حکومتی اقتصادی ٹیم کی موجودگی میں اس ملاقات نے ملکی منظر نامے میں ایک بھونچال برپا کردیا، ہر طرف چہ مگوئیاں شروع ہوگئیں اور مختلف تجزیہ نگار اپنے اپنے انداز میں اس واقعہ کو دیکھنے لگے۔ کیا واقعی سپہ سالار کی تاجروں سے ملاقات کوئی غیرمعمولی اقدام ہے ؟ اس حوالے سے تبصرہ کرنے کیلئے مجھے بھی مختلف ٹی وی ٹاک شوز میں مدعو کیا گیا، میںنے آرمی چیف کے بیان کی تائید میں موقف اپنایا کہ قومی سلامتی کا انحصار مستحکم معیشت پر ہے، ترقی و خوشحالی کیلئے سیاسی استحکام، مضبوط دفاع اور قیام امن ناگزیر ہیں۔تاہم میں نے تفصیلی تجزیے کیلئے ضروری سمجھا کہ عالمی تاریخ اور سیاست کا بھی جائزہ لیا جائے۔عظیم ہندو فلسفی کوٹلیا چانکیہ جی کے مطابق ایک مضبوط فوج کسی بھی ملک کی سلامتی کیلئے کلیدی کردار کی حامل ہوتی ہے، وہ اپنی شہرہ آفاق کتاب ارتھ شاستر کے پہلے باب میں ’’کوشو مولوڈنڈا‘‘کی تلقین کرتے ہیں جس کالغوی مطلب ہے کہ ایڈمنسٹریشن کیلئے ریونیو ریڑھ کی ہڈی کی حیثیت رکھتا ہے، چانکیہ جی مزید لکھتے ہیں کہ کسی بھی مقصد میں کامیابی کیلئے فنانس کی موجودگی بہت ضروری ہے، دولت سے بھرے خزانے کی حفاظت کیلئے محافظ ضروری ہیں لیکن دولت کی موجودگی خزانے اور محافظ دونوں کیلئے ضروری ہے۔تاریخ کا مطالعہ بتلاتا ہے کہ جو ملک جتنی زیادہ مضبوط معیشت کا حامل ہوتا ہے ، وہ اپنی قومی سلامتی اتنی زیادہ یقینی بنانے کے قابل ہوجاتا ہے، زمانہ قدیم میں مستحکم معیشت کی حامل ریاست پڑوسی ریاستوں پر غلبہ حاصل کرنے میں کامیاب ہوجایا کرتی تھی تو آج بطوراقتصادی طاقت اپنا موقف عالمی برادری سے منوالیتی ہے ۔دورِ جدید میں اس بات کا کریڈٹ امریکہ کو جاتا ہے کہ اس نے سب سے پہلے معیشت کا قومی سلامتی سے ربط سمجھتے ہوئے قومی پالیسیاں مرتب کیں اور پینٹاگون میں سیکرٹریٹ قائم کیا۔جنگ عظیم دوئم کے بعد امریکہ اور سویت یونین دو حریف سپرپاور بن کر عالمی منظرنامے پر ابھرے، دونوں ممالک نے ہر شعبہ زندگی میں ایک دوسرے کا بھرپور مقابلہ کرنے کا عزم کیا لیکن سویت یونین افغان جنگ کے نتیجے میں قومی معیشت کو مستحکم نہ رکھ سکا اور آخرکار شکست کھا کر ٹکڑے ٹکڑے ہو گیا۔ سرد جنگ کے بعد امریکہ کی توجہ عسکری خدشات سے زیادہ ان عوامل پر مرکوز ہوگئی جو عوام کو براہ راست متاثر کرتے ہیں لیکن نائن الیون نے صورتحال یکسر بدل دی ،اس وقت امریکہ بھر میں اس قسم کے سوالات اٹھنا شروع ہوگئے کہ امریکہ کب تک عالمی سپرپاورکے منصب پر فائز رہ سکے گا،گلوبلائزیشن کے دور میں امریکہ اپنی انفرادیت کیسے برقرار رکھ سکے گا،بدلتے ہوئے عالمی منظرنامےمیں امریکہ عالمی سرمایہ کاروں کو کس طرح راغب کرے اور اپنی توانائی کی ضروریات پوری کرنے کیلئے بیرونی ممالک پر انحصار کس طرح کم کرے، وغیرہ وغیرہ۔ سویت یونین کی شکست سے امریکہ نے یہ اہم سبق سیکھا کہ قومی سلامتی کو لاحق خطرات کا مقابلہ کرنے کیلئے مضبوط دفاع ضروری ہے ، مضبوط دفاع مستحکم معیشت کی بدولت ہی ممکن ہے جبکہ معیشت کےاستحکام کیلئے بزنس کمیونٹی کا اعتماد برقرار رکھنا ضروری ہے۔