• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن
38ویں سالانہ ختم نبوت کانفرنس کے موقع پر
مولانا عزیز الرحمٰن جالندھری کی خصوصی تحریر
اللہ ربّ العزت نے نبوت کی ابتدا سیدنا آدم علیہ السلام سے فرمائی اور اس کی انتہا محمد عربیﷺ کی ذات اقدس پر فرمائی۔ آنحضرتﷺ پر نبوت ختم ہوگئی۔ آپ ﷺآخری نبی ہیں، آپؐ کے بعد کسی کو نبی نہ بنایا جائے گا۔ اس عقیدے کو شریعت کی اصطلاح میں عقیدئہ ختم نبوت کہا جاتا ہے۔
ختم نبوت کا عقیدہ ان اجماعی عقائد میں سے ہے، جو اسلام کے اصول اور ضروریات دین میں شمار کئے گئے ہیں، اور عہد نبوت سے اس وقت تک ہر مسلمان اس پر ایمان رکھتا آیا ہے کہ آنحضرتﷺ بلا کسی تاویل اور تخصیص کے خاتم النبیین ہیں۔(الف)قرآن مجید کی ایک سو آیات کریمہ۔(ب)سرورِ عالمﷺ کی احادیث متواترہ (دو سو دس احادیث مبارکہ) سے یہ مسئلہ ثابت ہے۔(ج)آنحضرتﷺ کی امت کا سب سے پہلا اجماع اسی مسئلے پر منعقد ہوا، چنانچہ امام العصر مولانا سید محمد انور شاہ کشمیری ؒ اپنی آخری کتاب ’’خاتم النبیین‘‘ میں تحریر فرماتے ہیں:ترجمہ: ’’اور سب سے پہلا اجماع جو اس امت میں منعقد ہوا، وہ مسیلمہ کذاب کی سرکوبی پر تھا، جس کا سبب صرف اس کا دعویٰ نبوت تھا، اس کی دیگر گھنائونی حرکات کا علم صحابہ کرامؓ کو اس کے قتل کے بعد ہوا تھا، جیسا کہ ابن خلدونؒ نے نقل کیا ہے، اس کے بعد قرناً بعد قرنٍ مدعی نبوت کے کفر و ارتداد پر ہمیشہ اجماع بلافصل رہا ہے، اور نبوت تشریعیہ یا غیر تشریعیہ کی کوئی تفصیل کبھی زیر بحث نہیں آئی۔‘‘ (خاتم النبیین ص :۶۷، ترجمہ ص :۱۹۷)
مولانا محمد ادریس کاندھلویؒ نے اپنی تصنیف ’’مسک الختام فی ختم نبوت سیدالانامؐ‘‘ میں تحریر فرمایا ہے کہ:
’’امت محمدیہ ؐمیں سب سے پہلا اجماع جو ہوا، وہ اسی مسئلے پر ہوا۔‘‘(احتساب قادیانیت ج:۲، ص:۱۰)
آنحضرتﷺ کے زمانے میں اسلام کے تحفظ و دفاع کے لئے جتنی جنگیں لڑی گئیں، ان میں شہید ہونے والے صحابہ کرامؓ کی کل تعداد ۲۵۹ ہے۔ (رحمۃ للعالمین ج :۲، ص:۲۱۳ قاضی سلمان منصور پوریؒ) اور عقیدئہ ختم نبوت کے تحفظ و دفاع کے لئے اسلام کی تاریخ میں پہلی جنگ جو سیدنا صدیق اکبرؓ کے عہد خلافت میں مسیلمہ کذاب کے خلاف یمامہ کے میدان میں لڑی گئی، اس ایک جنگ میں شہید ہونے والے صحابہؓ اور تابعینؒ کی تعداد بارہ سو ہے۔ (ختم نبوت کامل ص:۳۰۴ حصہ سوم از مفتی محمد شفیعؒ)
سرورِعالمﷺ کی زندگی کی کل کمائی اور گراں قدر اثاثہ حضرات صحابہ کرامؓ ہیں، جن کی بڑی تعداد اس عقیدے کے تحفظ کے لئے جام شہادت نوش کرگئی۔ اس سے ختم نبوت کے عقیدے کی عظمت کا اندازہ ہوسکتا ہے۔ انہی حضرات صحابہ کرامؓ میں سے ایک صحابی حضرت حبیب بن زید انصاری خزرجیؓ کی شہادت کا واقعہ ملاحظہ ہو:’’حضرت حبیب بن زید انصاریؓ کو آنحضرتﷺ نے یمامہ کے قبیلہ بنو حنیفہ کے مسیلمہ کذاب کی طرف بھیجا، مسیلمہ کذاب نے حضرت حبیبؓ کو کہا کہ کیا تم گواہی دیتے ہو کہ محمد اللہ کے رسول ہیں؟ حضرت حبیبؓ نے فرمایا ہاں، مسیلمہ نے کہا کہ کیا تم اس بات کی گواہی دیتے ہو کہ میں (مسیلمہ) بھی اللہ کا رسول ہوں؟ حضرت حبیبؓ نے جواب میں فرمایا کہ میں بہرا ہوں تیری یہ بات نہیں سن سکتا، مسیلمہ بار بار سوال کرتا رہا، وہ یہی جواب دیتے رہے اور مسیلمہ ان کا ایک ایک عضو کاٹتا رہا، حتیٰ کہ حبیبؓ بن زید کے جسم کے ٹکڑے ٹکڑے کرکے انہیں شہید کردیا گیا۔‘‘(اسدالغابہ فی معرفۃ الصحابہ ج:۱،ص:۳۷۰)
اس سے اندازہ ہوسکتا ہے کہ حضرات صحابہ کرامؓ مسئلہ ختم نبوت کی عظمت و اہمیت سے کس طرح والہانہ تعلق رکھتے تھے، اب حضرات تابعینؓ میں سے ایک تابعیؓ کا واقعہ بھی ملاحظہ ہو: ’’حضرت ابو مسلم خولانیؓ جن کا نام عبداللہ بن ثوبؓ ہے اور یہ امت محمدیہ کے وہ جلیل القدر بزرگ ہیں جن کے لئے اللہ تعالیٰ نے آگ کو اسی طرح بے اثر فرمادیا جیسے حضرت ابراہیم علیہ السلام کے لئے آتش نمرود کو گلزار بنادیا تھا۔ یہ یمن میں پیدا ہوئے اور سرکار دو عالمﷺ کے عہد مبارک ہی میں اسلام لاچکے تھے، لیکن سرکاردو عالمﷺ کی خدمت میں حاضری کا موقع نہیں ملا تھا۔ آنحضرتﷺ کی حیات طیبہ کے آخری دور میں یمن میں نبوت کا جھوٹا دعوےدار اسود عنسی پیدا ہوا۔ جو لوگوں کو اپنی جھوٹی نبوت پر ایمان لانے کے لئے مجبور کیا کرتا تھا۔ اسی دوران اس نے حضرت ابو مسلم خولانیؓ کو پیغام بھیج کر اپنے پاس بلایا اور اپنی نبوت پر ایمان لانے کی دعوت دی، حضرت ابو مسلمؓ نے انکار کیا ،پھر اس نے پوچھا کہ کیا تم محمدﷺ کی رسالت پر ایمان رکھتے ہو؟ حضرت ابو مسلم نے فرمایا ہاں، اس پر اسود عنسی نے ایک خوفناک آگ دہکائی اور حضرت ابو مسلم ؓ کو اس آگ میں ڈال دیا، لیکن اللہ تعالیٰ نے ان کے لئے آگ کو بے اثر فرمادیا، اور وہ اس سے صحیح سلامت نکل آئے۔ یہ واقعہ اتنا عجیب تھا کہ اسود عنسی اور اس کے رفقا پر ہیبت سی طاری ہوگئی اور اسود کے ساتھیوں نے اسے مشورہ دیا کہ انہیں جلاوطن کردو، ورنہ خطرہ ہے کہ ان کی وجہ سے تمہارے پیروئوں کے ایمان میں تزلزل نہ آجائے، چنانچہ انہیں یمن سے جلاوطن کردیا گیا۔ یمن سے نکل کر ایک ہی جائے پناہ تھی، یعنی مدینہ منورہ، چنانچہ یہ سرکاردو عالمﷺ کی خدمت میں حاضر ہونے کے لئے چلے، لیکن جب مدینہ منورہ پہنچے تو معلوم ہوا کہ رسول اللہ ﷺ وصال فرماچکے ہیں،اور حضرت صدیق اکبرؓ خلیفہ مقررہو چکے تھے، انہوں نے اپنی اونٹنی مسجد نبویؐ کے دروازے کے پاس بٹھائی اور اندر آکر ایک ستون کے پیچھے نماز پڑھنی شروع کردی۔ وہاں حضرت عمرؓ موجود تھے ۔ انہوں نے ایک اجنبی مسافر کو نماز پڑھتے دیکھا تو ان کے پاس آئے اور جب وہ نماز سے فارغ ہوگئے تو ان سے پوچھا: آپ کہاں سے آئے ہیں؟ یمن سے! حضرت ابو مسلمؓ نے جواب دیا۔ حضرت عمرؓ نے فوراً پوچھا: اللہ کے دشمن (اسود عنسی) نے ہمارے ایک دوست کو آگ میں ڈال دیا تھا، اور آگ نے ان پر کوئی اثر نہیں کیا تھا، بعد میں ان صاحب کے ساتھ اسود نے کیا معاملہ کیا؟ حضرت ابو مسلمؓ نے فرمایا: ان کا نام عبداللہ بن ثوب ہے۔ اتنی دیر میں حضرت عمرؓ کی فراست اپنا کام کرچکی تھی، انہوں نے فوراً فرمایا: میں آپ کو قسم دے کر پوچھتا ہوں کہ کیا آپ ہی وہ صاحب ہیں؟ حضرت ابو مسلم خولانیؓ نے جواب دیا: ’’جی ہاں!‘‘ حضرت عمرؓ نے یہ سن کر فرطِ مسرت و محبت سے ان کی پیشانی کو بوسہ دیا، اور انہیں لے کر حضرت صدیق اکبرؓ کی خدمت میں پہنچے، انہیں صدیق اکبرؓ کے اور اپنے درمیان بٹھایا اور فرمایا: اللہ تعالیٰ کا شکر ہے کہ اس نے مجھے موت سے پہلے امت محمدیہؐ کے اس شخص کی زیارت کرادی جس کے ساتھ اللہ تعالیٰ نے ابراہیم خلیل اللہ علیہ السلام جیسا معاملہ فرمایا تھا۔‘‘ (حلیۃ الاولیاء ص :۱۲۹، ج:۲، تہذیب، تاریخ ابن عساکر ص:۳۱۵، ج:۷، جہانِ دیدہ و ترجمان السنۃ)
قرآن مجید میں ذات باری تعالیٰ کے متعلق ’’رب العالمین‘‘ آنحضرتﷺ کی ذات اقدس کے لئے ’’رحمۃ للعالمین‘‘ اور بیت اللہ شریف کے لئے ’’ھدی للعالمین‘‘ فرمایا گیا ہے، اس سے جہاں آنحضرتﷺ کی نبوت و رسالت کی آفاقیت و عالمگیریت ثابت ہوتی ہے، وہاں آپﷺ کے وصف ختم نبوت کا اختصاص بھی آپؐ کی ذات اقدس کے لئے ثابت ہوتا ہے، اس لئے کہ پہلے تمام انبیاء علیہم السلام اپنے اپنے علاقہ، مخصوص قوم اور مخصوص وقت کے لئے تشریف لائے، جب آپﷺ تشریف لائے تو حق تعالیٰ نے کل کائنات کو آپ کی نبوت و رسالت کے لئے ایک اکائی (ون یونٹ) بنادیا۔جس طرح کل کائنات کے لئے اللہ تعالیٰ ’’رب ‘‘ ہیں، اسی طرح کل کائنات کے لئے آنحضرتﷺ ’’نبی‘‘ ہیں۔ یہ صرف اور صرف آپﷺ کا اعزاز و اختصاص ہے۔ آنحضرتﷺ نے اپنے لئے جن چھ خصوصیات کا ذکر فرمایا، ان میں سے ایک یہ بھی ہے:ترجمہ: ’’میں تمام مخلوق کے لئے نبی بناکر بھیجا گیا اور مجھ پر نبوت کا سلسلہ ختم کردیا گیا۔‘‘(یعنی میرے بعد کوئی نبی نہیں) آنحضرتﷺ آخری نبی ہیں، آپﷺ کی امت آخری امت ہے، آپﷺ کا قبلہ آخری قبلہ (بیت اللہ شریف) ہے، آپﷺ پر نازل شدہ کتاب آخری آسمانی کتاب ہے۔ یہ سب آپﷺ کی ذات کے ساتھ منصب ختم نبوت کے اختصاص کے تقاضے ہیںجو اللہ تعالیٰ نے پورے کردیئے۔
علامہ جلال الدین سیوطیؒ نے اپنی شہرئہ آفاق کتاب ’’خصائص الکبریٰ‘‘ میں آنحضرتﷺ کا خاتم النبیین ہونا ، آپﷺ ہی کی خصوصیت قرار دیا ہے۔ (دیکھئے ج:۲، ص :۱۹۳،۱۹۷،۲۸۴)
اسی طرح امام العصر علامہ سید محمد انور شاہ کشمیریؒ فرماتے ہیں: ’’اور انبیاء ؑمیں آنحضرتﷺ کا خاتم ہونا، آپﷺ کے مخصوص فضائل و کمالات میں سے خود آپﷺ کا اہم اور ممتاز کمال ہے۔‘‘
عقیدہ ختم نبوت اور قادیانیت کی آگاہی کےلیے سالانہ ختم نبوت کانفرنس چناب نگر میں 11,10اکتوبر کو منعقد ہورہی ہے ،اسے کامیاب بنانا اور اس میں شرکت کرنا مسلمانوں کی ذمہ داری ہے۔
تازہ ترین