امن و امان کی فضاء کو بحال رکھنا اور عوام کی جان و مال کا تحفظ پولیس کے پیشہ فرائض کا حصہ اور اس کی ترجیحات میں شامل ہے۔دہشت گردی، اغواء برائے تاوان جیسی سنگین وارداتوں، لوٹ مار اسٹریٹ کرائم اور معاشرتی برائیوں کے خاتمے کے لئے سندھ میں تعینات ہونے والےآئی جی صاحبان، مختلف پالیسیاں مرتب کرتے رہے ہیں جن کا بنیادی مقصد جرائم کا خاتمہ اور امن و امان کے قیام کو یقینی بنانا ہے۔
موجودہ انسپکٹر جنرل آف پولیس سندھ سید کلیم امام کی جانب سے بھی متعدد پالیسیاں متعارف کرائی گئی ہیں جن میں بعض پالیسیوں سے اختلاف کیا جاسکتا ہے لیکن ایک پالیسی ایسی ہے جس کے حیران کن طور پر مثبت نتائج سامنے آئے ہیں وہ’’سرینڈر برائے انصاف‘‘پالیسی ہے۔ یہ پالیسی سندھ میں پہلی مرتبہ متعارف کرائی گئی ہے جس کے تحت کشمور جیسےضلع میں ایک ہزار سے زائد کالعدم تنظیموں کے دہشت گردوں، مفرور ملزمان ، جرائم پیشہ عناصر اور اشتہاری مجرموں نے پولیس کے سامنے ہتھیار پھینک کر قومی دھارے میں شامل ہونے کا اعلان کیا ہے۔
کشمورجرائم کے حوالے سے صوبے کا حساس ترین ضلع ہے جس کی بڑی وجہ یہ ہے کہ یہ ضلع بلوچستان، پنجاب اور سندھ کے سنگم پر واقع ہے جہاں دہشت گردی کے واقعات کے ساتھ اغواء برائے تاوان، چوری، ڈکیتی، لوٹ مار سمیت جرائم کی وارداتیں بہت زیادہ بڑھی ہوئی تھیں۔پولیس نے اپنی دوررس حکمت عملی کے ذریعے چند ماہ کے دوران جہاں بڑی حد تک دہشت گردی اور جرائم کی وارداتوں کی بیخ کنی کو یقینی بنایا ، وہیں ’’سرینڈر برائے انصاف ‘‘پالیسی کے انتہائی مثبت نتائج سامنے آئے ہیں جہاں بڑی تعداد میں بلوچستان اور سندھ کے مختلف علاقوں سے تعلق رکھنے والے روپوش ملزمان اور دہشت گرد، جرائم کی دنیا کوچھوڑ کر قومی دھارے میں شامل ہوگئے ہیں۔
ایس ایس پی کشمور سید اسد رضا شاہ کے مطابق صرف چار ماہ کے دوران ایک ہزار سے زائد کالعدم تنظیموں بلوچستان لیبریشن آرمی اور بلوچستان ری پبلک آرمی سمیت دیگر تنظیموں کے افراد ، مفرور و اشتہاری ملزمان اورجرائم پیشہ عناصر نے اس پالیسی کا فائدہ اٹھاتے ہوئےپولیس کے سامنے ہتھیار ڈالے۔
اس سلسلے میںگزشتہ دنوں ایس ایس پی آفس کشمور میں ایک تقریب منعقد کی گئی جس میں کالعدم تنظیموں سے تعلق رکھنے والے 80 افراد نے ’’سرینڈر برائے انصاف ‘‘پالیسی کے تحت ایس ایس پی کشمور کے سامنے جرائم کی دنیا چھوڑ کر خود کو پولیس کے حوالے کیا ۔اس موقع پر قومی دھارے میں شامل ہونے والے ملزمان نے اپنی صلاحیتوں کو ملک اور قوم کی خدمت، ترقی، خوشحالی کے لئے استعمال کرنے کے عزم کا اظہار بھی کیا۔