امریکہ نے کاروبار کیلئے سازگار ماحول فراہم کرکے نہ صرف اپنے معاشی و دفاعی اہداف کا حصول یقینی بنایا بلکہ تاحال ایک مضبوط اکائی کے طور پر عالمی سطح پر قائدانہ کردار اداکررہا ہے۔اسی دوران امریکہ میں سیاسی ، تجارتی و دفاعی اداروں کے مابین تعاون کو اجاگر کرنے کیلئے ملٹری -انڈسٹرئیل-کانگریشنل کمپلیکس کی اصطلاح سامنے آئی۔ ایک رپورٹ کے مطابق امریکہ اپنی قومی سلامتی پر لگ بھگ ساڑھے چھ سو بلین ڈالر خرچ کرتا ہے جو چین، سعودی عرب، انڈیا، فرانس، روس، برطانیہ اور جرمنی کے مجموعی دفاعی بجٹ سے بھی زیادہ ہے۔امریکہ کے نقش قدم پر چلتے ہوئے چین، اسرائیل ، ایران ، بھارت سمیت متعدد عالمی ممالک ملکی معیشت کو قومی دفاع کیلئے ناگزیر قرار دیتے ہیں۔میں سمجھتا ہوں کہ بطور پاکستانی ہمارے لئے پاک سرزمین سے بڑھ کر کسی کی اہمیت نہیں ہونی چاہئے اور قومی سلامتی پر کسی قسم کا سمجھوتہ نہیں کیا جاسکتا،ماضی میں بھی بزنس کمیونٹی کی آرمی چیف سے ملاقاتیں ہوتی رہی ہیں، میرے خیال میںموجودہ آرمی چیف کی حالیہ ملاقات باجوہ ڈاکٹرائین کے تحت ایک اہم کاوش ہے جس کا مقصد پاکستان کو ترقی و خوشحالی کی راہ پر گامزن کرنا ہے، میں یاد دلانا چاہوں گا کہ موجودہ آرمی چیف نے دو سال قبل کراچی میں ایک تقریب سے خطاب میںبھی کہا تھا کہ معیشت کا تعلق تمام شعبہ ہائے زندگی سے ہے ، مضبوط معیشتوں نے جارحیت کا سامنا کیا ہے اور قومی سلامتی کو درپیش چیلنجز کا بھی بخوبی مقابلہ کیا ہے،پاکستان کیلئے یہ سب سے بہترین وقت ہے کہ ہم معاشی پیداوار اور استحکام کو اپنی اولین ترجیح بنائیں، ہمیں روشن مستقبل کیلئے اپنی معاشی پالیسیوں میں تسلسل برقرار رکھنا ہوگا۔ہمیں آرمی چیف کے اس اقدام کا خیرمقدم کرنا چاہئے کہ انہوں نے قومی سلامتی کومعیشت کے حوالے سے درپیش چیلنجز پربزنس کمیونٹی اور حکومتی اقتصادی ٹیم کو اعتماد میں لیا ، ملاقات کے دوران مختلف تجاویز کا تبادلہ بھی کیا گیا،میں سمجھتا ہوں کہ اس ملاقات کے بعد قومی معیشت پر مسقبل قریب میں مثبت اثرات مرتب ہونگے اور سرمایہ کاری کے حوالے سے بے یقینی کی فضا ختم ہوگی۔باہمی مشاورت کیلئے ملاقاتوں کا یہ سلسلہ جاری رہنا چاہئے ، حکومت کو ملک میں سرمایہ کاری کا سازگار ماحول یقینی بنانے کیلئے تمام اسٹیک ہولڈرز سے باہمی مشاورت کا سلسلہ تیز کرنا چاہئے اوربزنس کمیونٹی کی پیش کردہ تجاویز کو پالیسی سازی کے عمل میں ترجیحی بنیادوں پر اہمیت دینی چاہئے۔ ماضی کی نسبت پہلی مرتبہ سیاسی و عسکری قیادت ملکی ترقی و خوشحالی کی خاطر ایک پیج پر ہیں، اگر موجودہ حکومت بزنس کمیونٹی کا اعتماد بھی حاصل کر لے تو پاکستان کو ایشین ٹائیگر بننے سے دنیا کی کوئی طاقت نہیںروک سکتی۔

(کالم نگار کے نام کیساتھ ایس ایم ایس اور واٹس ایپ رائےدیں00923004647998)

تازہ ترین