یہاں یہ بات قابل ذکر ہے کہ جرائم کی دنیا چھوڑ کو جولوگ قومی دھارے میں شامل ہورہے ہیں وہ کافی مطمئن نظر آتے ہیں۔ ہتھیار پھینک کر خود کو پولیس کے حوالے کرنے والے افراد، قومی پرچم ہاتھوں میں تھامے ’’پاکستان زندہ باد ‘‘کے نعرے بھی بلند کرتے ہیں۔
یہ بات قابل ذکر ہے کہ آئی جی سندھ سید کلیم امام نے بہتر پولیسنگ کے لئے مختلف النوع پالیسیاں مرتب کیں جن میں سے بعض پر اختلاف ہوسکتا ہے لیکن جسٹس برائے انصاف کی جو پالیسی متعارف کرائی گئی ہے ، وہ قابل تحسین ہے۔ ڈاکٹر کلیم امام، سندھ کے تمام پولیس افسران سے اکثر و بیشتر تجاویز بھی طلب کرتے ہیں کہ کون سی پالیسیاں درست ہیں اور کن پالیسیوں کے نتائج بہتر نہیں ہیں، اور ان میں مزید بہتری کے لئے پولیس افسران کیا تجاویز دیں گے؟۔ جو پالیسیاں آئی جی سندھ نے مرتب کی ہیں ان میں سے صرف ’’سرینڈر برائے انصاف ‘‘ کی پالیسی ایسی ہے جس کو بہت زیادہ پزیرائی ملی ہے۔
ایس ایس پی کشمور سید اسد رضا شاہ کے مطابق چار ماہ کے دوران ’’سرینڈر برائے انصاف ‘‘پالیسی کے تحت ایک ہزار سے زائد جرائم پیشہ افراد جن میں بلوچستان ری پبلیکن آرمی اور بلوچستان لبریشن فرنٹ سمیت دیگر کالعدم تنظیموں کے جرائم پیشہ افراد جرائم کی دنیا چھوڑ کر آئی جی سندھ سید کلیم امام کی اس پالیسی کے تحت قومی دھارے میں شامل ہو چکے ہیں۔ خود کو پولیس کے حوالے کرنے والےجرائم پیشہ افراد بگٹی، جاگیرانی، بھیو، بھلکانی سمیت دیگر قبائل سے تعلق رکھتے ہیں۔
یہ افرادڈیرہ بگٹی سمیت بلوچستان اور سندھ کے مختلف علاقوں سے تعلق رکھتے ہیں۔ انہوں نے کہا کہ قبائلی علاقوں میں رہنے والے لوگ بنیادی سہولتوں سے محروم رہتے ہیں، جن میں اکثر لوگ اپنی اور اپنی زیر کفالت افرادکی ضرورتوں کو پورا کرنے کیلئے جرم کی دنیا میں شامل ہوکر ملک و قوم کے لیے ضرررساں ثابت ہوتے ہیں۔
محکمہ پولیس جرائم پیشہ افراد کو قومی دھارے میں لاکر انہیں ہر قسم کی قانونی معاونت فراہم کررہا ہے۔اس پالیسی سے کئی لوگ استفادہ کرکے اپنی زندگی خوش گوار انداز میں گزار رہے ہیں ۔ان کی نسبت جو لوگ ابھی بھی جرم کی دنیا میں پھنسے ہوئے ہیں اور وہ پولیس کے خوف و ڈر سے اس سے باہر نہیں نکل پاتے وہ بھی اب اس پالیسی کا فائدہ اٹھا کر ہتھیار ڈال رہے ہیں۔
سیاسی و سماجی حلقوں نے بھی آئی جی سندھ کی پالیسیوں کو سراہا ہے ان کا کہنا ہے کہ کشمور ضلع قبائلی علاقے میں شامل ہے، جسے ہم ٹی بی اے سائوتھ شمار کرتے ہیں۔ ماضی میں یہاں دہشت گردی،ریلوے ٹریک، گیس پائپ لائنوں کو نقصان پہنچانے اوراغوا برائے تاوان کی وارداتیں بہت زیادہ تھے، لیکن پولیس کی مثبت حکمت عملی اور آئی جی سندھ کے احکامات کی روشنی میں کئے گئے اقدامات کے باعث کشمور ضلع میں امن و امان کی فضاء بڑی حد تک بحال ہوئی ہے، جس سےعام شہریوں اور کاروباری طبقے نے سکون کا سانس لیا ہے۔